حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Monday 12 December 2011

امارشونر بنگلہ


16 دسمبر کی تاریخ ہر سال آتی ہے اور پڑھنے و دیکھنے کا ایک مختلف النوع مواد چھوڑ دیتی ہے ۔ اکثریت کی رائے اب بھی بنگلہ بندھو جناب شیخ مجیب الرحمن شہید کو غدار کہنے پر ہی منتج ہوتی ہے اور دیانت داری سے کوئی بھی اس بات کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتا کہ بنگلہ دیش بنانے میں شیخ مجیب الرحمن  شہیدسے زیادہ عمل دخل اس اشرافیہ کا ہے جس نے 1947ءسے 1970ءکے انتخابات تک اس المیے کو پال پوس کر اس درجہ تک جوان اور پھل آور بنا دیا تھا کہ انتخابات میں واضح اکثریت کے حصول کے باوجود عوامی لیگ کو انتقال اقتدار سے احتراز کسی مغربی پاکستانی کو ( عمومی سطح پر بھی ) بے انصافی ہی نظر نہیں آتی تھی ۔ المیہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چئیرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر پیپلز پارٹی نے شیخ مجیب کو پھانسی دو کے نعرے لگانے شروع کردئے اور پاکستان کی اکثریت کے قائد کو قیادت کے حق سے محروم کر کے ایک غدار ،وطن فروش اور بھارتی ایجنٹ کے روپ میں پیش کرنا شروع کر دیا ۔ 1970ءکا انتخاب صرف پیپلز پارٹی نہیں ہاری تھی بلکہ پیپلزپارٹی کی شکست کی صورت فوج اور طبقہ اشرافیہ کو بھی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی ۔ صورت حال ہو بہو وہی بن گئی تھی جو 14اگست 1947ءکو ہمارے صوبے کی تھی ۔ یہاں مسئلہ یہ واقع ہوچکا تھا کہ خدائی خدمت گاروں اور کانگریس کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کی آئینی قانونی و اکثریتی حکومت مسلم لیگ کی مرکزی حکومت کی آنکھ کا کانٹا بن چکی تھی ،سو مرکزی حکومت (جس کے سربراہ ظاہر ہے کوئی اور نہ تھے بلکہ وہ ذات اس عہدہ اعلیٰ پر متمکن تھی جن کے اقوال اور افعال پاکستان کے لئے مشعل راہ ٹھہرنے والے تھے )کے حکم پر 21اگست 1947ءکو جبراً اس حکومت کی چھٹی کروا دی گئی اور خان قیوم کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا ۔ زیادتی اتنی کی گئی کہ نصاب سے کیا تاریخ سے بھی یہ بات خارج کردی گئی کہ قیام پاکستان کے وقت اس صوبے کے وزیراعلیٰ کون تھے ؟اور آج بھی آپ کو پاکستانی ضرورتوں کے مطابق لکھی گئی تاریخ کی جتنی کتابیں نظر آئیں گی اس میں اس صوبے کی وزرات علیا میں سرفہرست نام ڈاکٹر خان صاحب کی بجائے خان قیوم کا ہوگا ۔پختونوں کی بدقسمتی کہئے کہ ہمارا جغرافیہ ہمیشہ سے ہماری سیاست کے آڑے آتا رہا ۔ مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ قدرت نے ایسی کوئی ستم ظریفی نہیں کی ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ مشرقی بازو کے پاکستانیوں نے ہمیشہ (1971ءتک) مغربی پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانیت کا ثبوت دیا ۔ مسلم لیگ ق ( یہ وہ قاف لیگ نہیں جو ان دی لائن آف فائر کے مصنف کی مرضی پر ہائر کی گئی)کے سربراہ ملک قاسم نے راقم الحروف کو ایک انٹرویو میں بتا یا تھا کہ پاکستان کا قیام دراصل مشرقی پاکستان کی قربانیوں کا ثمر ہے ۔ بات تو بالکل درست اور بجا ہے ۔ دیکھ لیں کہ مشرقی پاکستان کے سوا سندھ ، پنجاب ، بلوچستان اور سب سے بڑھ کر اس خالص مسلم آبادی کے صوبے یعنی پختونخوامیں تقسیم کے وقت اور اس سے قبل مسلم لیگ کی تنظیم ہی کیا تھی ؟اور اگر تنظیم تھی تو اس تنظیم کا عوام سے رشتہ کتنا تھا ؟یہ صرف مشرقی پاکستان ہی تھا جس نے مسلم لیگ کو اپنے دامن میں پناہ دے رکھی تھی اور اس میں کسی کو کوئی شک بھی نہیں ہونا چاہئے ۔ مسلم لیگ کی تمام تحاریک کا گڑھ بنگال کا وہ حصہ ہی تو تھا جس میں مسلمان اکثریت میں بستے تھے ۔ مسلم لیگ کی حکومتیں بھی وہاں بنتی رہتی تھیں ۔ مسلم لیگ کی بلکہ بنیاد بھی ڈھاکہ ہی میں رکھی گئی اور اس کی پرورش بھی بنگالی نوابوں کی رہین منت ہے ۔ اب ایسے لوگوں کا جنہوں نے پاکستان اور مسلم لیگ بنانے میں تن من دھن کی پرواہ نہیں کی ان لوگوں کا 26مارچ1971ءاور 16دسمبر 1971ءتک پہنچنا ایک حادثہ تو نہیں کہلایا جاسکتا ۔ یہ تو دراصل انہی لوگوں کی متعصب ذہنیت تھی جنہوں نے قیام پاکستان کو بھی بنگالیوں کی سازش قرار دیا تھا ۔ جب کوہلو کو پاکستان کی فوجی حکومت نے کچھ برس قبل فتح کیا تو شہید نواب محمد اکبر بگٹی کے مخالف اعظم میراحمدان بگٹی کو ڈیرہ بگٹی لانے کے مناظر خصوصی طور پر پورے پاکستان کو دکھائے جارہے تھے ۔ بی بی سی کے لکھاری کاشف قمر بھی کراچی سے آنے والے صحافیوں کے ہمراہ تھے ۔ انہوں نے بعد میں لکھا تھا کہ ایک اعلیٰ عہدے پر تعینات شاہین جرنیل نے ”ذہن سازی “ کے لئے صحافیوں کو بتا یا کہ 1905ءمیں بنگال کی تقسیم کے ساتھ ہی بنگالی مسلمانوں کو یہ خیال آیا کہ ان کا ایک الگ ملک ہونا چاہئے ۔ چنانچہ 1906ءمیں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ دکھاوے کے لئے اس کا نام آل انڈیا مسلم لیگ رکھا گیا ۔حالانکہ ابتدا میں اس پر بنگال کے مسلمان نوابوں کا قبضہ تھا لیکن بعد میں اترپردیش اور وسطی ہندوستان کے مسلم رہنماوں کو اس کی قیادت ظاہری طور پر سپرد کی گئی کیونکہ بنگالی تنہااس ”سازش “ کو کامیاب نہیں بنا سکتے تھے ۔1930ءمیں جب ڈاکٹر سر محمد اقبال نے پاکستان کے خدوخال بیان کئے تو بنگالی رہنماوں نے اس کی مخالفت کی 1938ءمیں اقبال کی موت سے بنگلہ دیشی  سازش کو سمجھنے والے واحد مسلم رہنما بھی نہ رہے 22مارچ کو بنگال ہی کے اے کے فضل حق نے اسی سازش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایک قرارداد پیش کی جس میں مختلف آزاد ریاستوں کا تصور تھا جسے کوئی نہ سمجھ سکا اور اس کی منظوری مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں دے دی گئی بعد میں 1946ءکے دسمبر میں جناح صاحب بھی اس سازش کو بھانپ گئے اسی وجہ سے دہلی کے سالانہ اجلاس میں مختلف آزاد ریاستوں کے بجائے لفظ پاکستان کا اندراج اس قرار داد میں کر دیا گیا ۔ پھر حسین شہید سہروردی نے جناح صاحب کے کان بھرے اور انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں یہ اعلان کر دیا کہ Urdu and Urdu will be the only National Language of Pakistanیعنی اردو اور صرف اردو ہی پاکستان کی واحد قومی زبان ہوگی جس پر یونیورسٹی میں ہنگامے بھی ہوئے ۔ اندازہ لگائیں کہ شاہینوں کے نزدیک قیام پاکستان اور تخلیق ِ مسلم لیگ دونوں بنگالی سازش ٹھہرچکے ہیں ۔ یہ بات نئی نہیں بنگالیوں کا وجود ہی پاکستان میں مس فٹ تھا ایک تو ان کا قد پانچ فٹ پانچ انچ کے اوسط پر رکا ہوا تھا ان کی زبان ایسی تھی جسے وہی سمجھتے تھے (اور اتنا کچھ سمجھتے تھے کہ اسی زبان کے لئے انہیں ایک نئی ریاست کی جدوجہد کرنی پڑی)ان کا رنگ بھی کچھ زیادہ گہرا تھا ۔ یہ بھی دنیا کی تاریخ کا ایک انوکھا ہی واقعہ تھا کہ ملک کی اکثریت نے اپنے ہی ملک کی اقلیت سے آزادی حاصل کی ۔ اور باقی ماندہ پاکستان کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن نے جو رپورٹ اس سانحے کے بعد جاری کی اس پر عمل درامد سے احتراز کیا اس کی اشاعت کو بھی وسیع تر ملک مفاد میں نقصان دہ قرار دیا گیا ۔
آج 16دسمبر ہے ۔ لیکن تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اس دن سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی جارہی ۔ جب میاں نواز شریف صاحب اصولی سیاست کا علم تازہ تازہ تھام کر سچائیوں کا اظہار کر رہے تھے تو اس زمانے میں کسی صوبے میں ان کی حکومت نہیں بنی تھی بلکہ انتخابات بھی نہیں ہوئے تھے اور بدنام ِ زمانہ ایمرجنسی بھی نہیں لگی تھی 18اگست 2007ءکے تمام اخبارات میں ان کا ایک بیان ناقابل فراموش حیثیت اختیار کر گیا تھا ( کم از کم ہمارے لئے ) انہوں نے کہا تھا کہ بھارت میں 134فوجی جرنیل ہیں لیکن سیاسی امور پر کسی ایک جنرل کا اخباری بیان شائع نہیں ہوتا ہمارے ہاں چالیس کے قریب جرنیل ہیں اور ساٹھ برسوں سے حکمرانی انہی کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن ہوا کیا ۔ جب کور کمانڈروں نے بالاجتماع کیری لوگر بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو میاں نواز شریف کی اصولی سیاست نے ان کی کوئی رہنمائی نہیں کی انہوں نے کیری لوگر بل کی مخالفت کا بیڑہ اٹھا لیا اور فوج کی جانب سے اس ردعمل کو دلیل اعظم کے طور پر بیان کرنا شروع کردیا ۔ ابھی کل پرسوں ہی ان کا ایک دوسرا قول زریں بھی اخبارات کی زینت بنا ہے کہ عوام کے مسائل حل نہ ہونا جمہوریت کی ناکامی ہے ۔ اس طرز عمل کو کیا کہا جاسکتا ہے ۔ ہمارے پاس الفاظ نہیں وہ حکومت کی مخالفت میں جمہوریت پر تبریٰ بھیجنے سے بھی باز نہیں آرہے ۔ حالانکہ میثاق ِ جمہوریت کے بعد ان کے اس طرح کے بیانات اور رویوں کی گنجائش ہی نہیں بنتی ۔رویے اب بھی وہی ہیں جو اس سے قبل تھے 1971ءسے 2009ءتک کی مدت میں پاکستان میں بہت ساری تبدیلیاں آئی ہیں لیکن مقتدر حلقوں کے تیور اور روےے نہیں بدلے ۔ کوہلو کے پہاڑوں میں حکومتی رٹ قائم کرنے کی فکر سے مقتدر ہ کی راتوں کی نیند غائب ہوگئی تھی لیکن خیبر ایجنسی میں ایسے حالات کسی کو نظر نہیں آرہے ۔ ڈیر ہ اسمٰعیل خان کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے وہاں دن دیہاڑے سرگرمیاں رک جاتی ہیں لیکن کسی کو فکر نہیں ۔ کرم ایجنسی میں بھی حالا ت کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ محرم الحرام نے  انتظامیہ  کا خون خشک کردیا تھا ۔ یہاں تک کہ اس ملک کے معاملات کا عالم یہ ہے کہ خود کش حملوں کے خلاف ا تفاق رائے کے حصول کے لئے حکومت سرگرداں نظر آتی ہے اور حکومت میں موجود مذہبی سیاسی جماعت کے رہنماوں کا تعاون بھی حکومت کو نصیب نہیں ہوتا۔ مہنگائی اور کرپشن کے ساتھ ساتھ اشیائے ضروریہ کا بحران علیحدہ تفصیل کا متقاضی ہے ۔ امن و امان کے محاذ پر ہماری ناکامی ہر لحاظ سے مسلم ہے ۔ جنگی ترانوں اور ٹی وی کے ٹریٹ شدہ فوٹیج کے سوا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا کوئی مواد ہی نہیں ۔ جن لوگوں کو گرفتار کرنے پر حکومت نیٹ ورکس کے کمر توڑنے کے اعلانات کرتی رہتی ہے وہ اتنے غیر موثر لوگ ہیں کہ اب بھی حملے ہو رہے ہیں ۔ بجلی اور سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف کوئی احتجاج کرتا ہے تو اس پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں ۔ آنسو گیس پھینکی جاتی ہے ۔ اس کے مقابل بنگلہ دیش کا چھوٹا سے ایک ملک جس نے پاکستان کے بہت بعد پاکستان ہی سے آزادی حاصل کی مختلف شعبوں میں ترقی کی مثال کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔ ڈھاکہ جنوبی ایشیا ءکا واحد دارالحکومت ہے جہاں پینے کے پانی کا کوئی مسئلہ نہیں ۔ ورلڈ بینک کی کتابوں میں بنگلہ دیش کو تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک قرار دیا گیا ہے ۔ تین سال قبل جب ہم ڈھاکہ میں تھے تو اس وقت ہمیں یہ معلوم ہو ا کہ وہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کس درجہ پر کم ہیں ۔ پاکستان کی کرنسی میں تین ہزار روپوں سے وہاں ایک باعزت زندگی بسر کی جاسکتی ہے ۔ سادگی ہے اور سہولتوں کی فراوانی ہے ۔ ایک سردی کا موسم ڈھاکہ میں نہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے میں سردی ہوتی ہے وہ مہینہ وہاں پر لہو گرمانے کا باعث بنا تھا ۔ جو لوگ مشرقی پاکستان کی آزادی کو سقوط کہتے ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ کیسا سقوط تھا جس نے ہم سے بعد آزادی حاصل کرنے والوں کو ایسی ترقی عطاکردی کہ اسے مثال کی حیثیت دی جارہی ہے اور یہ خودغرضی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم اس دن خود احتسابی کے عمل کو زندہ رکھنے کی بجائے بنگالیوں کی مذمت ہی کرتے رہتے ۔ ایم کیو ایم کو ہم سیاسی جماعت نہیں سمجھتے لیکن اس کے سربراہ الطاف حسین نے جو کہا تھا اس سے ہم اتفاق ضرور کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس دن کو یوم سقوط ِ ڈھاکہ نہیں کہنا چاہئے اور نہ ہی اس دن کو اس طرح منانا چاہئے بلکہ اس دن کا تقاضا یہ ہے کہ اہل پاکستان کو یہ دن یوم ندامت کے طور پر منانا چاہئے ۔ ہمارا ذاتی صدمہ تو یہ ہے کہ امارشونربنگلہ (میرے محبوب بنگال) کے بچھڑنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست حالت نزع میں پہنچ گئی ۔ آج بھی کسی ایسے موضوع پر کھل کر بات نہیں ہوسکتی جو رواداری ،ترقی پسندی اور روشن خیالی کی تشریح کرے ۔ اور بنگالیوں کو نکال باہر کرنے کے بعد ہماری روشن خیالی اور جمہوریت پسندی معتبر بھی کہاں ٹھہر سکتی ہے ۔

Thursday 22 September 2011

پبلک ریلیشننگ

 میرے بھی ہیں کچھ خواب؟                                                                      




                                                                              
ہمارے محبوب و مرشد جون ایلیا نے نجانے کس موڈ میں ایک مرتبہ کہا تھا کہ فوج کہیں کی بھی ہو ہوتی پنجابی ہے۔اب پنجاب شناسی کا ہمیں نہ کوئی دعویٰ ہے اور نہ کوئی تجربہ لیکن پاکستان کے توسیع پانے والےواحد آرمی چیف جناب جنرل اشفاق پرویز کیانی کی کراچی میں حالیہ مصروفیت نے حضرت جون کے اس معمہ نما بیان کی طرف ایک مرتبہ پھر ہماری توجہ پھیر دی ہےاور ہم یہی سر تلاش کر رہے ہیں کہ قومی مزاج کے وہ کون سے اہم نکات ہیں جو جناب جون کے اس عقیدے کی بنیاد ہیں کہ فوج جہاں کی بھی ہو ، ہوتی پنجابی ہے۔

کراچی میں جناب آرمی چیف کی مصروفیت کے حوالے سے بڑے بڑے اخبارات نے بڑی بڑی سرخیاں جمائی ہیں ، خبروں کے مطابق بدھ یعنی 21ستمبر کو جناب جنرل صاحب اچانک کراچی پہنچ گئے (اچانک!یاد رکھنے کا لفظ ہے)اور انہوں نے کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں کو فوری طور پر طلب کرلیا ، پونے دو گھنٹوں کی اس ملاقات میں بقول اخبارات، کراچی کے چیدہ چیدہ تیس پینتیس تاجر و صنعت کار موجود تھے ، ایک اخبار کے مطابق جنرل صاحب تاجر برادری کے گفتگو“مکمل توجہ اور غور” سے سنتے رہے اور دوران گفتگو وہ اپنی رائے کا اظہار بھی وقتاً فوقتاً کرتے رہے ، انہوں نے تاجروں کو یقین دلایا کہ اگر رینجرز نے (جن کے آپریشن پر فوج کڑی نظر رکھے ہوئے ہے)امن بحال کرنے میں غفلت کا مظاہر ہ کیا تو کراچی میں فوج آجائے گی ، انہوں نے کہا کہ مسلح افواج کراچی کے حالات نظر انداز نہیں کرسکتی ، کیونکہ کراچی ملک کا معاشی مرکز ہے انہوں نے تاجروں کو مشورہ دیا کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ کراچی میں قیام امن کے لئے مزید سخت اقدامات کئے جائیں ، کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر سعید شفیق صاحب بڑے خوش تھے اور کہہ رہے تھے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ آرمی چیف نے امن وامان کے مسائل کے حوالے سے کراچی کے تاجروں سے ملاقات کی اور ان کی گفتگو سنی ۔ 

جس اچانک کا اوپر ذکر ہے کچھ اسی اچانک انداز سے ایک خبر مزید آج جمعرات کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ عسکری حلقوں ” میں حکومت کو چلتا کرنے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں ، ایک اخبار نے مانیٹرنگ ڈیسک کے حوالے سے لکھا ہے کہ آٹھ ستمبر کو کورکمانڈرز کی حالیہ کانفرنس میں بعض کور کمانڈرز نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا کہ اب حالات اس درجہ پر نزاکت سے دوچار ہوگئے ہیں کہ فوج کو اقتدار سنبھال لینا چاہئے ، لیکن آرمی چیف نے انہیں ایسی باتیں کرنے سے روک دیا اور کہا کہ سویلین حکومت کو ابھی مزید موقع ملنا چاہئے ، یہ بات واضح رہے کہ پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ذمہ دار شعبے آئی ایس پی آر نے نہ تو 22ستمبر 2011تک آٹھ ستمبر کو ہوئی اس 142ویں کور کمانڈر کانفرنس کی کوئی پریس ریلیز جاری کی اور نہ ہی آج بروز جمعرات تک بدھ کے دن کراچی میں جناب جنرل صاحب کی سرگرمیوں کی کوئی تفصیل میڈیا کو دی ہے ۔ 
 
فوج کی اس اچانک حساسیت کی کوئی خاص وجہ نہیں ، جناب جنرل صاحب کی قیادت میں فوج کا مزاج عمومی اور عوامی مسائل کے حوالے سے قابل ‍ ذکر حد تک حساس ہو چکا ہے ، کیری لوگر بل نے اسی عوامی جذباتیت کی خشت ِ اول رکھی تھی اور پھر اس پر اکتفا نہیں ہوا تھا بلکہ توانائی کے بحران پر بھی زبردست قسم کا ایک بیان جاری کیا گیا تھا ، پھر سیلاب کے حوالے سے بھی فوجی دانشوروں کے رشحات قلم اور نتیجہ ہاۓ فکر سے عوام کو متمتع کیا گیا تھا ، یہ الگ بات کہ جب سن 2005  ء میں زلزلہ آیا تھا اور اس زلزلے نے پختونخوا کے دروبام ہلا دئے تھے اس میں فوج نے جو خدمات انجام دی تھیں ان کا بل دائیں ہاتھ سے جناب اکرم درانی کی اس وقت کی حکومت کو تھما دیا گیا تھا ، چونکہ اس وقت مستعفی ، معزول  یا مفرور صدر مملکت ہی آرمی چیف تھے اس لئے کسی قسم کی پبلک ریلیشننگ کی ضرورت کے حوالے سے فوج کی کوئی حساسیت تھی ہی نہیں ، اس زلزلے کی شدت یا اس سے ہونے والے نقصانات کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، پوری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ 2005 ء کا زلزلہ نوعیت ، شدت اور نقصانات کے حوالے سے کس قدر بھیانک تھا لیکن اس وقت کی ضروریات اور آج کے عصری تقاضوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔

اس وقت پورا ملک جن عذابوں سے گزر رہا ہے ، کراچی کی ٹارگٹ کلنگ ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ، کینسر اور بخار کا جیسے کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا ، جس وقت کراچی میں جناب جنرل صاحب اس کے معاشی مرکز ہونے پر متفکر ہو کر تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کررہے تھے اس سے شاید چوبیس گھنٹے پہلے بلوچستان کے علاقہ مستونگ میں اہل تشیع زائرین کی ایک بس کے ساتھ ہونے والے واقعے پر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے دل آزردہ تھے ، پشاور کے قلب میں دھماکے کو اڑتالیس گھنٹے ہوئے تھے ، ملاقات کے وقت طالبان کے کارندے پاکستان کی فوج ہی کے ایک ایسے ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنا رہے تھے جس میں سوات کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل جاوید اقبال کو گولیا ں ماری جارہی تھیں ، اس سے سے کچھ ہی عرصہ قبل دیر اور چترال کی طرف سے افغانستان سے در اندازوں کی کارروائی میں کتنے ہی لوگ جاں بحق ہوچکے تھے ، لیکن حیرت ہے کہ جناب آرمی چیف کو سیکیورٹی سے متعلق ان امور کی ذمہ داری نبھانے سے زیادہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی فکر لاحق تھی ، یہ فکر بے جا بھی نہیں کہ کراچی دراصل اس ملک کا معاشی مرکز ہے، باقی علاقے خصوصاًہمارے پختونخوا کے علاقے تو بدمعاشی کے مراکز ہیں ، وزیر اعظم سے لے کر کسی بھی وفاقی وزیر یا صدر مملکت سے لے کر کسی دوسرے ذمہ دار تک کسی نے دہشت گردی (دہشت گردی ایک بیرونی خطرہ ہے ، جس کی سرکوبی کرنا افواج پاکستان کا اولین فرض ہے) سے متاثر ہ شہر پشاور یا اس صوبے کے دوسرے کسی حصے میں معاشی سرگرمیوں میں مصروف لوگوں سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کے نقصانات کس درجہ پر ہوئے ہیں اور آیا ان نقصانات کے ازالے کی کوئی صورت بھی ہوگی یا نہیں ، یہ صوبہ پہلے ہی سے غریب ہے ، سرکاری اخراجات کا بوجھ بھی بمشکل برداشت کرسکتا ہے  ، اٹھارویں ترمیم کے ثمرات سے فیض یاب ہونے میں ابھی کافی وقت پڑا ہے لیکن افسوس کہ وزیر اعظم نے پشاور آکر یہ نہیں کہا کہ پشاور کے حالات حکومت نے ٹھیک نہ کئے تو کوئی دوسرا آکر  اقتدار سنبھال لے گا  اور نہ ہی سول سوسائٹی کی جان چیف جسٹس نے پشاور آکر یہ اعلان کیا کہ خاکی وردی والوں کو اقتدار سنبھالنے کا جواز فراہم نہ کریں ورنہ شاید آرمی چیف یہاں بھی پہنچ جاتے ۔ 

ساری بات یہی ہے ایک ایجنڈا ہے جس پر آہستہ آہستہ عمل کیا جارہا ہے ، چند باخبر لوگ اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو سینیٹ کے انتخابا ت کرانے کا موقع نصیب نہیں ہوگا تو ان لوگوں کو یہ سر قدسی طور پر ہاتھ نہیں لگا انہیں ایک عارضی تاریخ بتا دی گئی ہے کہ اس کے بعد نظام کی رکھوالی کرنے والے بھی  زور آوروں اور بندوق برداروں کو خود ہی ہاتھ سے پکڑ کر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیں گے ، ورنہ آئین کی پاسداری اور تحفظ کا حلف اٹھانے والے چیف جسٹس کو ضرورت ہی کیا پیش آئی تھی کہ وہ خاکی وردی کے جواز کو استحکام بخشنے کی بات کریں ، یہ سب کچھ ایک طے شدہ ایجنڈے کے مطابق ہی ہورہا ہے ، آئی ایس پی آر نے ترجمانی کے فرائض کی انجام دہی میں تساہل نہیں برتا ، بلکہ اس نے گزشتہ دو ایونٹس کی رپورٹنگ نہ کر کے ہی خود غلط فہمیوں کو پیدائش کا موقع فراہم کیا اور اس وقت آئی ایس پی آر کے فرائض یہی تھے کہ لوگوں کو چہ می گوئیوں کا موقعہ فراہم کردیا جائے ، میاں نواز شریف ، چیف جسٹس اور جناب جنرل صاحب تینوں اگر سندھ و کراچی کے دوروں پر ہیں تو یہ سیاست کی ملتی جلتی کڑیا ں ہی ہیں ، یہ تو میاں نوازشریف صاحب ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے جمہوریت پر تبریٰ بھیجتے ہوئے یہ کہا تھا کہ حکومت کی کرپشن نے جمہوریت کو بدنام کردیا ہے ، وہ سیاست بھی کہہ سکتے ہیں لیکن لفظ سیاست اس ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں تھا  جو بقول مرشدی پنجابیوں کا مطمح نظر ہے۔ ورنہ جب جنرل صاحب کراچی میں پبلک ریلیشننگ کر رہے تھے اور یہ کور کمانڈر ز کانفرنس میں انہیں حسب دل خواہ مبینہ مشورے دئے جار ہے تھے وہ یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ سرکاری ملازموں کو اپنے حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے !!!!

Friday 3 June 2011

سلیم شہزاد ۔۔۔ اقرباءمیرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر


 
وہ جس کی آنکھ نے کل زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک میں نہ تھا وہ بچھڑنے والا ہے
 
پاکستان میں ایشیا ٹائمز کے بیورو چیف اور سینئر صحافی سلیم شہزاد کا قتل سال رواں میں شہید ہونے والے دیگر صحافیوں سے قدرے مختلف ہے ۔ اس قتل کے پس پردہ محرکات کی نشان دہی کرنے والے نہایت ہی وضاحت سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اس واقعہ کی ذمہ داری آئی ایس آئی یا فوج ہی سے وابستہ کسی اینٹلی جنس ادارے پر عائد ہوتی ہے اور اپنے اس الزام کے ثبوت کے لئے ان کے پاس دلائل کا ایک نہ ختم ہونے والا انبار موجود ہے 

اس حوالے سے حیران کن امر یہ ہے کہ جس ادارے پر الزام لگایا جارہا ہے اس کی جانب سے تعلقات عامہ کی ذمہ داری جن پر عائد ہوتی ہے وہ )ان سطور کے لکھے جانے تک )بالکل خاموش ہیں ، ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان میں کرتا دھرتا علی دیان نے تو یہ تک کہا کہ انہیں مقتول نے واقعے سے سال بھر پہلے آگاہ کردیا تھا کہ اگر اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ذمہ دار کون ہوگا ؟برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ویب سائٹ پر ایک مضمون نگار نے یہ بھی کہا ہے کہ علی دیان کو انہی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ وہ بہت جلد اپنے گھر پہنچ جائیں گے انہیں پہلے موبائل فراہم کیا جائے گا اور بعد ازاں رہا کر دیا جائے گا، یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ یہ اغوا شمالی یا جنوبی وزیرستان سے نہیں ہوا تھا ، نہ ہی ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان ، پشاور ، باڑہ یا پختونخوا کے کسی بھی ضلع سے سلیم شہزاد کو اغوا کیا گیا تھا بلکہ امر واقع یہ ہے کہ انہیں اسلام آباد سے اٹھایا گیا ، ان پر دو دن نجانے کہاں سخت ترین تشدد کیا گیا اور بعد میں انہیں سرائے عالمگیر کے قریب مردہ حالت میں پھینک دیا گیا ، مقامی پولیس نے مقتول کا پوسٹ مارٹم کرایا اور ایدھی والوں نے انہیں دفنا بھی دیا ، جس شخص نے سلیم شہزاد کو غسل دیا اور قبر میں اتارا اس نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوسکا کہ بالآخر پولیس مقتول کی تدفین میں اس درجہ عجلت پر بضد کیوں تھی ؟ 

سلیم شہزاد کے قتل سے قبل اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ ان کی شناخت نہ ہوسکے اس کا ایک طریقہ تو ان کے قتل کے انداز میں ڈھونڈا گیا اور اس دوسری حرکت یہ کی گئی کہ ان کی جیب سے شناختی کارڈ نکال کر ان کی گاڑی میں پھینک دیا گیا ، تاکہ فوری شناخت نہ ہونے کی صورت میں تدفین میں کوئی رکاوٹ نہ رہے ، 

اس قتل پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے دوروزہ سوگ کا اعلان کیا ہے اور کم و بیش ہر ضلعی و تحصیل صدر مقام پر اہل صحافت نے مظاہر ے بھی کئے ہیں ، لیکن چند سوالات و خدشات ایسے ہیں جو شہید سلیم شہزاد کے سوئم سے قبل ہی اس پیش گوئی کو نہایت ہی مستند بنیاد فراہم کرتے ہیں کہ ہر احتجاج دیوار سے سر ٹکرانے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوگا، اس کیس کو میڈیا جلد یا بدیر فراموش کردے گا اور نامزد ملزموں کے خلاف ایف آئی آر تک نہیں کاٹی جاسکے گی اور اگر ٹیسٹ ٹیوب سول سوسائٹی ( جو افتخار چودھری کی ملازمت کی بحالی کی تحریک کے فوراً بعد کوما میں چلی گئی تھی اور اب اس کے میڈیائی مشیر ہی رہ گئے ہیں جو صرف اخباری بیانات سے کام چلارہے ہیں) کی تھوڑی بہت دلچسپی رہی اور کسی سوموٹو ایکشن کے ذریعے کچھ ہلچل مچی تو مسنگ پرسنز کے مقدمے کی طرح اس کی بھی تاریخوں پر تاریخیں بدلتی رہیں گی اور مسئلہ 2013ءمیں کسی نئے چیف جسٹس کے سامنے ہوگا (بشرطیکہ کسی فل کورٹ اجلاس میں پارلیمینٹ سے عدلیہ یہ مطالبہ نہ کر بیٹھے کہ جناب چودھری صاحب کو تاحیات چیف جسٹس بنا دیا جائے) 

جب سلیم شہزاد کے قتل کی پہلی خبر جیو ٹی وی پر سامنے آئی تو جو حضرت ٹیلی فون کے ذریعے تفصیلات دے رہے تھے ان کو شاید پہلے سے سمجھا دیا گیا تھا کہ انہیں کہا کہنا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ اس قتل کے پس پشت محرکات میں ان کا صحافتی کردار یا کوئی مخصوص سٹوری تو نہیں تھی تو جناب رپورٹر صاحب کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا ، نیوز کاسٹر نے ان سے اگلا سوال یہ نہیں پوچھا کہ بظاہر ایسا کیوں نہیں لگتا ؟کیا سلیم شہزاد پراپرٹی ڈیلر بھی تھے یا ان کا تعلق کسی ایسے قبائلی یا دیہی علاقے سے تھا جہاں پر قتل مقاتلوں کی دشمنیاں پشت در پشت چلتی رہتی ہیں ۔ ظاہر ہے جب ایک صحافی اپنی گمشدگی اور قتل سے پہلے ان خطرات کا تذکرہ کرتا ہے جو اس کے صحافتی کردار کی وجہ سے اسے لاحق ہیں تو اس کی گمشدگی اور قتل کی کوئی اور وجہ ظاہری یا باطنی طور پر کیا ہوسکتی ہے ؟ 

ہیومن رائٹس واچ کے علی دیان نے بی بی سی کے مضمون نگار کو یہ بھی بتا یا تھا کہ دوہزار دس میں انہیں سلیم شہزاد نے ایک ای میل کے ذریعے بتا دیا تھا کہ آئی ایس آئی کے دفاتر میں نیوی کے دو افسروں نے انہیں بلا کر کہا کہ انہوں نے ایک دہشت گرد کو گرفتار کیا ہے اور اس کے قبضے سے بڑی تعداد میں مواد برامد ہو ا ہے جس میں ان لوگوں کے نام اور پتے بھی درج ہیں جن سے وہ روابط رکھے ہوئے تھے اور یہ کہ اگر ان ڈائریوں میں سلیم شہزاد کا نام ملا تو انہیں ضرور بتایا جائے گا ۔ سلیم شہزاد نے اپنی ای میل میں لکھا ہے کہ انہیں یہ بات ایک دھمکی لگی( یہ الگ بات کہ انہوں نے اس دھمکی کو پرکاہ کے برابر اہمیت بھی نہیں دی)

یہ حقیقت ہے کہ ان اداروں کا طریقہ  واردات کچھ ایسا ہی ہوتا ہے ، افغانستان پر امریکی حملے کے وقت پشاور میں آئی ایس آئی کے دفتر میں ایسی ہی ایک پیشی اور اپنے دفتر میں ملٹری اینٹلی جنس والوں کی پوچھ گچھ کا تجربہ مجھے بھی ہے ، انہوں نے اس وقت کے پولیس چیف اور چند دیگر کرپٹ پولیس افسروں کے خلاف کچھ تحریری مواد اور سی ڈیز دکھا کر مجھے یہ بتا یا تھا کہ ان لوگوں کی کرپشن کے یہ ثبوت میں نے انہیں بھجوائے ہیں ، میں نے انہیں کہا کہ اگر مجھے آپ لوگوں پر اتنا ہی اعتبار ہوتا تو آپ لوگوں کو یہاں آنے کی زحمت ہی کیوں ہوتی ؟ان کے اس اقدام کا مقصد صرف مجھے ان پولیس افسروں کے عتاب کا خوف دلا کر خاموش کرنے کا تھا اس زمانے میں حرف بحرف کے عنوان سے میں روز انہ کالم لکھتا تھا تو روزنامہ آج میں شائع ہوتا تھا ، لیکن وہ محترم حیدر جاوید سید کی بات ہم عادی مجرم ہیں

سو شہید سلیم شہزاد کو ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کی اصل وجہ بتانے کی پاداش میں یہ انتباہ اسی لئے جاری کیا گیا تھا اور یہ واحد موقع نہیں تھا ، ان کے کام کا تمام تر علاقہ چونکہ عسکریت ، طالبان ، القاعدہ اور سلامتی کے موضوعات سے جڑتا تھا اس لئے ان کی اکثر و بیشتر پیشیاں ہوتی رہتی تھیں ، لیکن پیشیوں ، تشدد ، معاشی مقاطعے ، جیل ، گمشدگیاں وغیرہ تو اس راہ میں عام ہیں ، جھیلنی پڑتی ہیں لیکن اس بات کا کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا تھا کہ دوہزار گیارہ میں نازی دور کے گسٹاپو کی یاد دلادی جائے گی اور ایک صحافی کے قتل کے حوالے سے وہ ادارے مورد الزام ٹھہریں گے جو ملکی سلامتی کی ذمہ داری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ، شہید سلیم شہزاد کے قتل کا واقعہ وقت کی گرد کی نذر ہوجائے گا لیکن وہ لوگ جو یہ سطریں پڑھ رہے ہیں انہیں کم از کم یہ بات ضرور سوچنی چاہئے کہ سلیم شہزاد کو کیوں قتل کیا گیا؟صحافت اور دوسرے پیشوں میں ایک بنیادی فرق ہے ، صحافت کلی طور پر معاشرے کی امانت ہوتی ہے ، جس شے کو اقوام متحدہ کا چارٹرحق آگہی يعنی Right to know قرار دیتا ہے اس حق کے حصول کے لئے صحافی ہی ہیں جو کروڑوں اربوں لوگوں کو آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ، پاکستان کے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ لوگ جو ان کے حق آگہی کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے ان کی جانوں کے ضیاع کے بعد جو فرائض عوام کے بنتے ہیں ان کی بجاآوری میں کیا اوامر مانع ہیں؟کیا عوام کا فرض نہیں بنتا کہ ایسے واقعات پر سراپا احتجاج بنیں، ظاہر ہے یہ کام سیاسی جماعتوں کی توسط سے ہوگا ، ٹیسٹ ٹیوب سول سوسائٹی تو کوما میں ہے ، استغاثہ جن کے خلاف ہے وہ اصل قوت نافذہ Authorityہیں، کیا سیاسی جماعتیں ایسے نکات کو تحریک کی شکل میں ڈھال کر غاصبوں سے عوام کا بلاشرکت غیرے حق اقتدار چھیننے کی سعی نہیں کرسکتیں..........چاہے ناکام ہی کیوں نہ ہو، مورخ کو کچھ تو اچھا لکھنے کا بھی موقع دینا چاہئے!!!!