حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Wednesday 3 March 2010

آرٹیکل 251کی قومی زبان اور اعدادوشمار

گزشتہ چند کالموں میں ہم نے اردو کو رابطے کی زبان یالنگوا فرانکا قرار دینے کی اس بحث کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے جس کی بنیاد سینئر صوبائی وزیر جناب بشیر احمد بلور نے جمعے اور ہفتے کی درمیان شام صوبائی اسمبلی میں رکھی تھی اور جن کی اس جرات رندانہ پر ابھی تک ہم جھوم رہے ہیں جب انہوں نے قرار دیا تھاکہ قومی زبان پشتو ہے اردو نهیں ۔ 

یہ ایک بین حقیقت ہے کہ اردو بولنے والوں کی تعداد اس ملک میں بسنے والی بڑی اقوام یعنی پختون ، سندھی ، پنجابی اور بلوچ کے مقابل اتنی ہی ہے یا شاید اس سے بھی کم جتنی کراچی میں فارسی بولنے والوں کی ہے ۔یہ بات چونکہ اعداد وشمار کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ استفادے کے لئے حوالوں سے رجوع کیا جائے ۔

پاپولیشن سینس ارگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں اردو بولنے والے افراد کی تعدا د 7.57فیصد ہے ‘پاکستان کی 44.15فیصد آبادی پنجابی بولتی ہے ‘یہاں رہنے والے 14.1فیصد لوگ سندھی بولتے ہیں ، پشتو بولنے والوں کا تناسب 15.42فیصد ہے ،بلوچی زبان 3.57فیصد لوگ بولتے ہیں ‘سرائیکی 10.53فیصد لوگوں کی زبان ہے جبکہ باقی 4.66فیصد لوگ مل کر دوسری زبانیں بولتے ہیں ۔ یعنی پاکستان کی حکومت ہی کے مطابق پشتو اس سرزمین کی دوسری بڑی زبان ہے جو مملکت خداداد کہلائی جاتی ہے۔

ہمارے صوبے میں اردو بولنے والے 0.78فیصد ہیں ‘پنجاب میں اردو بولنے والوں کی تعداد کل آبادی کا 4.51فیصد ہے ‘ بلوچستان میں اردو بولنے والے افراد 0.97فیصد ہیں ‘فاٹا میں اردو0.18فیصد لوگوں کی زبان ہے- واحد سندھ ایسا صوبہ ہے جہاں اردو بولنے والوں کی تعداد ڈبل فگر میں ہے یعنی عدد ہے ہندسہ نہیں ۔ 

ادارے کے مطابق صوبہ سندھ میں اردو بولنے والے لوگوں کی تعداد کل آبادی کا 21.05فیصد ہے ۔ یوں دیکھا جائے تو 1998ءکی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ سے کچھ زائد لوگ اس ملک میں اردو بولتے ہیں ۔ اب کہا جارہا ہے کہ آبادی کا فگر سترہ کروڑ تک پہنچ چکا ہے اس حساب سے ایک کروڑ اردو بولنے والوں کی تعداد کو دگنا کردیجئے حالانکہ یہ صحیح تناسب سے زیادہ ہوگا لیکن پھر بھی دیکھ لیجئے کہ اردو بولنے والوں کے مقابل اردو نہ بولنے والوں کی تعداد پندرہ کروڑ ہی رہے گی (جوہم صرف فرضی طور پر کہہ رہے ہیں حقیقت میں ایسا ممکن نہیں) اور یہ فرق ایک آدھ یا دو تین کروڑ کا نہیں پورے تیرہ کروڑ کا ہے ۔ 

یعنی اسی اندازے سے دیکھیں تو 1998ءکا سارا پاکستان ہی اردو نہ بولنے والا بن جاتا ہے ۔ اس کے باوجود اردو کے قومی زبان بنائے جانے کے اسرار و رموز اور اس کو مقدس لبادہ اوڑھانا قابل فہم نہیں ۔ 

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت میں پانچ کروڑ بیس لاکھ لوگ اردو بولتے ہیں ۔ وہاں اردو دیگر زبانوں کے مقابل کبھی عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوئی ۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ بھارت کی کوئی قومی زبان نہیں البتہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط کے ساتھ اس کی سرکاری زبان ہے ۔ علاوہ ازیں ہر ریاست کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مقامی زبان کو ریاستی زبان قرار دے کر انتظامی استعمال میں لائے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہاں کسی نے یہ نکتہ نہیں اٹھا یا کہ ہندی کی موجودگی میں کسی بھی دوسری زبان کو ریاست کی زبان قرار دینا بھارت دشمنی ہے ۔ مثلاً تامل ناڈو کی زبان ہندی نہیں بلکہ تامل ہی ہے ، آندھرا پردیش کی ریاستی زبانوں میں سے ایک زبان اردو بھی ہے اسی طرح دہلی کی بھی ریاستی زبان اردو ہی ہے لیکن نہ تو اس بات پر ملک توڑنے کی بات ہوئی ہے اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اردو کو ریاستی زبان بنانے والوں نے دراصل پاکستان پرستی کا ثبوت دیاہے ۔ ان کا آئین یہ بھی کہتا ہے کہ ریاستی زبانیں بھی بھارت کی سرکاری زبانیں تصور ہوں گی یوں کل ملا کر بھارت کی سرکاری زبانوں کی تعداد اٹھارہ بنتی ہے جن میں اردو کے ساتھ ساتھ سندھی بھی شامل ہے ۔ 

ہمارے ہاں اگراردو کے سوا کسی بھی دوسری زبان کے ساتھ وابستگی قابل تعزیر ٹھہری ہے تو اس میں پاکستان کے ابتدائی برسوں کے تجربات کے ساتھ ساتھ نصاب میں اردو کا بطور لازمی مضمون شامل ہونا بھی ایک وجہ ہے ۔ اردو کو رابطے کی زبان کے حوالے سے اہمیت دینے پر پاکستانی حکومتوں کا زور دینا کسی انتظامی مصلحت یا لنگوا فرانکاکی حکمت کے پیش نظر اگر ضروری سمجھا جاتا تو اس میں کوئی ایسی بری بات بھی نہیں تھی- حکومت کا فرض ہے کہ وہ رابطے کے مقاصد کے لئے ایسی کاوشوں کی حوصلہ افزائی کرے لیکن المیہ یہ واقع ہوا کہ ایک طرف اردو کا عشق بمنزلہ ایمان متعارف کرایا گیا تو دوسری طرف صوبہ پختونخوا میں بولی جانے والی 73.9فیصد پشتو ، صوبہ سندھ میں 59.73فیصد بولی جانے والی سندھی ، پنجاب میں 75.23فیصد بولی جانے والی پنجابی اور بلوچستان میں 54.76فیصد بولی جانے والی بلوچی زبانوں کو علاقائی یا مقامی زبانیں بنا دیا گیا ۔ 

پاکستانیوں کو ایک قوم قرار دینے والوں نے عملی طور پر اتنا بھی نہ کیا کہ مختلف وفاقی اکائیوں میں بولی جانے والی زبانوں کو ایک نصاب کا حصہ بنادیتے کہ ایک صوبے کے لوگ اگر دوسرے صوبے جائیں تو کم ازکم یہ تو جان سکیں کہ ہوٹل کہاں ہے سٹیشن کہاں ہے ہسپتال کہاں ہے وغیرہ ۔ یہ کس قدر بڑا لطیفہ ہے کہ چاروں وفاقی اکائیوں کو تو اس بات کا پابند بنا دیا گیا ہے کہ انہیں بہر صورت اردو پڑھنی ہوگی لیکن ان کی اپنی زبانیں ابھی تک لازمی مضامین کی حیثیت اختیار نہیں کرسکیں ۔ مطلب یہی ہوا کہ خواہ آپ کو اپنی زبان آتی ہو یا نہیں لیکن آرٹیکل 251کی قومی زبان پر عبور آپ کو ضرور حاصل ہونا چاہئے ، مزید سختی یہ کی گئی کہ نصاب کو مرکزیابھی دیا گیا کسی بھی وفاقی اکائی کو خود سے تعلیمی نصاب کی تشکیل سے روک دیا گیا۔ ایسی صورت میں اگر پاکستانی زبانیں پشتو ، سندھی ، پنجابی اور بلوچی قومی زبانیں نہ بن سکیں اور اردو کو زبردستی اس مقام پر فائز کردیا گیا تو اس میں دیگر زبانوں کا قصور ہی کیا ہے ؟

 اس سے اس حقیقت کی نفی تو بہر حال نہیں ہوسکتی کہ اردو اس ملک میں رہنے والوں کی اکثریتی زبان قطعاً نہیں بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ اردو اس ملک میں رہنے والی اس محدوداقلیت کی زبان ہے جو روزاول سے اقتدار کی ساجھے دار ہے اور پشتو و دیگر صوبوں کی زبانیں اس لئے قومی زبانیں قرار نہیں پاسکیں کہ ان زبانوں کے نام لیوا حب الوطنی کی سرٹیفیکیٹوں سے محروم رہے ورنہ جب بشیر احمد بلور صاحب زبان کی بنیاد پر ایک محرومی کا ذکر کررہے تھے تو اکرم دررانی صاحب کو یہ کہنے کی حاجت ہی پیش نہ آتی کہ“ اے این پی والوں نے تو ابھی تک دل سے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا” ۔

1 comment:

  1. ڄناب صدر صاحب تے گورنر کھوسہ صاحب!


    ١۔اسلام آباد تے کراچی وچ اردو یونی ورسٹی ھے پئی۔ہک سرائیکی میڈیم :سرائیکی یونیورسٹی برائے صحت انجینئرنگ تے سائنس آرٹس ٻݨاؤ جیندے کیمپس ہر وݙے شہر وچ ھوون۔.


    ٢۔ تعلیمی پالسی ڈو ھزار نو دے مطابق علاقائی زباناں لازمی مضمون ھوسن تے ذریعہ تعلیم وی ھوسن۔ سرائیکی بارے عمل کرتے سرائیکی کوں سکولاں کالجاں وچ لازمی کیتا ونڄے تے ذریعہ تعلیم تے ذریعہ امتحان بݨاؤ۔


    ٣۔ پاکستان وچ صرف چار زباناں سرائیکی سندھی پشتو تے اردو کوں قومی زبان دا درجہ ڈیوو.۔


    ۔٤۔ نادرا سندھی اردو تے انگریزی وچ شناختی کارݙ جاری کریندے۔ سرائیکی وچ وی قومی شناختی کارڈ جاری کرے۔


    .٥۔ ھر ھر قومی اخبار سرائیکی سندھی تے اردو وچ شائع کیتا ونڄے۔کاغذ تے اشتہارات دا کوٹہ وی برابر ݙتا ونڄے


    ٦۔ پاکستان دے ہر سرکاری تے نجی ٹی وی چینل تے سرائیکی، سندھی، پشتو ، پنجابی،بلوچی تے اردو کوں ہر روز چار چار گھنٹے ݙتے ونڄن۔


    ٧۔سب نیشنل تے ملٹی نیشنل کمپنیاں سرائیکی زبان کوں تسلیم کرن تے ہر قسم دی تحریر تے تشہیر سرائیکی وچ وی کرن۔


    ٨۔۔سرائیکی ہر ملک وچ وسدن ایں سانگے سرائیکی ہک انٹر نیشنل زبان اے۔ سکولاں وچ عربی لازمی کائنی ، تاں ول انگریزی تے اردو دے لازمی ھووݨ دا کیا ڄواز اے؟

    ٩۔ دوائیاں تے سرائیکی وچ ناں ،فائدے تے طریقہ استعمال کائنی لکھے ھوندے۔ غلط استعمال نال کائی انسان مر وی ویندن۔ سرائیکی وسیب وچ اردو انگریزی دی شرح تعلیم ٻہوں گھٹ اے۔ لوک قرآن تے قرآنی لکھائی نال مانوس ھن۔ سرائیکی الف بے نال لکھی ویندی اے۔ دوائیاں تے دوائی دا ناں فائدے تے ورتݨ دا ݙا سرائیکی زبان وچ وی لکھیا کرو۔

    ReplyDelete