حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Friday 19 March 2010

کہسار باقی افغان باقی ۶

افغان صدر جناب حامد کرزئی( جن کے لئے افغانستان میں رئیس جمہور یا اولس مشر کے نام لئے جاتے ہیں) کے ساتھ ہماری ملاقات ظہرانے پر ہونا تھی ۔ اس لئے اس بات کی فکر نہیں تھی کہ صبح جلد اٹھنا ہو گا ۔ ہاں ایک ناخوش گوار فریضہ یہ انجام دینا تھا کہ ہمیں شیو کرنا تھی اور شیو تو پانچ سال کی عمرسے ہم خود کرتے آئے ہیں ‘جی ہاں پانچ سال کی عمر ہی سے ۔ حوالے کے لئے یہ واقعہ پڑھئے ۔ 

ایک مرتبہ جب سگریٹ پینے پر (دیکھئے کہ سگریٹ بھی ہم نے پانچ سال کی عمر میں ہی پی اور آج کل کے بڑے بوڑھوں کو ہم نے نوٹ کیا ہے کہ سگریٹ بھی نہیں پیتے اور کھانستے بھی رہتے ہیں ) والد بزرگوار نے ہمیں اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا تھا تو احتجاجاً ہم نے اپنے کمرے کے سامان کو دیا سلائی دکھا دی جس پر والد محترم نے ضروری چھترول کے بعد غسل خانے میں ہمیں بند کردیا- اب وہاں ہمارا جذبہ انتقام اس قدر شدت سے دوچار ہوا کہ خود ہمیں علم نہ ہوسکا کہ کب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا ۔ بہتیرا اِدھر اُدھر دیکھا لیکن ایسی کوئی شے نہیں تھی جس کی توڑا تاڑی سے ہمیں تسکین حاصل ہوتی- چاروناچار اس کے سوا کوئی راستہ ہی باقی نہیں بچا کہ والد بزرگوار کے سامان حجامت کو زیر ِ استعمال لا کر جذبہ  انتقام کو سرد کیا جائے- سو جب غسل خانے کا دروازہ کھلا تو صغیر سنی میں ہی ہم حجامت یعنی شیو کا تجربہ حاصل کر چکے تھے 

اس وقت تو نہایت آسانی سے یہ مرحلہ طے ہو گیا کہ ہم نے ایک ایسے شے کاٹی تھی جو تھی ہی نہیں (یعنی اپنی داڑھی )لیکن اب جب بھی شیو کرتے ہیں تو بچپن کی منتقمانہ حرکت پر افسوس ہی ہوتا ہے کیونکہ داڑھی اس قدر سخت ہے جیسے جووں والی کنگھی کے دندانے ۔ سو مرحلہ یہی ایک درپیش تھا جس سے بروقت نمٹنا تھا ۔ 

ہمارے رفیق سفر اور اس ظہرانے میں مدعو ڈاکٹر مروت صاحب ایک خوش پوش اور خوش شکل جوان ہیں ۔جوان انہیں اس لئے کہا کہ میرے ساتھ کھڑے ہوں تو میری عمر زیادہ اور ان کی کم لگے گی ۔ ان کے والد صاحب اور گھر کا ماحول اجازت دیتا تو شاید فلموں میں بطور ہیرو کام کرتے کہ انہیں فلموں میں کام کرنے کی پیش کش کسی زمانے میں ہو چکی تھی ۔ انہیں کسی محنت کی ضرورت نہیں تھی ۔ اللہ کا دیا گیا حسن ویسے بھی وفور و افراط سے تھا اور جامہ زیبی ایسی کہ جو بگڑنے میں بھی سنور جائے ۔ بالوں اور باتوں کا انداز دلبرانہ- بس ایک پیکرقدرت ہیں اگر ان کا تفصیلی خاکہ لکھنے کا کبھی اتفاق ہوا تو قارئین سے ضرور شئیر کروں گا ۔ 

لابی میں پہنچا تو اپنی قدرتی صفتوں کے باعث وہ زیادہ چمک رہے تھے ۔ ان سے پوچھا کہ زلمے ہیوادمل صاحب کا کوئی پیغام موصول ہوا کہنے لگے کہ ان کا ڈرائیور آتا ہی ہو گا۔ لیکن سینیٹر اکرم شاہ صاحب پھر غائب تھے ۔خدا کا شکر ہے کہ گاڑی آتے آتے وہ بھی آچکے تھے ۔ مختلف راستوں اور چوکوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک ایسی سڑک پر بہر حال پہنچ ہی گئے جو ایوان صدر کو جاتی ہے اور جس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ہم گزر چکے ہیں

صدارتی محل کو افغانستان میں ارگ کہا جاتا ہے ۔ ارگ کے قریب ہی وہ جگہ بھی ہے جہاں طالبان نے شہید افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو اپنے بھائی سمیت لٹکایا تھا ۔ صدارتی محل یعنی ارگ کو جانیوالی شارع پر سکول بھی واقع ہیں ۔ یہ بات یاد رہے کہ افغانستان میں سکولوں کی تعداد ضرورت سے کافی کم ہے- یہی وجہ ہے که کابل میں ہم نے یہ بات نوٹ کی کہ سکول کی بچیاں او بچے سارا دن حتیٰ کہ شام تک سکول آتے جاتے رہتے ہیں اور ایک سکول میں کئی سکول ہوتے ہیں ۔ مختلف شفٹیں ہوتی ہیں اور بچے نہایت شوق سے تعلیم کے حصول کے لئے سرگرداں رہتے ہیں ۔

راستے میں جگہ جگہ رکاوٹیں تھیں ۔ اور یہ رکاوٹیں اس لئے کھڑی کی گئی تھیں کہ خود کش حملوں کی سہولت کو کم از کم درجے تک کم کیا جا سکے ۔ صدارتی محل ارگ رقبے کے لحاظ سے شاید اپنی نوعیت کا منفرد ترین “صدر مقام”  ہے ۔ یہ دو ہزار کنال پر مشتمل ایک بہشت ارضی ہے جس کی ہر شے جہازی سائز کی ہے ۔ اس کا صدر دروازہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے اندر سے شاید خود ارگ کو بھی گزارا جا سکتا ہو۔ خوبصورت لان ہیں ،صدارتی اور شاہی قیام گاہیں ہیں ۔ مرحوم افغان شاہ ظاہر شاہ کے اہلیان ِ خانہ اب بھی یہیں مقیم ہیں۔ فرانسیسی طرز تعمیر کا یہ شہکار اگرچہ اب اپنی اصل حالت میں رفتہ رفتہ لایا جا رہا ہے مگر اس کو سابقہ ادوار میں کافی نقصانات کا سامنا کر نا پڑا تھا-


ارگ کے بیچوں بیچ ایک مسجد بھی ہے جس کے بارے میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ جناب صدر خود یہاں پانچ وقت کی نماز باجماعت پڑھتے ہیں ۔ ارگ پہنچے تو ظہر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا ،نماز سے فارغ ہونے کے بعد جناب صدرنے ہمارا افغانی روایات کے عین مطابق استقبال کیا مصافحہ بھی کیا اور معانقہ بھی کیا اور گال سے گال ملانے کی روایت تابندہ رکھی ۔ یہاں ہمیں ان کے سابقہ پاکستانی ہم منصب معزول یا مستعفی جنرل و صدر پرویز مشرف سے ملاقات کا سماں یاد آیا ۔ 2007ءمیں انہوں نے چند اخباری مدیروں کو مدعو کیا تھا جن کی مبلغ تعداددس تھی- پی آئی ڈی سے کسی صاحب نے ہمیں فون کیا اور ہدایت کی کہ آپ ایک دن قبل پہنچ جائیں تاکہ ناشتے کے فوراً بعد مشرف صاحب کے کیمپ آفس روانہ ہو سکیں ۔ ہم نے عرض گزاری کہ صاحب ہم صبح ناشتے پر پہنچ جائیں تو کیسا رہے گا ؟کہنے لگے کہ وقت پر آجائیں ہم وقت پر گئے لیکن جناب مشرف نے پورا ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے کام لیا۔آئے تو کوئیک مارچ کرتے ہوئے کرسی صدارت پر متمکن ہو گئے پھر اچانک اُٹھے اور گویا ہوئے “ اوہو یہ تو تھوڑے لوگ ہیں ۔ہینڈ شیک کر لیتے ہیں” ۔ 

خیر یہ بات اس سے بھی زیادہ معیوب تھی کہ جناب مشرف نے ہمیں خشک میوہ کھانے کے وقت پر کھلایا اور چائے کا ایک ڈسپوزیبل کپ پکڑا کر رخصت کر دیا، گویا کسی بھی روایت کا پاس و لحاظ نہیں رکھا۔ ہم اکیلے ہوتے تو کوئی بات نہ تھی آسمان صحافت کے درخشندہ سورج چاند اور ستارے بھی اس محفل میں تھے ۔ جو ہم سے زیادہ عزت دار تھے ۔ خیر افغان صدر سے ہماری ہر ملاقات ہمیں جناب مشرف کی یاد ضرور دلاتی ہے ۔ اور منہ میں تلخ چلغوزے والا سماں برپا کر دیتی ہے ۔ استقبال کے فوراً بعد انہوں نے کھانے کے کمرے بلکہ ہال کہئے کی طرف ہماری رہنمائی کی ۔ ایسے بے تکلف ماحول میں ہم کھانے کے ہال کی طرف پہنچے جیسے یہ ارگ نہ ہو خود ہمارے غریب خانے کا کوئی کمرہ ہو ۔جناب کرزئی نے ہال میں داخل ہوتے ہی ہاتھ دھوئے ، ان کے تتبع میں ڈاکٹر مروت صاحب نے بھی ہاتھ دھوئے - میرے سمیت سنیٹر اکرم شاہ اور ہیوادمل صاحب نے اس ضرورت کا احساس نہیں کیا ،ہم کھانے کی پچیس گز طویل میز پر بیٹھ چکے تھے اب کھانا چنا جا رہا تھا۔

(جاری هے)

No comments:

Post a Comment