حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Thursday 18 March 2010

کہسار باقی افغان باقی ۵

رات کے کھانے کے لئے کابل کے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل کے سوئمنگ پول کے کنارے میزیں لگائی جاتی ہیں ۔ ساتھ ہی سازندہ بھی موجود رہتا ہے جو صرف وسطی ایشیائی دھنیں نہیں چھیڑتا بلکہ پشتو ، دری اور افغانستان کی دیگر چھوٹی بڑی زبانوں کے مشہور گیت بھی گاتا ہے - تاہم لباس انہوں نے خالصتاً پختونوں ہی کا پہنا ہوتا ہے ۔ 

سیمینار کے مندوبین کی واپسی تقریباً مکمل ہوچکی تھی ۔ پاکستانی وفد میں ڈاکٹر فصل الرحیم مروت اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر محترم اکرم شاہ صاحب کے سوا راقم الحروف ہی اس سیمینار کی یادگار باقی رہ گئے تھے ۔ افغان وزارت خارجہ والوں نے ہمیں افغانستان بلوا کر اپنا فریضہ مکمل کر لیا تھا۔ اجمل جان جنہوں نے کابل ائر پورٹ پر ہمارا استقبال کیا تھا کہہ گئے تھے کہ یہاں ہوٹل میں سب کچھ موجود ہے اور جو بھی ضرورت ہو اس کی تکمیل میں کسی تامل سے کام نہ لیں ۔ سو ہم نے ان کی نصیحت پر پورا پورا عمل کیا جس کے نقصانات بعد میں ظاہر ہوئے - اس بارے میں بات بھی بعد ہی میں کی جائے گی ۔ 

رات کو کھانے کا وقت ہوا تو ڈاکٹر مروت صاحب نے کہا کہ ہندوستان میں افغانستان کے کلچرل اتاشی جناب ڈاکٹر رشید صاحب بھی ہمارے ساتھ ہوں گے ۔ ڈاکٹر رشید صاحب ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں ، بھارت میں افغانستان کے کلچرل اتاشی ہیں مگر کام شاید سفیرسے زیادہ اور اہم کرتے ہیں انہوں نے نہ صرف یہ کہ ہندوستان میں پختونوں کو اچھا خاصا سہارا دے رکھا ہے بلکہ تحقیق کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑے ہیں ۔ روشنائی تحریک سے حد درجہ دلچسپی رکھتے ہیں اور پیر روخان کے جانشین اوراولین پشتو غزل گو شاعر ملا ارزانی کی ہندوستان میں واقع قبر بھی دریافت کر رکھی ہے ۔ شاید اس بارے میں ہمارے محترم ڈاکٹر یار محمد مغموم خٹک کو علم ہو جنہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ روشنائی تحریک ہی پر لکھا ہے یا شاید پروفیسر ڈاکٹر پرویز مہجور خویشکی کو بھی اس حوالے سے درک ہو کہ انہوں نے تو پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھاهی ملا ارزانی پر ہے ۔ 

کھانے کی میز پر ڈاکٹر رشید صاحب اور اور ڈاکٹر مروت صاحب کے ساتھ انہی موضوعات پر گفتگو ہو رہی تھی کہ اس دوران ہم نے زلمے ہیوادمل صاحب کو دیکھا جو ایک خاص رفتار سے سوئمنگ پول کے دوسرے کنارے بچھی میزوں کے آخری سروں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ شاید ان کے خیال میں ہم بیک بینچرز تھے ۔ میری حد تک تو ان کی بات ٹھیک تھی لیکن ڈاکٹر مروت اور ڈاکٹر رشید صاحبان تو کسی صورت بیک بینچرز نہیں لگتے- بلکہ وه ہیں بھی نہیں- کم از کم ڈاکٹر مروت صاحب کو تو ہم نے ہر جگہ صف اول ہی میں پایا ہے ۔ 

میری نظر جونہی ہیواد مل صاحب پر پڑی میں اٹھ کھڑا ہوا ، مجھے علم تھا کہ انہوں نے ہم سے ملنے آنا تھا کیونکہ اس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ نہایت تپاک سے ملے ‘خالص افغانی طریقے سے ، گال سے گال ملانے والا ۔ ہیوادمل صاحب پہلے خالصتاً ادبی شخصیت تھے لیکن اب سیاسی طور پر بھی کم اہم نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کے مشیر خاص سر محقق زلمے ہیوادمل صدارتی محل میں بیٹھے ایک عام سے مشیر ہے ہی نہیں، ایک متبحر عالم ہیں - پشتو ادب میں تحقیق کے حوالے سے ان کااپنا ایک نام اور مقام ہے ۔ لاتعداد کتابوں کے مصنف ہیں اور پشتو زبان و ادب کی ترقی کے لئے صرف زبانی کلامی بات نہیں کرتے بلکہ ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں اور ایک بے پناہ جوش و درد رکھتے ہیں ۔ 

کابل جانے کا ہمیں جب بھی اتفاق ہو تا ہے تو اس کے پسِ پشت دراصل ہمارے ممدوح جناب ہیوادمل صاحب کابھی ہاتھ ہوتا ہے ۔ وہ تمام وزارتوں کے ساتھ مکمل رابطے میں رہتے ہیں اور ہر وزارت کے سربراہ کو زبان ، ادب اور سیاست کے حوالے سے کسی نا کسی منصوبے کے آغاز کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔ قد کے دراز نہیں مگر قامت میں ثانی نہیں رکھتے کہ اس وقت کابل میں پشتو پرستوں کے لئے ایک بڑا سہارا ہیں ‘ ہر وقت انگریزی لباس میں ملبوس رہتے ہیں لیکن سرتاپا افغانیت سے معمور ہیں بڑا نتھرا ہوا حس مزاح رکھتے ہیں - خود بھی ہنستے ہیں اور مجلس کو بھی زعفران ِ زار بنانے کا گر جانتے ہیں- ان کے قہقہوں میں بچوں کی قلقاریوں جیسی معصومیت ہے ۔ وطن پرستی کے جذبے میں اس حد تک ڈوبے ہوئے ہیں کہ اگر کابل سے میلوں دورافغانستان میں کسی بھی جگہ بے ضابطگی کے بارے میں اطلاع ملے یا شک گزرے تو بے چین ہو جاتے ہیں اور اصلاح احوال کی نیت سے خود روانہ ہوجاتے ہیں ۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔ اقوام میں ایسے لوگوں کی تعداد کم ہی رہتی ہے ۔ 

حامد کرزئی کے اتنے مقرب ہیں کہ شاید کابینہ کے بعض وزیربھی ان سے تعلقات کو اعزاز سمجھتے ہیں ۔ ایسے وزیر بھی بہت ہوں گے جنہیں کابینہ کے اجلاسوں کے سوا جناب کرزئی سے ملاقات کا موقعہ نہیں ملتا لیکن ہیوادمل صاحب کاا ولس مشر یا رئیس جمہور سے ملنا روز کا معمول ہے ۔ ایک طرح سے وہ ان کی کچن کیبنٹ کے رکن خاص ہیں ۔ شاعر اور ادیبوں کی اکثریت ہم نے دیکھی ہے جو ایسے مناصب کے حصول کے بعد ایک قابل مذمت تغیر کا شکار ہوجاتے ہیں- لیکن ہیواد مل صاحب اپنی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہیں - حد درجے کے عوامی آدمی ہیں - افغانستان میں، جہاں سلامتی کے مسائل نے ایک عالمی توجہ حاصل کر رکھی ہے ہیواد مل صاحب واحد عالی رتبہ حکومتی شخصیت ہیں جو کسی قسم کے حفاظتی حصار میں نہیں رہتے - کوئی پروٹوکول اور کوئی سکواڈ وغیرہ نہیں رکھتے، حالانکہ چاہیں تو امریکنوں کو اپنی خدمت پر مامور کر سکتے ہیں- ماضی ساتھ ساتھ لے کرآگے بڑھ رہے ہیں اسی لئے ابھی تک کابل یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہیں اور درس و تدریس کو خیرباد نہیں کہا۔ افغانستان کی خانہ جنگی کے دوران پشاور میں بھی مقیم رہے ہیں ‘ پشتو ادب کے ایک عظیم نام صدیق روہی مرحوم کے داماد ہیں  اور مشرقی افغانستان کی خوبصورت ولایت لغمان سے تعلق رکھتے ہیں ۔

ہیواد مل صاحب بہت دیر ہمارے ساتھ بیٹھے رہے ہم نے ان سے وہ تمام امور بیان کئے جو ہم نے اس دورے میں نوٹ کئے تھے ہمیں اس بات کا احساس تھا کہ یہ سیمینار ان کے محکمے یا ریاست جمہوری (دفترِ صدارت) نے منعقد نہیں کیا تھا لیکن رہ رہ کر یہی خیال آتا تھا کہ کاش یہ سیمینار انہوں نے ہی منعقد کیا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا ۔ ہیواد مل صاحب نے ذاتی طور پر جس قدر بھی سیمینارمنعقد کئے ہیں ان میں نظم وضبط مثالی تھا اور مہمان داری کے تمام باریک نکات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا ‘ یہ مجلس اس قدر دیر تک جاری رہی کہ مہمان ، سازندے اور کارندے رخصت ہو چکے تھے ہماری میز پر ہی زندگی باقی تھی ، باقی ساری میزوں پر سکوت تھا- وقت کا احساس ہوا تو ہم نے رخصت کی ٹھانی ہیواد مل صاحب ہمیں ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے کل دوپہر کا کھانا نہیں کھانا ! میں نے پوچھا کیوں ؟کہنے لگے رئیس جمہور (حامد کرزئی صاحب ) نے مدعو کر رکھا ہے ۔

(جاری هے)

No comments:

Post a Comment