حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Sunday 28 February 2010

اردو ۔ایک پس منظر

تقسیم ہند سے قبل رابطے کی زبان اور پاکستان بننے کے 26سال بعد 1973ءکے آئین کے آرٹیکل 251کے تحت قومی زبان قرار پانے والی اردو تنازعات کا شکار رہی ہے ۔ ابتدا میں جب اردو کے حوالے سے کسی سیاست کا وجود نہیں تھا تب بھی سیاست کا ایک دخل اس زبان میں بہر حال تھا ۔ یہ نظریہ کہ برصغیر میں ایک سازش کے تحت اردو کو فروغ دیا گیا ہے اتنا بے بنیاد بھی نہیں ۔ جو لوگ اس کے سیاسی حوالے کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے قبل فارسی کو دفتری زبان کا درجہ حاصل تھا ۔ دربار کی زبان بھی فارسی تھی اور شرفا ءکی بھی زبان فارسی تھی ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ اس زبان کو یکساں طور پر علمائے ادب اور طبقہ اشرافیہ کی سرپرستی حاصل تھی تو درست ہوگا ۔ ایسا نہ ہوتا تو آئین میں درج آرٹیکل کے تحت قومی زبان کے درجے پر فائز اردو میں یہ ضرب المثل موجود نہ ہوتی کہ  “پڑھے فارسی بیچے تیل” ۔  

گویا اس حوالے سے معمولی سا شائبہ بھی موجود نہیں کہ فارسی ہی وہ زبان تھی جسے سلطنت کے امور میں قدرت حاصل تھی اور حکمران بھی یہی زبان بولتے تھے ۔ اس زبان کا ایک کمال اور بھی تھا وہ یہ کہ فارسی مسلمانوں کی زبان تھی ۔ اس زبان کا ہندوستان میں موجود رہنا فرنگیوں کو اس لئے گوارا نہیں ہوسکتا تھا کہ ہندوستان کے مسلمان اسی زبان کے سہارے پڑوس میں ایران اور افغانستان سے بھی جڑے رہتے پھر ازبکستان تاجکستان یعنی وسطی ایشیا سے بھی ایک تعلق موجود رہتا اصل خطرہ بھی یہی تھا کہ وہ لوگ جنہیں ہندوستان کے تخت سے اتارنا اصل مقصد تھا کہیں پبلک ریلیشننگ کا طوفا ن کھڑا نہ کردیں اور میل جول ، تعلقات و باہمی مشترکات کے نتیجے میں پریشانیوں اور بحرانوں کے ذریعے انگریز سرکار کو عدم استحکام سے دوچار نہ کردیں ۔ اسی خیال نے سرکار انگلیشیہ کے دانشوروں کو یہ نکتہ سجھا دیا کہ سب سے پہلا وار اس مشترک زبان پر کیا جائے جو ہندوستان کو پڑوس کے مسلم ممالک سے جوڑتی ہے ۔ چنانچہ اس خیال کو عملی جامہ پہنایا گیا ۔ 

ایک ایسی زبان ابتدائی مراحل میں بہر حال موجود تھی جو نہ فارسی تھی اور نہ ہندی تھی بلکہ ان دونوں کا آمیزہ تھا ‘مشکل یہ درپیش ہوئی کہ اس کے رسم الخط کو اگر دیو ناگری روپ دیا جاتا تو اس میں اور ہندی میں فرق ہی نہ رہتا ۔اس سے ایک نئی سیاسی صف بندی ہوسکتی تھی یعنی اردو اور ہندی کا باہم اتحاد انگریز کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا اس لئے یہ سوچا گیا کہ اسے فارسی رسم الخط بخشا جائے کہ ہندو اس سے دور رہیں اور مسلمان اس پر جان و دل سے نثار ہوتے رہیں ۔ کیونکہ فارسی سے بہرحال مسلمانوں ہی کا ناتہ تھا ۔ اس سوچ نے کانگریس اور مسلم لیگ کے قیام کے بعد کافی بھرپور طور پر انگریزوں کی مدد کی ۔
اردو ہندی تنازعہ نے برصغیر کا سکھ چین کئی دہائیوں تک لوٹ رکھا تھا ۔ 

انگریزوں نے اردو کی ترقی میں ویسے ہی دل چسپی نہیں دکھائی تھی ان کا ہر فیصلہ سیاسی تشریح کا حامل تھا ورنہ ہندوستان میں کل ملا کر 35زبانیں اور سینکڑوں بولیاں بولی جاتی ہیں لیکن فورٹ ولیم کالج نے اردو پر ایسی نظر کرم کا اظہار کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔ یہ تو آغاز تھا- مستشرقین کی ایک اچھی خاصی تعدا د نے اردو کے ساتھ وہ رومانویت جھاڑی ہے کہ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اردو ڈکشنری بورڈ تو قیام پاکستان کے بعد قائم ہوا، انگریزوں نے تو 1884ءمیں جون ٹامسن پلاٹس کے ہاتھوں ایسی لغت مرتب کروا لی تھی جو ان کی صدیوں کی ضروریات کے لئے کافی تھی جبکہ 1912ءمیں اردو کا ٹائپ رائٹر بھی وجود میں آگیا ۔

انگریز اردو ہی میں اپنی بقا کو ڈھونڈتے تھے تو اس میں ایسی نہ سمجھنے والی کوئی بات نہیں ۔ مسلم لیگ کے زعماءکی تعداد صرف شروع کے چند برسوں میں بنگال سے رہی ہے۔ بعد میں اس کی کمان دلی ، بہار ، اتر پردیش ، دکن ،آندھرا پردیش وغیرہ میں ہی رہی اور جن مسلم لیگی عمائدین کا تعلق پنجاب ، چندی گڑھ ، کشمیر،گجرات، مہاراشٹر وغیرہ سے تھا ان کے لئے رابطے کی زبان اردو ہی تھی ۔ اس نظرئیے پر ایک اعتراض یہ بھی عائد کیا جاتا ہے کہ اگر اردو انگریز کی سازش ہے تو میر و غالب کس سازش کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ اس اعتراض میں وزن ہے اور اسے بغیر جواب کے چھوڑا بھی نہیں جاسکتا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ولی دکنی سے میر و سودا تک کی اردو وہ اردو نہیں جو آج کل ہم آپ بول اور سمجھ رہے ہیں ، اس زمانے میں اردو اور ہندی کا باہمی فرق کچھ تھا ہی نہیں ‘اکثر تراکیب و الفاظ ہندی ہی کے زیرِ استعمال تھے ہندی کے کلاسک شعرا کا رنگ ان ابتدائی اردو شعراء پر بھی غالب تھا سچی بات تو یہ ہے کہ اردو کا نام تک موجود نہ تھی کوئی اسی دکنی کہتا تھا تو کوئی کھڑی بولی اور کوئی ریختہ و پنجری ‘ بیسویں صدی کے اول ربع تک تو اسے ہندوستانی بھی کہا گیا ہے ۔جہاں تک غالب کی بات ہے ان کے بارے میں یہ بات نئی نہیں کہ انہیں اپنی اردو شاعری سے کوئی انسیت نہیں تھی نہ ہی ان کی ریختہ گوئی ان کے لئے کوئی مقام فخر تھا بلکہ وہ اپنی فارسی شاعری ہی کو اپنی نمائندگی کے قابل سمجھتے تھے ۔ اس زمانے کے تقریباً تمام تعلیم یافتہ شاعروں نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں شاعری کی ہے ۔ بہادر شاہ ظفر خود اردو میں شاعری کرتے رہے لیکن ان کی( غیر مقبول و غیر معروف سہی )شاعری فارسی میں بھی موجود ہے 


ان دلائل کے باوجود یہ بات جواب طلب ہے کہ آخر فرنگیوں نے اس زبان کی پرورش کو کیوں مذہبی فریضہ جان کر پورا کیا ؟انگریزوں کی آمد ہی کے بعد کا ذکر ہے کہ اردو صحافت کا آغاز ہوا اور اردو میں کتب کی اشاعت کا سلسلہ آغاز ہوا۔ غیر منقسم ہندوستان میں سیاسی سرپرستی میسر آنے پر اردو نے ایسی ترقی کہ ہزار ڈیڑھ ہزار سال پرانی زبانوں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ ایک وجہ اس کی یہ بھی تھی کہ ہندوستان کے ہر حصے سے لکھنے والوں نے اس زبان میں ضرور کچھ نہ کچھ لکھا ۔ یہاں تک کہ پختون (جو جنوب ایشیائی کسی طور نہیں ) بھی اس زبان کو بروئے استعمال لاتے رہے اس کی وجہ اس زبان سے ہندوستان اور قریبی اقوام مثلاً پختونوں کا کوئی انس نہیں تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ اردو سیاسی وجوہات کی بنیاد پر لنگوا فرانکاکا روپ دھار چکی تھی ۔ اور پشتو کو قومی زبان کہنے پر محترم بشیر بلور کو مورد الزام ٹھہرانے والے یہ جانتے نہیں تو ہم بتا دیتے ہیں کہ لنگوا فرانکااس رابطے کی زبان کو کہا جاتا ہے جو کسی بھی دو اقوام یا افراد کے درمیان ذریعہ ابلاغ ہو اور جو دونوں کی مادری زبان نہ ہو بلکہ ”تیسری زبان “ ہو ۔ کالم ابھی باقی ہے میرے دوست!!!

No comments:

Post a Comment