حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Sunday 14 March 2010

کہسار باقی افغان باقی ۱

ہمارے قومی شاعر خوشحال بابا ؒ نے کہا تھا 
درست پښون لهـ قندهاره تر اټکه
سره يو دَ ننګ پهـ کار پټ اؤ اشکار

یہ ایک ایسا آفاقی شعر ہے جس نے انقلاب ِ فرانس سے بھی کئی عشرے قبل پختون قوم پرستی کو ایک سائنسی تشریح عطا کر دی تھی ۔ سیاسی علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نیشنل ازم کی جملہ تشریحات اور ایک قوم کی تشکیل کے عناصرلازمہ انقلاب ِ فرانس کے بعد ماہرین علوم سیاست کے درک میں آئے ۔ اور ہمارے قومی شاعر انہی جزویات کو بغیر کسی رسمی تعلیم کے ایک شعر میں کتنی سہولت سے کہہ گئے ۔ 

ملت ِافغان /پختون کے بارے میں جتنی شدت سے تبصرے اور آراءغیر اقوام نے تحریر کر رکھے ہیں شاید ہی کسی قوم کے بارے میں عالمی دلچسپی اس درجہ عروج پر دیکھی گئی ہو ۔ مثلاً پاکستان کے شاعر ِ بزرگ سر ڈاکٹر محمد اقبال یہ کہتے ہیں کہ 

آسیا یک پیکر آب و گِل است
ملت ِ افغاں درآں پیکر دل است 
از فساد اُوفساد آسیا 
از کشاد اُو کشاد آسیا 


یعنی ایشیاپانی و مٹی کا ایک وجود ہے اورپختون /افغان قوم کو اس وجود میں دل کی حیثیت حاصل ہے سو اس دل کی تباہی و خرابی پورے ایشیا کی خرابی و تباہی ہے اور اس کی کامیابی اور وسعت و خوشحالی پورے ایشیا کی خوشحالی ہے ۔ سر اقبال کے ہاں تو افغان /پختون شناسی کے دیگر حوالے بھی موجود ہیں ۔اسی طرح فرنگی محققین و سیاستدان اور خاصان کا بھی یہ ایک دلچسپ موضوع ِ تحریر ہے ۔ 

یہی نہیں ہندی اور ایرانی مصنفین نے بھی افغان امور کو کم اہمیت نہیں دی ۔ شاید ان تمام افغان شناسوں کو اس بات کا بھی درک تھا کہ یہی قوم کئے صدیوں تک عالمی واقعات و سیاست کا مرکزی نکتہ رہے گی ۔ جو لوگ آج پختونوں کی ایک غیر نمائندہ اقلیت کی متشدد مزاجی کو انتہاپسندی ، عسکریت پسندی ، بنیاد پرستی اور طالبانیت کے ناموں سے لکھ اور پھیلا رہے ہیں اور جنہو ں نے اس مقصد کے لئے اپنی فوجوں کو افغانستان کے طول و عرض میں پھیلا رکھا ہے ، انہی لوگوں کے لئے کبھی پختون /افغان قوم کی عدم تشدد کی پالیسی سخت قابل اعتراض شے بن گئی تھی ۔ دونوں حالتوں میں دراصل مقصد صرف یہ تھا کہ پختون /افغان قوم پر برتری و بالادستی کا خواب پورا کیا جائے ۔ انہیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رکھا جائے اور انہیں سیاسی طور پر تقسیم درتقسیم در تقسیم کردیا جائے ، کیونکہ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کا پہلا ذمہ داریعنی بندہ صحرائی تو تیل پی کر غافل ہو چکا ہے اور مردِ کہستانی کو اگر زنجیر نہ پہنائی گئی تو اس فطرت کے مقاصد کی نگرانی کا فریضہ یہ نہ صرف پورا کرے گا بلکہ شاید بندہ  صحرائی کو بھی تیل کے نشے سے باہر لے آئے گا۔ 

یہی دیکھ لیں کہ گزشتہ کچھ اوپر تیس سال سے افغانستان کس قسم کے حالات سے نبرد آزما ہے لیکن اس کے باوجود افغان عوام ان تمام مشکلات کا پامردی سے مقابلہ کر رہے ہیں ۔ ایسی حالت کسی اور قوم پر مسلط ہوتی تو نجانے اس قوم میں کیا کیا خرابیاں اور کجیاں پیدا ہو چکی ہوتیں لیکن آفرین ہے افغان قوم پر کہ اتنے بڑے جسمانی اور نفسیاتی حادثے نے ان پر وہ مضر اثرات مرتب نہیں کئے جو کسی جنگ زدہ قوم میں فطری طور پر آجاتی ہیں ۔ان لطیف و کثیف نکات کا تذکرہ آنے والے دنوں میں ان کالموں میں اجمالاً کیا جائے گا۔

   
افغان وزارت ِ خارجہ کے زیر اہتما م خطے میں امن اور عدم تشدد کی اہمیت اور معروضی حالات پر ان کے انطباق کے عنوان سے گزشتہ دنوں افغان دارالحکومت کابل میں ایک بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد ہوا ۔سیمیناراور قیام کابل کا مفصل حال بعد میں بیان کریں گے پہلے یہ بتا دیں کہ اس سیمینار میں پاکستان سے محترم افراسیاب خٹک ، ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئر مین اور معروف دانشور ڈاکٹر فضل الرحیم مروت ( جو پشتو کے صاحب طرز شاعر اور نابغہ مترجم بزرگوارم عبدالرحیم مجذوب کے صاحبزادے ہیں ) اور سنگین ولی خان مرحوم کے صاحبزادے لونگین ولی خان کے علاوہ راقم الحروف کو بھی شرکت کا موقعہ ملا۔ بنگلہ دیش ، بھارت ، جاپان اور افغانستان سے بھی علمی و سماجی شخصیات کا ایک گلدستہ اکھٹا کیا گیا تھا۔ 

محترم افراسیاب خٹک صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ افغانستان میں بھی ترقی پسندی اور قوم پروری کی علامت کے طور پر شہرت رکھتے ہیں ۔ بھٹو شاہی میں افغانستان میں طویل جلاوطنی بھی کاٹ چکے ہیں اور افغانستان میں ایک حلقہ  اثر رکھتے ہیں ۔ وہ اس سیمینار سے قبل ہی وہاں تشریف لے جا چکے تھے ۔ ہمارے رفیق سفر ڈاکٹر مروت اور سنگین ولی خان مرحوم کے جواں سال صاحبزادے لونگین ولی خان تھے ۔ 

پاکستان کی نام نہاد قومی ائر لائن کی ایک پرواز پکڑنے کے لئے ہمیں اتنی جد وجہد کرنی پڑی جتنی تیتر کے نو مولود بچے کو پکڑنے کے لئے کی جاتی ہے ۔ 

صبح سوا سات بجے کی فلائٹ کے لئے ہمیں ڈاکٹر مروت صاحب کی طرف سے ایک شب قبل ہی یہ تجویز موصول ہو گئی تھی کہ فلائٹ “ انٹرنیشنل”  ہے وقت سے کم از کم آدھا گھنٹہ قبل پہنچنا ہوگا ۔ ہمیں ویسے بھی شب بیداری و شب خیزی کا عارضہ ہے ۔ اس تجویز کے بروقت موصول ہونے نے ہماری نیند غائب کردی ۔ صبح کاذب سے قبل ائر پورٹ روانہ ہوئے تو ہر راستہ بند پایا ۔ ائر پورٹ جانے والے جس راستے پر بھی گاڑی موڑی وہاں موجود وردی پوش نے واپس جانے کا اشارہ دیا - کچھ عجیب قسم کی صورت حال تھی ۔ائر پورٹ کسی طرح پہنچ گئے اور یہ جان کر نہایت مسرت ہوئی کہ زندگی میں پہلی مرتبہ ہم سب سے پہلے پہنچے ہیں ۔ ڈاکٹر مروت صاحب ہمارے بعد پہنچے ۔وہ آئے تو انہیں لونگین ولی خان کا فون موصول ہوا کہ وہ تو ایک گھنٹے سے وی آئی پی لاونج میں انتظار کر رہے ہیں ۔ یعنی وہ فوقیت ہماری چند لمحوں کے کیف سے زیادہ نہ رہی ۔ 

مقررہ وقت پر جہاز کی طرف روانہ ہوئے تو سامنے ایک چھوٹا سے جہازنظر آیا جو بادی النظر میں ڈرون لگ رہا تھا ۔ کیونکہ اس قدر چھوٹا جہاز ڈرون ہی ہو سکتا تھا تاہم اس میں میزائلوں کی جگہ مسافروں کو ٹھونسا گیا تھا ۔ حیرت اس بات پر ہوئی ایک ہی جھٹکے میں جہاز فضا میں بلند ہو ا جو ہمارے تجربے کے بر عکس تھا ۔ یہ برقی پرندہ تو اڑان سے قبل کافی دوڑتا ہے لیکن اس ننھے جہاز کو شاید ایسی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم 40 منٹ میں پہنچیں گے ۔ کابل ائر پورٹ پہنچے تو فضائی میزبانوں کی جانب سے دی گئی چائے کی پیالی ابھی آدھے باقی تھی ۔ ہم نے حساب لگایا تو آٹھ بجنے چاہئے تھے لیکن ائر پورٹ کی گھڑی میں ساڑھے سات  بج رہے تھے ۔کابل اور پشاور کے درمیان آدھا گھنٹہ ہم گنوا چکے تھے 

(جاری هے)

No comments:

Post a Comment