حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Monday 1 March 2010

اردو ہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغ !!!

ریختہ ، کھڑی بولی ، پنجری ، دکنی ، ہندوستانی ، اردوئے معلی یا آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 251کی قومی زبان اردو دراصل وہی تیسری زبان تھی جو لنگوا فرانکاہونے کی وجہ سے ہندوستان کی سیاسی و ادبی قیادت کو ابلاغ کے لئے اپنانی پڑی ۔ ایک تو اس کے ساتھ انگریزوں کی انسیت ابتدا ہی سے فورٹ ولیم کالج کی شکل میں سامنے ا ٓگئی تھی دوسری یہ بات تھی کہ اس زبان میں ہر زبان کا تڑکا کافی سہولت سے لگتا تھا اور سما بھی جاتا تھا ۔

یہ کام شروع تو سرسید احمد خان نے کیا تھا لیکن اردو صحافت نے اس آمیزش کو برق رفتاری بخشی ۔ بہرحال اردو کی قبولیت اور آمادگی کے مزاج کا کرشمہ تھا کہ جناح صاحب ،جو خود گجرات سے تعلق رکھتے تھے اور جنہیں اردو اس زمانے کے انگریز حکام سے کم ہی آتی تھی ،اردو کو مذہبی تقدس کے مقام پر لے گئے ۔ 

ہوا یہ کہ 1937میں لکھنو میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جب اردو کومسلم لیگ کے اجلاسوں کے دوران لنگوا فرانکا کے طور پر قبول کرنے کی قرارداد آئی تو بنگال کے وفد نے اس کی کھل کر مخالفت اس دلیل کی بنیاد پر کی کہ اردو کو مسلم لیگ کی دفتری زبان بنانے سے مشرقی ہند میں یہ سیاسی جماعت (سیاسی جماعت؟) اپنی افادیت کھودے گی ۔ 

یہ الگ بات کہ مسلم لیگ کے صدر جناح صاحب نے دفتری مقاصد کی ساری خط کتابت انگریزی میں کر رکھی ہے اور اس کا ثبوت اگر ایک طرف لنڈن کی انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے تو دوسری طرف جناح پیپرز بھی اسی حوالے کے لئے دیکھے جاسکتے ہیں ۔ بنگال کے وفد کی یہ دلیل اس وقت بادل نخواستہ قبول کر لی گئی اور اس کی ایک وجہ بڑی ٹھوس تھی ۔ وجہ یہ تھی کہ اگر بنگال کے مسلم لیگیوں کو ناراض کردیا جاتا تو مسلم لیگ کی ساکھ شدید متاثر ہوتی کیونکہ یہ بنگال ہی تھا جہاں مسلم لیگ قائم ہوئی تھی اور جہاں مسلم لیگ کو رائے دہندگان کی نظر میں کوئی قبولیت حاصل تھی ۔

لیکن جناح صاحب اردو کے عشق سے دستبردار نہیں ہوئے تھے ۔ اردو کے بابا مولوی عبدالحق نے پہلے ہی قرار دے دیا تھا کہ مسلمانوں کی زبان صرف اور صرف اردو ہے ۔ یہ الگ بات کہ انہی کی بنائی ہوئی تنظیم انجمن ترقی  اردو کے پہلے صدر پروفیسر آرنلڈصاحب تھے ۔ 1948ءمیں جب پاکستان کی حکومت نے جناح صاحب کی سرکردگی میں یہ اعلان کیا کہ اردو ملک کی سرکاری زبان ہوگی تو مشرقی بازو ( جو 1971ءمیں ٹوٹ گیا تھا) میں ایک طوفان امڈآیا ۔ یہ جناح صاحب کی زندگی ہی کی بات ہے ۔ ڈھاکہ میں مظاہرے شروع ہوئے تو بنگلہ بھاشا کے عشاق پورے مشرقی پاکستانی میں سڑکوں پر نکل آئے ۔ بجائے اس کے کہ اس آگ کو بجھایا جاتا جناح صاحب ڈھاکہ پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے فضائل ِ اردو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ“اردو اور صرف اردو ہی پاکستان کی سرکاری زبان بننے کی اہلیت رکھتی ہے کیونکہ صرف اردو ہی مسلم قومیت کی روح رکھتی ہے اور جولوگ لسانی بنیاد پر تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں وہ دراصل اس ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور ملک دشمن ہیں ” ان کی اس تقریر کا بنگالیوں پر بڑا گہرا اثر ہوا ۔ پورے بنگال میں بنگلہ بھاشا انڈولن کی تنظیمیں بن گئیں ۔

اس دوران آئین ساز اسمبلی کے بنگالی ارکان نے اپنی سی ایک کوشش کرکے مسئلے کو ٹھنڈا کرنے کی سعی کی اور آئین ساز اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی کہ اسمبلی میں آئین سازوں (یعنی ارکان کو ) کو بنگالی میں بھی بولنے کی اجازت دی جائے لیکن شہید  ملت صاحب نے یہ کہہ کر قرارداد ویٹو کردی کہ اردو کی بجائے بنگالی بولنا ملک دشمنی اور ملک شکنی ہے ۔ اس کے بعد زبان کی محبت میں بنگالی اندھے ہوگئے ۔ انہوں نے مظاہرے شروع کردئے اور پاکستان کی پولیس نے ان پر گولیاں چلانا ۔ 

پھر 21فروری 1952کا وہ دن بھی تاریخ نے دیکھا جب نہتے بنگالی طلبا ءزبان کی محبت میں زندگی کی بازی پولیس کی گولیوں کے آگے ہار گئے ۔ یونیسکو نے ان شہدائے لسان مادر کی یاد میں اس دن کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا ۔ دلچسپ واقعہ ہے کہ پاکستان میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے ۔ اس سے بھی دل چسپ بات یہ ہے کہ جب 1956ءکا آئین بنایا گیا تو اس میں بنگلہ بھاشا کو سرکاری زبان تسلیم کرلیاگیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کو اپنے مشہور چھ نکات کے دیباچے میں لکھنا پڑا کہ یہاں ہمارا ہر مطالبہ اس وقت تسلیم کیا جاتا ہے جب اس کے لئے بنگالی اپنا خون بہادیں ۔ ایک وفاقی مملکت میں ایسی تفریق کہ ارکان مقننہ تک اپنی زبان بولنے کے استحقاق سے محروم ہوںوہ شکست و ریخت کا باعث نہ بنے تو کیا بنے ؟ ایک ایسی صورت میں جب مشرقی بازو میں زبان کے مسئلے پر ان پڑھ لوگ بھی مر رہے ہوں اور مغربی بازو میں اردو کے بابا مولوی عبدالحق جیسے عالم و فاضل لوگ اردو کے لئے خون بہانے پر ریاست کی تعریف کرتے ہوں اور کراچی و لاہور میں ریلیاں نکال رہے ہوں، دو وفاقی اکائیوں کا اکھٹے چلنا ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے یعنی مولوی صاحب نے اس وقت اردو کو قومی زبان بنوانے کا خواب دیکھا تھا جب قومی زبان کا مسئلہ ہی موجود نہ تھا ۔ اور اس قومی زبان کے قومی قرار پانے کا فائدہ ہی کیا جو دفتروں اور معیشت کی زبان نہیں ٹھہر سکتی ۔ ہاں البتہ اس جھگڑے سے بنگالیوں نے وہ سیاسی نتائج اخذ کئے جو 16دسمبر 1971ءکو ان کے ایک الگ ریاست کی صورت میں جامع طور پر سامنے آئے ۔

اگر پاکستان کے آغاز میں کسی تعصب سے کام نہ لیا جاتا اور بنگلہ بھاشا بھی سرکاری زبان قرار پاتی تو عین ممکن تھا کہ 16دسمبر کی تاریخ اور 1971ءکے سن کی اہمیت ہی نہ ہوتی ۔ آج جو لوگ بنگلہ دیش کی آزادی کو سقوط ِ مشرقی پاکستان اور سقوطِ ڈھاکہ قرار دیتے ہیں اور اس دن حکومتوں کو لعن طعن کا نشانہ بناتے ہیں انہیں شدومد سے یہ سوال بھی پوچھنا چاہئے کہ اردو کو اس کے حق سے زیادہ اور بنگالیوں کو ان کے مطالبات سے کم دینے میں کیا حکمت پوشید ہ تھی ؟

ہم کسی سیاسی محرومی کا کوئی حوالہ دینا نہیں چاہتے- ایسے حوالوں کی تعدا د بھی شمار و حساب سے باہر ہے لیکن کیا سات لاکھ چھیانوے ہزار چھیانوے مربع کلومیٹر اور سترہ کروڑ کی آبادی میں اتنا سچ بولنے اور سہنے کی کسی میں جرات نہیں کہ بنگالیوں کے ساتھ ان کے زبان کے حوالے سے نہایت ہی غیر منصفانہ رویہ رکھا گیا

جناب بشیر احمد بلور نے ماضی کا حوالہ دئے بغیر ماضی ہی کی ایک جھلک دکھائی ہے اس میں ناراض ہونے کی بات کہاں ہے؟

اب بھی ان کہی بہت ہیں ۔یارزندہ صحبت باقی ۔

No comments:

Post a Comment