حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Wednesday 17 March 2010

کہسار باقی افغان باقی ۴

کابل میں وزارت ِ خارجہ کے سیمینار سے واک آوٹ یاجلد واپس آنے کے بعد جب ہوٹل پہنچے تو کمر درد کی تکلیف حد سے بڑھ چکی تھی ، میں نے لونگین خان اور خوشحال خٹک کو تجویز دی کہ آرام سے بہتر مصروفیت ہو نہیں سکتی نا سازی طبع نے انہیں میری اس تجویز سے اتفاق پر مجبور کیا ، بعد میں معلوم ہوا کہ میری اس تجویز سے انہوں نے جزوی اتفاق کیا ہے ، یعنی مجھے سوتا چھوڑ کر ایک صاحب کابل میں اپنے دوستوں کے ساتھ پھرنے چلے گئے اور دوسرے حضرت وزارت خارجہ کی جانب سے عشائیے کو روانہ ہوئے ۔ 

خوشحال نے البتہ اتنا ضرور کیا کہ مجھے مطلع کر دیا اس کی خواہش تھی کہ لونگین خان بھی ساتھ جائیں لیکن لونگین خان کمرے کا دروازہ ہی نہیں کھول رہے تھے ، میں نے خوشحال سے کہا کہ اسے چلے جانا چاہئے کیونکہ لونگین کی طبیعت بھی خراب تھی اور میں اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا- بعد میں پتہ لگا کہ جس وقت ہم لونگین خان کا دروازہ پیٹ پیٹ کر دوہرے ہوئے جارہے تھے اس وقت وہ کابل کے مختلف بازاروں میں اپنے دوستوں کے ہمراہ سیر کر رہے تھے ۔ اور انہوں نے واپس آکر یہ بھی کہا کہ انہوں نے مجھے جگانے کی بہت ساری ناکام کاوشیں کیں اور آخر کار اسے مجبوراً جانا پڑا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میری نیند بالآخر واپس آگئی تھی ۔ دلی مسرت ہوئی کہ چند گھنٹے سکون سے گزرے یہ الگ بات کہ اس سکون نے کمر درد کا کچھ نہیں بگاڑاالبتہ کچھ ذہنی آرام نصیب ہوا ۔ 

رات کا کھانا ہم نے لونگین خان کے کمرے ہی میں منگوا کر کھایا ان کے دوست ڈاکٹر فضل اور ڈاکٹر آیت اللہ بھی موجود تھے ۔ جنہوں نے ہمیں تاجکستان جانے کی دعوت بھی دی لیکن انہیں کیا بتاتے کہ تاجکستان تو ہم اپنے قریبی دوست ِبزرگ پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحیم مروت کے برادر نسبتی بریگیڈئر عبدالمجید کے بطور سفیر تقرری کے عرصہ اقتدار جانے سے بھی محروم رہے ۔ ان کی دعوت ہم نے تشکر کے ساتھ قبول کر لی ۔ ڈاکٹر مروت صاحب آئے تو انہوں نے ہمیں سیمینار کے بارے میں باخبر کیا کہ سیمینار میں افغانستان کے نامور دانشور جناب سرور ماموند نے فخر افغان باچا خان ؒ کے افکار اور عصر حاضر کے چیلنجز کے حوالے سے ایک نہایت پر مغز مقالہ پڑھا۔ جبکہ افغانستان کی اکادمی علوم کے جناب عابد صاحب کا نام بھی انہوں نے لیا جن کا مقالہ مہاتما گاندھی کے اسلام اور ہندومت کے حوالے سے وچاروں کے بارے میں تھا، جبکہ وزارت تعلیم افغانستان کی جانب سے پروفیسر جامدار صاحب نے جنوبی ایشیا میں عدم تشدد کی تحاریک کے اثرات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ 

سیمینار کی آخری نشست میں جاپانی سینیٹ کے محترم رکن ٹاڈاشی اے نو زوکانے جاپان کے بعد از جنگ عظیم دوم تجربات صلح بیان کئے جبکہ امریکن یونیورسٹی اِن افغانستان کے سربراہ ڈاکٹر شریف فیاض نے جنوبی ایشیا کے مجموعی ماحول تنازعات یا تعاون کے موضوع پر مقالہ پڑھا ۔ سیمینار کے آخری مقرر اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مقصود الحسن نوری تھے جنہوں نے جنوبی ایشیا کی سلامتی کے حوالے سے آراءپیش کیں ۔ بعد میں مذاکرے کا انعقاد بھی ہو ا جس میں شرکا ءنے بھرپور دلچسپی اور دلجمعی سے حصہ لیا ۔ ہمیں بتایا گیا کہ جو رونق صبح کے وقت سیمینار کی تھی آخر میں اتنی رونق باقی نہیں رہی تھی صبح ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور آخر میں حالت یہ تھی کہ مرکزی میز کے ارد گرد کی اکثر نشستیں مہمانوں کو ترس رہی تھیں ۔

یہی حال پشاور میں بھی ہوتا ہے لوگ ایک خاص ہدف لئے ایسی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں اور اس ہدف کو پالیتے ہیں اور اکثریت کا ہدف سیمینار کے درمیان ضیافت سے متمتع ہونا ہی رہتا ہے ۔ جسے وہ به سہولت پا بھی لیتے ہیں ۔ ہم یہ پوچھنا بھول گئے تھے کہ سیمینار میں ہماری قومی زبان کا مزید کیا حال ہوا ایک تو کمر کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تھی اور دوسری بات یہ تھی کہ محترمہ ظاہرہ خٹک نے تمام تر تسلی کے ساتھ ہمیں رخصت کیا تھا اور یقین دلایا تھا کہ وہ اس مسئلے پر ضرور بات کریں گی ۔ سیمینار کا دور تمام ہوا اگلے دن پاکستانی وفد کی اکثریت رخصت ہوئی ۔ رخصت ہونے والوں میں افراسیاب خٹک اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کی رکن قومی اسمبلی محترمہ بشریٰ گوہر اور سابق وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات انیسہ زیب طاہر خیلی بھی تھیں جو افغانستان پاکستان اور بھارت کی خواتین کے درمیان ایک ٹرائیلاگ میں شرکت کے لئے تشریف لائی تھیں ۔ اس دوران ڈاکٹر مروت صاحب نے کہیں سے ایک گاڑی کا بندوبست کر لیا سو میں اور وہ کابل کی خاک چھاننے کی مہم سر کرنے کی نیت سے چل نکلے ۔ راستے میں وہی رش اور گرد وغبار تھا لیکن سورج کی حدت و تمازت میں کوئی قوت نہیں تھی ۔ 

کابل میں بارش عموماً نایاب ہے اور بارش ہو تو اس تاریخی شہر کا حسن اور نکھر جاتا ہے ۔ یہاں سارا سال موسم سرد ہی رہتا ہے اور جب موسم ِ گرما کاآغاز ہوتا ہے تو بھی موسم قابل برداشت ہی رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ پورے کابل میں آپ کو کسی بھی گھر میں سیلنگ فین یعنی چھت کا پنکھا نظر نہیں آئے گا ۔ ابھی حالیہ جنگوں میں بارود کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے جو موسمی تغیر واقع ہوا ہے اس کی وجہ سے کبھی کبھی موسم گرم ہو جاتا ہے ۔ ائر کنڈیشنرز تو یہاں بہت بعد میں عام ہوئے ہیں ۔ 

بازار میں پھرتے پھرتے ہم پر انکشاف ہوا  که یہاں موجود تمام اشیاءکی قیمتیں بلڈ پریشر میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں ۔ ایک عام زنانہ جوڑا جس پر تھوڑا بہت ہاتھ کا کام نظر آیا پاکستانی پندرہ ہزار روپے کا تھا ۔ اور واضح رہے کہ یہ سب سے سستا جوڑا تھا ۔ ہماری معیشت باربار اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی ۔ ہم تو ایک عام سے صحافی ہیں ہم کیا اور ہماری معاشی بساط کیا، وہاں تو جناب فضل الرحیم مروت صاحب جو ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین ہیں اور خیر سے گریڈ اکیس کے افسر ہیں ( یعنی چیف سیکرٹری بھی بن سکتے ہیں ) قیمتوں کی اس رفتار سے پریشان تھے ۔ چنانچہ ہم نے ایک خاموش اور غیر اعلان شدہ معاہدے کی روشنی میں ایک دوسرے کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا اور خشک میوہ جات طوعاً و کرہاً خریدے ۔ طوعاً و کرہاً اس لئے کہا کہ کچھ نا کچھ تو خریدنا تھا ۔ اگرچہ ہم سمندرپار نہیں تھے لیکن واپسی پر افغانستان جانے کا کوئی نا کوئی ثبوت تو دینا ہی پڑتا ہے اور دوسری بات یہ تھی کہ خشک میوہ جات کی قیمتیں بھی پاکستان کے مقابل زیادہ ہی تھیں ۔ ہمیں ہنسی اس لئے آرہی تھی کہ یہ پہلا موقعہ نہیں تھا کہ ہمیں ڈرائی فروٹ پر ہی قناعت کرنا پڑرہا تھا پہلے بھی ایک بار یہی ماجرا ہوا ۔ وه والی کیفیت تو کم ازکم ہمیں بھی یاد تھی لیکن خالی ہاتھ تو نہیں آسکتے تھے ۔ویسے بھی افغانستان سے جو خالی ہاتھ آتا ہے اسکی پھر یہاں نظموں میں بھد اڑائی جاتی ہے ۔اور کہا جاتا ہے کہ راغلے خو خالی خالی لاسونہ۔۔۔۔۔
(جاری هے)

No comments:

Post a Comment