حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Saturday 20 March 2010

کہسار باقی افغان باقی ۸

افغانستان کے بارے میں پاکستان کے میڈیا میں اکثر یہ بات پڑھنے کو ملتی ہے کہ وہاں امریکی اور نیٹو کی افواج کا قبضہ ہے اور یہ کہ نیٹو افواج کی وجہ سے حکومت انتظام کافی حد تک گھٹ چکا ہے ۔ یہ بات اکثر و بیشتر پاکستانی حکومت کے طبقہ اشرافیہ میں موجود افغان گریز حلقوں کی طرف سے میڈیا میں اپنے دوستوں کے ذریعے پھیلائی جاتی ہے ۔ ہمارے صوبے کے گورنر اویس احمد غنی نے آج تک ایسا کوئی موقع نہیں چھوڑا جس میں افغان حکومت اور افغانستان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی بات پھیلائی جا سکتی ہو اور انہوں نے اس کا فائده نہ اٹھا یا ہو ۔

چند ماہ پیشتر انہوں نے پشاور کے تمام صحافیوں اور اخبارات سے وابستہ لوگوں کو ایک ضیافت پر مدعو کیا تھا (یہ الگ بات کہ اسے سنیئر صحافیوں سے ملاقات کا نام دیا تھا) اس ضیافت میں جناب گورنر نے افغانستان کے خلاف کچھ اس شدت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کیا کریں گے ۔ انہوں نے باقاعدہ نام لے کر کہا کہ وہاں سے پاکستان میں مداخلت ہو رہی ہے ۔ انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے مشترکہ سرحدی افغان علاقوں میں سولہ بھارتی قونصل خانوں کا بھی ذکر کیا ۔  “سینئر صحافیوں”  کی بہتات کی وجہ سے ہمیں ان کے خطاب کے دوران تو سوال کا موقعہ نہ مل سکا لیکن کھانے کی میز پر ہم نے ان سے عرض کیا کہ جناب گورنر صاحب آپ ایک عرصے سے ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں (جو ظاہر ہے سفارتی آداب کے منافی ہیں ) لیکن جن شواہد کی بنیادپر آپ یہ سب کچھ ارشاد فرما رہے ہیں وہ اعلیٰ سطح پر دفتر خارجہ کے توسط سے افغان حکام کو کیوں نہیں بتاتے؟ دوسری بات یہ ہے کہ جن سولہ قونصل خانوں کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے کیا ان کے موقعیت کا بھی کوئی ثبوت ہے ۔ سولہ قونصل خانے بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ کسی بھی ملک میں اتنے زیادہ سفارتی دفاتر نہیں ہوا کرتے لیکن شاید جناب گورنر کی اینٹلی جنس کا دارومدار پنجاب سے شائع ہونے والے اخبارات ہی ہیں جن میں اس سلسلے میں مبالغے پر مبنی اعداد و شمار دئے جاتے ہیں ۔ 

نیٹو فورسز نے افغانستان کا کنٹرول اس درجے پر سنبھالا ہوتا کہ وہاں جناب حامد کرزئی کی بجائے جنرل ٹامی فرینک یا جنرل ڈان میک نیل کی بادشاہی ہوتی تو امریکہ کو وہاں انتخابات کے سلسلے میں اس درجہ پر پریشانی کا سامنا نہ ہوتا ۔ بلکہ جس انداز سے پنجابی پریس میں نیٹو کا اثر و نفوذ افغانستان میں دکھایا جا رہا ہے اس لحاظ سے تو نیٹو کے سپاہیوں کو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے لئے ووٹ پول کرنے چاہئے تھے اور اگر ایسا نہ ہوسکتا تو انتخابی نتائج ہی اپنی مرضی کے حاصل کرلئے جاتے لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے ۔ افغانستان میں ہم نے اپنے ہر مرتبہ کے قیام کے دوران کوشش کی ہے کہ امریکیوں کے اثر و نفوذ کو نوٹ کریں لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ 

پہلے یہ بتایا جاتا تھا کہ کابل مکمل طور پر نیٹو کے قبضے میں ہے لیکن کابل کے ہر چوک میں مقامی افغان سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد ہی نظر آتی ہے ۔ بارہا ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ نیٹو کے فوجی ٹرک اور دیگر لاریاں ہمیں راستے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آتی جاتی دکھائی دیں لیکن وہ بھی آتی جاتی ۔۔۔۔راستے میں رکنے کی تاب ان میں ہے ہی نہیں ۔ بہت سارے افغان سرکاری دفاتر دیکھے ،کسی دفتر میں نہ کسی انگریز اور نہ ہی کسی امریکی سے ملاقات ہوئی حالانکہ ہم دل و جان سے چاہتے تھے کہ کہیں کسی سرکاری دفتر میں ہماری ملاقات کسی سنہری بالوں والی امریکی یا برطانوی افسرہ (اپسرا نہیں ) بکار خاص سے ملاقات ہو اور ہم اس سے باہمی دلچسپی کے امور پر اتنی ہی طویل گفتگو کریں جیسی اس قسم کی ملاقاتوں میں ہوا کرتی ہیں ۔ لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہو سکی ۔ 

ارگ( افغان صدارتی محل ) جاتے ہوئے ایک فوجی گاڑی میں نہایت خوبصورت عورت کو وردی ہیلمٹ اور دیگر الم غلم پہنے دیکھا تو کابل میں انگر یز یا سفید پوست مغربی خاتون کو دیکھنے کی آرزو پوری ہوگئی لیکن جب زیادہ غور کیا تو وہ کوئی نوجوان لڑکاہی تھا ۔ نظر کے اس دھوکے نے ہمیں خجل کرنا تھا لیکن شکر ہے کہ کسی سے کچھ کہا نہیں ۔ ہماری واپسی کا وقت قریب آرہا تھا- آٹھ اکتوبر کو ہم نے افغانستان کے معیاری وقت کے مطابق دو بج کر بیس منٹ پر پاکستان کی قومی (قومی ؟)ائر لائن کی پرواز سے واپس جانا تھا ۔ سامان وغیرہ کی پیکنگ کا کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں تھا اس لئے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا سامان نہیں تھا جس کی پیکنگ کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیدا کرتا۔اصل مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے بہت سارے دوستوں نے کابل آنا تھا اور ہم کوشش کررہے تھے کہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکیں ۔ کابل میں آٹھ اور نو اکتوبر کو عالمی پشتو کانفرنس ہونا تھی اور اس کے لئے زیریں پختونخوا کے ادباءاور لکھاریوں کی ایک جمعیت آرہی تھی ۔ 70 سے لے کر 80 نوابغ کا یہ قافلہ اسداللہ دانش کی سربراہی میں سات اکتوبر کو پہنچناتھا اور ہمارے خیال کے مطابق اس قافلے کو دوپہر کے وقت تک کابل پہنچ جانا چاہئے تھا - لیکن تاسف تھا کہ اس قافلے کے لوگوں سے ہماری ملاقات رات کے وقت ہی ہو سکی - وجہ اس کی یہ تھی اس قافلے کی جگہ جگہ آوبھگت ہورہی تھی ۔

قافلے میں بلوچستان کے شعراءاور ادباءبھی شامل تھے - مجھے حیرت تھی کہ ان لوگوں کو تو قندہار کے ذریعے آنا چاہئے تھا لیکن ان ساتھیوں نے بھی شاید رفاقت راہ کی خاطر طورخم کا راستہ چنا تھا ، دوسری بات یہ ہوئی کہ جلال آبا د میں ان کا قیام شیڈول سے زیادہ طویل ہوگیا اور شاید کھانے کے بعد یہ لوگ یا تو آرام کر رہے تھے یا جلال آبا د گھوم رہے تھے - اسی طرح کابل آنے کے فوراً بعد یہ لوگ ہوٹل پہنچنے کی بجائے اس عشائیے پر پہنچے جو ان کے اعزاز میں دیا گیا تھا- اگر یہ حضرات براہ راست کوئی وقت ضائع کئے بغیر کابل آتے تو وقت کی کافی بچت ہو جاتی لیکن جناب اسداللہ دانش کی بات کہ شعرا ءکی تنظیم کوئی سہل کام نہیں - اور یہ ہے بھی حقیقت- شاعروں کے انتظاما ت کی ذمہ داری نبھانا دنیا کے چند مشکل ترین کاموں میں سے ہے ۔ لیکن اسداللہ دانش کی ایک خصوصیت بہر حال یہ ہے کہ وہ شعراءکی نزاکتوں کو جانتے اور بھانپتے ہیں اس لئے اہلیان ِ قلم کی اکثریت انہیں دوست رکھتی ہے اور انہیں دوست رکھنے کا ایک سبب تو یہ بھی ہے کہ وہ ہر درجے اور ہر قسم کے شاعر اور لکھاری کو اپنے رسالے میں شائع کرنے میں کسی قسم کا عار محسوس نہیں کرتے ۔بلکہ اگر شاعر اور لکھاری نہ بھی ہو تو اس کی تحاریر شائع کر کے اسے بھی اس درجے پر فائز کرنے کی کاوشوں میں لگے رہتے ہیں 

شعرائے کرام جب ہوٹل آئے تو ہم اپنے کمرے ہی میں ٹہل رہے تھے کہ ڈاکٹر مروت صاحب نے ان کے آنے کی اطلاع دی ۔ ہم جلدی سے لفٹ میں سوار ہوکر نیچے آئے ۔ ایک جم غفیر تھا جو ہوٹل کے کارڈز ہاتھ میں لئے پُر کرنے کے کار ِ گراں سے نبرد آزما تھا ۔ وہیں ہمیں پتہ لگا کہ ہمارے بزرگوار مشفق و مہربان اور پشتوعالمی کانفرنس کے چیئرمین سلیم راز صاحب احتجاجاً تشریف نہیں لائے( جاری ہے)

No comments:

Post a Comment