حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Tuesday 16 March 2010

کہسار باقی افغان باقی ۳

صبح سویرے ہمیں افغان دفتر خارجہ کی عمارت پہنچنا تھا جہاں جنوبی ایشیا میں عدم تشدد کی تحاریک اور نظریات کے حوالے سے ایک بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا ۔داود مرادیان جو سینٹر فار سٹراٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل ہیں ایک خوش پوش و خوش شکل نو جوان ہیں ۔ افغانستان میں آج کل تقریباً تمام اعلٰی و کلیدی عہدوں پر مغربی ممالک سے فارغ التحصیل نوجوان تعینات ہیں ۔شاید اس کی ایک وجہ یہ ہوکہ افغان صدر حامد کرزئی امیر کروڑ دور کی ”یادگاروں “کی بھد اڑاتے رہتے ہیں (علامہ عبدالحئی حبیبی کی دریافت پٹہ خزانہ کے مطابق امیر کروڑ پشتو کے پہلے شاعر ہو گزرے ہیں ۔ جناب ِ صدر نے اس حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا اس حوالے سے تفصیلی تذکرہ انہی کالموں میں آگے آئے گا) داود مرادیان سے ایک روز قبل کی ملاقات میں یہ معلوم ہوا تھا کہ ہمیں صبح آٹھ بجے وہاں لے جایا جائے گا -اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کے عوامی وقت کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے اور سرکاری وقت کے مطابق ساڑھے سات بجے ہمیں تیار رہنا تھا۔ بہر حال ایسی ہنگامی نوعیت میں ہماری نیند ہمیشہ رات سے ہی غائب ہو جاتی ہے لیکن ایک مسئلہ یہ تھا کہ ہمیں وہاں فخر افغان خان عبدالغفار خان باچا خان ؒ کی ذات و صفات کے حوالے سے وہ مقالہ بھی پڑھنا تھا جو خاص اسی مقصد کے لئے لکھا گیا تھا اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ اپنی تقریر کے دوران خود جمائیا ں لیتے رہیں اور لوگ نیند کے مزے لوٹتے رہیں ۔ سو سونا ضروری تھا ۔ 

تین چار الارم لگا کر سوئے تھے گھڑی میں وقت افغانستان کے معیاری وقت سے نہ ملانے کا فائدہ یہ ہوا کہ وقت سے بہت پہلے تیار ہوگئے ۔اور دل ہی دل میں اپنی فوقیت کی مسرت سے سرشار رہے ۔ لیکن ہوا وہی ڈاکٹر مروت صاحب دریشی پہنے ( انگریزی لباس کوٹ ٹائی پینٹ وغیرہ کے مترادف افغان الفاظ) لابی میں افراسیاب خٹک صاحب کے ساتھ بیٹھے گفتگو کر رہے تھے ۔ 

صبح اٹھنا ہمارے نزدیک ایک ناپسندید ہ فعل ہے اور صبح اٹھنے والوں کے بارے میں بھی ہماری رائے کچھ خاص نہیں ۔ ایک دوست جنہوں نے ہمارے ساتھ ایک اخبار میں نیا نیا کام شروع کیا تھا روزانہ تاخیر سے آنے کے عادی تھے آخر ایک دن تنگ آکر مدیر محترم نے انہیں طلب کیا اور کہا میاں آپ صبح سویرے ٹائم پر دفتر کیوں نہیں آتے ۔ کہنے لگے صاحب ہم صحافی ہیں دودھ نہیں بیچتے ۔صبح سویرے کیوں آئیں ؟گویا ان کے نزدیک اتنی سحر خیزی صرف گوالوں کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے ۔ 

حقیقت بھی کچھ ایسی ہے ۔ دیکھ لیجئے جو صحافی نصف شب تک ملکی حالات سے عوام کو باخبر رکھنے کا فریضہ انجام دیتا ہے اور اس کے بعدجسے گھر داری کے خوشگوار یا ناخوشگوار تجربات سے گزرنا ہو ،اسے سوتے سوتے تین تو بج جاتے ہیں ایسی صورت میں یہ توقع رکھنا کہ وہ صبح اخبار کی تقسیمی کے وقت بھی حاضروہشاش بیٹھا ہو کچھ عجیب سا ہی ہے ۔ جن لوگوں کی راتوں کا گزرنا ایک ایسے حال میں ہو کہ وہ عوام کو دن کے اجالے میں اجالے کی تفسیر بتاتے رہتے ہیں اور یہ ان کا معمول بن جاۓ ان کے لئے ایک رعایت دلی طور پر محسوس نہ کرنا زیادتی ہے ۔ 

بہر حال ، بات کہاں کی کہاں پہنچ گئی ۔ مقررہ وقت پر بسو ں ، کاروں اور جیپوں پر مشتمل یہ قافلہ افغان وزارت خارجہ کی عمارت روانہ ہوا۔وزارت خارجہ میں ہمارا استقبال وزارت کے عالی رتبہ شخصیات نے کیا ۔ جس ہال میں سیمینار برپا کیا گیا تھا اس کو بڑے سلیقے سے سجایا گیا تھا ۔ مغربی طرزکی سجاوٹ تھی ، میز پر خشک میوہ جات اور پانی کے ساتھ ساتھ مائیک اور ہیڈ سیٹ بھی موجود تھا جس کے ذریعے پشتواور دری کی تقاریر کو انگریزی میں اور انگریزی کی تقاریر کو دری میں سنا جا سکتا تھا ۔ اگرچہ ترجمہ اچھا نہیں تھا لیکن کوشش متاثر کن ضرور تھی ۔ پہلی نشست کی مجلس صدارت میں محترم افراسیاب خٹک ، افغان وزیر خارجہ رنگین دادفر سپانتا اور بھارت کی منصوبہ بندی کمیشن کے رکن محترمہ سعیدہ حمید شامل تھیں ۔ 

مرادیان صاحب نے افتتاحی کلمات ادا کئے (دری زبان میں ) سعیدہ حمید صاحبہ نے مہاتما گاندھی اور باچا خان ؒ کی تحاریک سے لبریز ایک مقالی پڑھا جس میں زیادہ زور خواتین کے ایشوز پر تھا ۔ رنگین دادفر صاحب نے وہی تقریر پڑھی جو انہیں لکھ کر دی گئی تھی ۔ سمجھ ہمیں اس لئے نہ آسکی کہ ان کا خطاب بھی دری ہی میں تھا اور مترجم کی ساکھ ہمارے نزدیک اس قابل نہیں رہی تھی کہ ان پر زیادہ اعتبار کیا جاتا ۔محترم خٹک صاحب نے موجودہ صورتحال میں عدم تشدد کی اہمیت پر ایک فی البدیہہ تقریر کی اور سیاسی وقائع کی روشنی میں پاکستان کے مستقبل کی ایک امید افزا تصویر پیش کی ۔ افغانستان میں امریکی یونیورسٹی کی طالبہ مریم ہوتکی نے امریکی اشتراکی گلوکارجان لینن کے ایک اقتباس سے امن کی دعا پڑھی اور افغانستان کے طلبا ءو طالبات کی جانب سے خیر سگالی کے کلمات پڑھے ۔ اس کے بعد چائے کا وقفہ لیا گیا بعدازاں تہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر مولاہی نے فارسی ادب میں امن اور برداشت کے موضوع پر اپنا طویل مقالہ پڑھا اور طویل تر زبانی تقریر کی ۔ ان کی تقریر کی روح میں جو بات موجود تھی وہ صرف اور صرف انقلاب ایران کے ارد گرد گھومتی رہی اور ملائیت کا اظہار بھی شدت سے کرتے رہے ۔ ہمیں زیادہ تعجب اس وقت ہوا جب افغان وزرات خارجہ کی دعوت پر ایک جاپانی مقرر بھی جنوبی ایشیا کی اس کانفرنس میں تقریر کے لئے نمودار ہوگئے ۔ افراسیاب خٹک کے جواں سال صاحبزادے خوشحال خٹک نے جب اس سمت ہماری توجہ مبذول کرائی تو تبسم کے جھٹکوں کے سامنے کوئی بند نہ باندھ سکے ۔ 

دری زبان سیمینار پر اس درجہ چھائی رہی کہ بیان سے باہر ہے حیرت کی بات ہے کہ بنگلہ دیش کے مندوب بھی دری میں ہی بولنا شروع ہوگئے بعد میں پتہ لگا کہ انگریزی ہی بول رہے ہیں اور ہم نے ہیڈ سیٹ لگا رکھا ہے ۔ اس نشست کی آخری تقریر باچاخا ن ؒ کے ساتھی سرمحقق عبداللہ بختانی خدمتگار کی تھی ۔ شاید تقریر پشتو میں ہونے کی وجہ سے بار بار انہیں جلد بھگتانے کے احکامات موصول ہوتے رہے ۔ تنگ آکر انہوں نے اپنی تقریر ادھوری ہی چھوڑ دی ۔اس دوران لونگین خان اور خوشحال خٹک کی طبعیت اچانک خراب ہو گئی تھی کھانا بھی نہ کھاسکے- کمر درد کی تکلیف نے ہمیں بھی دہراکر رکھا تھا ہوٹل کا بسترنا قابل بیان حد تک نرم تھا جو ہمارے جسم کو گوارا نہیں تھا۔ سو اپنی تقریر جو ہم تین زبانوں میں شائع کروا کر ساتھ لائے تھے کانفرنس کے منتظمین کے حوالے کی اور اپنے ساتھیوں سمیت ایک نجی گاڑی میں واپس ہوٹل آگئے ۔ دوسرے دن پتہ لگا کہ ہمارے اس طرح کے اُٹھ جانے کو واک آوٹ سمجھا گیا ہے ۔ اس غلط فہمی پر ہم چپ ہی رہے اور کوئی وضاحت اس لئے نہیں کی کہ دل ہمارا واک آوٹ ہی کا تھا۔
(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment