حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Thursday 22 September 2011

پبلک ریلیشننگ

 میرے بھی ہیں کچھ خواب؟                                                                      




                                                                              
ہمارے محبوب و مرشد جون ایلیا نے نجانے کس موڈ میں ایک مرتبہ کہا تھا کہ فوج کہیں کی بھی ہو ہوتی پنجابی ہے۔اب پنجاب شناسی کا ہمیں نہ کوئی دعویٰ ہے اور نہ کوئی تجربہ لیکن پاکستان کے توسیع پانے والےواحد آرمی چیف جناب جنرل اشفاق پرویز کیانی کی کراچی میں حالیہ مصروفیت نے حضرت جون کے اس معمہ نما بیان کی طرف ایک مرتبہ پھر ہماری توجہ پھیر دی ہےاور ہم یہی سر تلاش کر رہے ہیں کہ قومی مزاج کے وہ کون سے اہم نکات ہیں جو جناب جون کے اس عقیدے کی بنیاد ہیں کہ فوج جہاں کی بھی ہو ، ہوتی پنجابی ہے۔

کراچی میں جناب آرمی چیف کی مصروفیت کے حوالے سے بڑے بڑے اخبارات نے بڑی بڑی سرخیاں جمائی ہیں ، خبروں کے مطابق بدھ یعنی 21ستمبر کو جناب جنرل صاحب اچانک کراچی پہنچ گئے (اچانک!یاد رکھنے کا لفظ ہے)اور انہوں نے کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں کو فوری طور پر طلب کرلیا ، پونے دو گھنٹوں کی اس ملاقات میں بقول اخبارات، کراچی کے چیدہ چیدہ تیس پینتیس تاجر و صنعت کار موجود تھے ، ایک اخبار کے مطابق جنرل صاحب تاجر برادری کے گفتگو“مکمل توجہ اور غور” سے سنتے رہے اور دوران گفتگو وہ اپنی رائے کا اظہار بھی وقتاً فوقتاً کرتے رہے ، انہوں نے تاجروں کو یقین دلایا کہ اگر رینجرز نے (جن کے آپریشن پر فوج کڑی نظر رکھے ہوئے ہے)امن بحال کرنے میں غفلت کا مظاہر ہ کیا تو کراچی میں فوج آجائے گی ، انہوں نے کہا کہ مسلح افواج کراچی کے حالات نظر انداز نہیں کرسکتی ، کیونکہ کراچی ملک کا معاشی مرکز ہے انہوں نے تاجروں کو مشورہ دیا کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ کراچی میں قیام امن کے لئے مزید سخت اقدامات کئے جائیں ، کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر سعید شفیق صاحب بڑے خوش تھے اور کہہ رہے تھے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ آرمی چیف نے امن وامان کے مسائل کے حوالے سے کراچی کے تاجروں سے ملاقات کی اور ان کی گفتگو سنی ۔ 

جس اچانک کا اوپر ذکر ہے کچھ اسی اچانک انداز سے ایک خبر مزید آج جمعرات کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ عسکری حلقوں ” میں حکومت کو چلتا کرنے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں ، ایک اخبار نے مانیٹرنگ ڈیسک کے حوالے سے لکھا ہے کہ آٹھ ستمبر کو کورکمانڈرز کی حالیہ کانفرنس میں بعض کور کمانڈرز نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا کہ اب حالات اس درجہ پر نزاکت سے دوچار ہوگئے ہیں کہ فوج کو اقتدار سنبھال لینا چاہئے ، لیکن آرمی چیف نے انہیں ایسی باتیں کرنے سے روک دیا اور کہا کہ سویلین حکومت کو ابھی مزید موقع ملنا چاہئے ، یہ بات واضح رہے کہ پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ذمہ دار شعبے آئی ایس پی آر نے نہ تو 22ستمبر 2011تک آٹھ ستمبر کو ہوئی اس 142ویں کور کمانڈر کانفرنس کی کوئی پریس ریلیز جاری کی اور نہ ہی آج بروز جمعرات تک بدھ کے دن کراچی میں جناب جنرل صاحب کی سرگرمیوں کی کوئی تفصیل میڈیا کو دی ہے ۔ 
 
فوج کی اس اچانک حساسیت کی کوئی خاص وجہ نہیں ، جناب جنرل صاحب کی قیادت میں فوج کا مزاج عمومی اور عوامی مسائل کے حوالے سے قابل ‍ ذکر حد تک حساس ہو چکا ہے ، کیری لوگر بل نے اسی عوامی جذباتیت کی خشت ِ اول رکھی تھی اور پھر اس پر اکتفا نہیں ہوا تھا بلکہ توانائی کے بحران پر بھی زبردست قسم کا ایک بیان جاری کیا گیا تھا ، پھر سیلاب کے حوالے سے بھی فوجی دانشوروں کے رشحات قلم اور نتیجہ ہاۓ فکر سے عوام کو متمتع کیا گیا تھا ، یہ الگ بات کہ جب سن 2005  ء میں زلزلہ آیا تھا اور اس زلزلے نے پختونخوا کے دروبام ہلا دئے تھے اس میں فوج نے جو خدمات انجام دی تھیں ان کا بل دائیں ہاتھ سے جناب اکرم درانی کی اس وقت کی حکومت کو تھما دیا گیا تھا ، چونکہ اس وقت مستعفی ، معزول  یا مفرور صدر مملکت ہی آرمی چیف تھے اس لئے کسی قسم کی پبلک ریلیشننگ کی ضرورت کے حوالے سے فوج کی کوئی حساسیت تھی ہی نہیں ، اس زلزلے کی شدت یا اس سے ہونے والے نقصانات کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، پوری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ 2005 ء کا زلزلہ نوعیت ، شدت اور نقصانات کے حوالے سے کس قدر بھیانک تھا لیکن اس وقت کی ضروریات اور آج کے عصری تقاضوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔

اس وقت پورا ملک جن عذابوں سے گزر رہا ہے ، کراچی کی ٹارگٹ کلنگ ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ، کینسر اور بخار کا جیسے کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا ، جس وقت کراچی میں جناب جنرل صاحب اس کے معاشی مرکز ہونے پر متفکر ہو کر تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کررہے تھے اس سے شاید چوبیس گھنٹے پہلے بلوچستان کے علاقہ مستونگ میں اہل تشیع زائرین کی ایک بس کے ساتھ ہونے والے واقعے پر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے دل آزردہ تھے ، پشاور کے قلب میں دھماکے کو اڑتالیس گھنٹے ہوئے تھے ، ملاقات کے وقت طالبان کے کارندے پاکستان کی فوج ہی کے ایک ایسے ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنا رہے تھے جس میں سوات کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل جاوید اقبال کو گولیا ں ماری جارہی تھیں ، اس سے سے کچھ ہی عرصہ قبل دیر اور چترال کی طرف سے افغانستان سے در اندازوں کی کارروائی میں کتنے ہی لوگ جاں بحق ہوچکے تھے ، لیکن حیرت ہے کہ جناب آرمی چیف کو سیکیورٹی سے متعلق ان امور کی ذمہ داری نبھانے سے زیادہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی فکر لاحق تھی ، یہ فکر بے جا بھی نہیں کہ کراچی دراصل اس ملک کا معاشی مرکز ہے، باقی علاقے خصوصاًہمارے پختونخوا کے علاقے تو بدمعاشی کے مراکز ہیں ، وزیر اعظم سے لے کر کسی بھی وفاقی وزیر یا صدر مملکت سے لے کر کسی دوسرے ذمہ دار تک کسی نے دہشت گردی (دہشت گردی ایک بیرونی خطرہ ہے ، جس کی سرکوبی کرنا افواج پاکستان کا اولین فرض ہے) سے متاثر ہ شہر پشاور یا اس صوبے کے دوسرے کسی حصے میں معاشی سرگرمیوں میں مصروف لوگوں سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کے نقصانات کس درجہ پر ہوئے ہیں اور آیا ان نقصانات کے ازالے کی کوئی صورت بھی ہوگی یا نہیں ، یہ صوبہ پہلے ہی سے غریب ہے ، سرکاری اخراجات کا بوجھ بھی بمشکل برداشت کرسکتا ہے  ، اٹھارویں ترمیم کے ثمرات سے فیض یاب ہونے میں ابھی کافی وقت پڑا ہے لیکن افسوس کہ وزیر اعظم نے پشاور آکر یہ نہیں کہا کہ پشاور کے حالات حکومت نے ٹھیک نہ کئے تو کوئی دوسرا آکر  اقتدار سنبھال لے گا  اور نہ ہی سول سوسائٹی کی جان چیف جسٹس نے پشاور آکر یہ اعلان کیا کہ خاکی وردی والوں کو اقتدار سنبھالنے کا جواز فراہم نہ کریں ورنہ شاید آرمی چیف یہاں بھی پہنچ جاتے ۔ 

ساری بات یہی ہے ایک ایجنڈا ہے جس پر آہستہ آہستہ عمل کیا جارہا ہے ، چند باخبر لوگ اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو سینیٹ کے انتخابا ت کرانے کا موقع نصیب نہیں ہوگا تو ان لوگوں کو یہ سر قدسی طور پر ہاتھ نہیں لگا انہیں ایک عارضی تاریخ بتا دی گئی ہے کہ اس کے بعد نظام کی رکھوالی کرنے والے بھی  زور آوروں اور بندوق برداروں کو خود ہی ہاتھ سے پکڑ کر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیں گے ، ورنہ آئین کی پاسداری اور تحفظ کا حلف اٹھانے والے چیف جسٹس کو ضرورت ہی کیا پیش آئی تھی کہ وہ خاکی وردی کے جواز کو استحکام بخشنے کی بات کریں ، یہ سب کچھ ایک طے شدہ ایجنڈے کے مطابق ہی ہورہا ہے ، آئی ایس پی آر نے ترجمانی کے فرائض کی انجام دہی میں تساہل نہیں برتا ، بلکہ اس نے گزشتہ دو ایونٹس کی رپورٹنگ نہ کر کے ہی خود غلط فہمیوں کو پیدائش کا موقع فراہم کیا اور اس وقت آئی ایس پی آر کے فرائض یہی تھے کہ لوگوں کو چہ می گوئیوں کا موقعہ فراہم کردیا جائے ، میاں نواز شریف ، چیف جسٹس اور جناب جنرل صاحب تینوں اگر سندھ و کراچی کے دوروں پر ہیں تو یہ سیاست کی ملتی جلتی کڑیا ں ہی ہیں ، یہ تو میاں نوازشریف صاحب ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے جمہوریت پر تبریٰ بھیجتے ہوئے یہ کہا تھا کہ حکومت کی کرپشن نے جمہوریت کو بدنام کردیا ہے ، وہ سیاست بھی کہہ سکتے ہیں لیکن لفظ سیاست اس ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں تھا  جو بقول مرشدی پنجابیوں کا مطمح نظر ہے۔ ورنہ جب جنرل صاحب کراچی میں پبلک ریلیشننگ کر رہے تھے اور یہ کور کمانڈر ز کانفرنس میں انہیں حسب دل خواہ مبینہ مشورے دئے جار ہے تھے وہ یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ سرکاری ملازموں کو اپنے حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے !!!!