حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Sunday 21 March 2010

کہسار باقی افغان باقی -- آخری حصہ

پشتو عالمی کانفرنس کے مدعوئین میں ہمارے ساتھی ڈاکٹر محمد زبیر حسرت بھی تھے ، پہلے صوابی والے لاہور کے ایک سرکاری کالج میں پڑھاتے تھے اب خیر سے ٹیکسٹ بک بورڈ میں پشتو کے ماہر مضمون ہیں۔ ویسے ہونا انہیں ممبر چاہئے تھا لیکن مس ریڈنگ اور مس کیلکیولیشن ہر جگہ ہوتی رہتی ہے ۔ ان سے رات گئے تک کابل انٹر کانٹی نینٹل کی لابی میں گفتگو ہوتی رہی ۔ ادبی غیبتوں کا ایک سلسلہ تھا جو ختم ہونے والا نہیں تھا ۔ہم کسی باریک نکتے پر انہماک سے تبادلہ خیال کر رہے تھے کہ اتنے میں معروف افسانہ نگار طاہر آفریدی صاحب آگئے ،کہنے لگے یہیں کہیں ان سے ادویات کھو گئی ہیں ۔ ہم نے بہتیرا تلاش کیا لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ میں نے پوچھا طاہر صاحب کون سی ادویات تھیں انہوں نے جواب دیا کہ بلڈ پریشر کی ۔ میں نے کہا کہ بلند فشار کا عارضہ تو ہمیں بھی ہے اگر میری ادویات سے آپ آج رات کام چلا سکتے ہیں تو کل اپنے لئے منگو الیں ۔ میں نے ڈاکٹر حسرت سے کہا کہ آپ بھی ساتھ آئیں تاکہ بقیة السلف کی خدمت کی سعادت آپ کو بھی حاصل ہو ۔ سو کمرے میں پہنچ کر دوائی ایک ٹشو پیپر میں لپیٹی اور پھر لفٹ میں سوار ہو کر نیچے پہنچ گئے ۔ پھر بزرگ سے اجازت لی اور اپنے اپنے کمروں میں بند ہوگئے ۔

رات کو کسی پہر بے خوابی سے تنگ آکر جو نیچے لابی پہنچا تو حیران رہ گیا ۔ ایک شادی ہو رہی تھی ۔بچے بوڑھے خواتین جمع تھے کوئی آرہا تھا کوئی جا رہا تھا ۔ لابی میں موجود ہر ذی نفس ایک مجسمہ جمال تھا ( سوائے ہمارے)پس ہم لابی ہی میں ایک صوفے پر نیم دراز ہوگئے اور نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگے ۔ اتنے میں دولہا اور دلہن آئے ۔ دولہا ایک انگریزی ٹو پیس میں ملبوس تھا جبکہ دلہن اپنے دولہے کی بغل میں ہاتھ دئے ایک پیارا سا گلاب کا پھول ہاتھ میں تھامے ایک عجیب و غریب حد تک نزاکت سے قدم اٹھاتی آرہی تھی ۔ کوئی گھونگھٹ نہیں تھا، کوئی لیپا پوتی نہیں تھی، سب سے بڑھ کر کوئی گوٹے کناری والی بھاری بھرکم کمخواب و اطلس ، جامے دار و کامے دار ٹائپ کی کوئی شے نہیں تھی اور ناہی کوئی زیورتھا۔ایک شدید قسم کی سادگی تھی اور اس پر چھائی ننھی منی کامنی سی کانچ کی گڑیا جیسی مورت کی دل آویز مسکراہٹ ۔انگریزوں کے نمونے کا ویڈنگ ڈریس تھایعنی برائڈل گاون تھا اس کے پیچھے لٹکنے والا حصہ جسے ٹرین کہا جاتا ہے، مختصر سا تھا لیکن ساتھ ساتھ گھسٹتا جا رہا تھا ۔

جن قارئین کواب بھی سمجھ نہیں آئی انہیں لیڈی ڈیانا کی شادی کا منظر ذہنوں میں تازہ کرنا ہوگا ۔ جوشاہی خدمت گار لیڈی ڈیانا کے برائڈل گاون کا پچھلا حصہ نہایت احترام سے پکڑے ان کے پیچھے پیچھے آرہے تھے، وہی حصہ ٹرین کہلاتا ہے ۔ اب بھی اگر سمجھ نہیں آئی تو انٹرنیٹ دیکھا جا سکتا ہے ۔

باہر نکلا تو ایک رولز رائس بھی کھڑی تھی جس میں دلہا دلہن آئے تھے ۔ میں اس درجہ کے تمول پر حیران تھا ۔ دوچار چیزیں تو مجھے اچھی لگیں اول تو یہ کہ انٹر کانٹی نینٹل میں شادی کرنے والے جوڑے کو بہر حال یہ استطاعت نصیب تھی کہ خوب لیپا پوتی کرکے اپنے قدرتی چہرے کو ملمع کاری میں دفن کردیتے لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ پشاور میں تو لڑکے بھی آج کل فیشل کرواتے ہیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ دلہن اوردولہا دونوں زیورات اچھی خاصی مقدار میں خرید سکتے تھے لیکن ایسے کسی تکلف سے کام نہیں لیا گیا تھا ۔شاید ایک نیکلس پر ہی اس حسینہ  نازک اندام نے گزارا کر رکھا تھا ۔یہ بات تو ہمیں بعد میں معلوم ہوئی کہ افغانستان (بلکہ کابل کہئے)میں برائڈل گاون کرایہ پر لئے جاتے ہیں ۔ افغان ہوشیار لوگ ہیں جانتے ہیں کہ ایک ہی مرتبہ پہنا جائے گا سو اس لباس پر زیادہ خرچنے کی بجائے عقل سے کام لیتے ہیں ۔یہاں تو ریس لگی رہتی ہے بات لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر بھی تسلی نہیں ہوپاتی ۔اسی طرح رولز رائس گاڑی ہم نے فلموں ہی میں دیکھی ہے کسی شادی میں تو کجا سڑک پر ہمیں ویسے بھی یہاں کبھی نظر نہیں آئی حالانکہ ہم نے بڑے بڑے متمول لوگوں کی شادیاں دیکھی ہیں ۔وہ گاڑی بھی کرایہ پر حاصل کی گئ تھی ۔

اس نظارے سے فارغ ہوئے تو رات صبح کی بانہوں میں بانہیں ڈالتی نظر آئی ۔ اس لئے بادل نخواستہ ہمیں سونا پڑا یا سونے کی اداکاری کرنی پڑی ۔

صبح واپس جانے کی تیاری کرنی تھی سو ایک ایک چیز کو چھان پھٹک کر بار بار دیکھا کہ اس کمرے میں تو اپنی کوئی نشانی چھوڑ کر نہیں جارہے ۔ سارا سامان لپیٹ کر اپنی ہینڈ کیری میں رکھا ۔پھر دوبارہ نکا ل کر چیک کیا کہ ہوٹل کی نشانیاں کہیں ساتھ نہ لے جائیں ۔ ایسی صورت حال میں اکثر و بیشترہمارے ساتھ ڈرامے ہوتے رہتے ہیں ۔ اپنی کسی شے کے چھوڑے جانے کا خوف ایسا سوار ہوتا ہے کہ ہم ہوٹل کی اشیا ءلپیٹ لے جاتے ہیں( ظاہر ہے غیر ارادی طور پر) لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس سامان میں ایسی کوئی بھی شے نہیں تھی جو ہماری ذاتی نہ ہو۔

باہر نکلے تو ڈاکٹر مروت صاحب وزیر اعلیٰ کا پیغام پڑھ کر تشریف لا چکے تھے ان سے پوچھا کہ ہیوادمل صاحب کی گاڑی کب آئے گی ؟کہنے لگے اب تک آجانی چاہئے تھی ایک بج گیا لیکن گاڑی نہیں آئی ۔ ہمارے ٹرسٹ کے ساتھی سید عثمان سنجش ( جنہوں نے ہمیں میکرویان میں اپنے گھر میں شاندارچائے پلائی تھی ) بضدتھے کہ وہ نہیں آئیں گے اور ہم فلائٹ کھو بیٹھیں گے۔ مجھ پر جھنجھلاہٹ طاری ہو چکی تھی، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہوٹل والوں نے ہم مہمانوں سے پچاس ڈالر کے قریب رقم کا تقاضا کر دیا تھا جو مروت صاحب نے ادا کئے اور دوسری بات یہ تھی کہ ہمارے ٹکٹ پر لکھے گئے ٹائم کی طرف گھڑیوں کی دونوں سوئیوں کی رفتار خاصی تیز نظر آرہی تھی ۔ہم نے اس درجے پر شور مچایا کہ مروت صاحب کو ہمارے بلکہ سنجش صاحب کے ساتھ جانا ہی پڑا لیکن ہوٹل کی آخری چیک پوسٹ پر دولتی گاڑی (اس کا مطلب حکومتی گاڑی ہے ) نے ہمیں آلیا ۔

گھڑی دیکھی تو فلائٹ میں پونا گھنٹہ تھا ۔ہمارے ڈرائیور نے کہا کہ بے غم باش ہم نے میدان ہوائی ( ائر پورٹ ) فون کر دیا ہے جہاز آپ کے بغیر نہیں اڑے گا ۔ ہم سمجھے مذاق اڑا رہا ہے، جہاز نے تو اڑ جانا ہے ۔ لیکن ائر پورٹ پہنچے تو جهاز کو موجود پایا ، سوجہاز کے قریب ہی ایک جگہ کھڑے کر دئے گئے دو منٹ میں ہمارے پاسپورٹ خروج کی مہروں سے لتھڑے ہوئے ہمیں تھما دئے گئے اور ایک گاڑی میں جہاز پہنچا دئے گئے کسی نے ہماری تلاشی نہیں لی ۔ عجیب سی بات تھی ،جہاز میں بیٹھے تو ایک خوش پوش بزرگ جنہوں نے جہاز کے عملے جیسا حلیہ بنا رکھا تھا آئے اور کہنے لگے آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم وقت پرپہنچا کریں آپ کی وجہ سے جہاز لیٹ ہو گیا ہے ۔ہم نے ایسے سر ہلایا جیسے روزانہ دو مرتبہ کابل سے پشاور آتے ہیں‘جہاز کی سیٹ سے پشت لگائے ہم یہی سوچ رہے تھے کہ 45منٹ بعد ہم وی وی آئی پیز کی بجائے 17کروڑ لوگوں میں سے ایک بن جائیں گے ۔
ختم شد

کہسار باقی افغان باقی ۹



جناب سلیم راز پشتو عالمی کانفرنس کے چیئرمین ہونے کے علاوہ ایک منجھے ہوئے شاعر ادیب اور ہمارے خطے میں ترقی پسند ادب کی علامت ہیں ۔ پشتو عالمی کانفرنس کا تصور ان کے ذہن کی پیداوار ہے ۔ یہ غالباً اپریل 1986ءکی بات ہے جب کراچی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا گولڈن جوبلی اجلاس ہو رہا تھا اس اجلاس کے اختتام پر نامور ادیب و شاعر جناب فخر زمان اور محترم سلیم راز صاحب نے اسی طرز پر عالمی پشتو اور عالمی پنجابی کانفرنسز برپا کرنے کا عہد کیا ، ان کے ساتھیوں میں اس دور کے مایہ ناز لکھاری فارغ بخاری اور رِضا ہمدانی صاحبان بھی موجود تھے ۔
 
پنجابی عالمی کانفرنس کو انعقاد سے کوئی اس لئے نہیں روک سکا کہ پنجابی زبان کے لئے وسائل کی کوئی کمی نہیں پنجابیوں نے ایک قومی کاز کے تحت اس کانفرنس کے انعقادکے لئے کاوشیں کیں حالانکہ*ضیاع* کا دور تھا ۔ لیکن پنجاب کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس کانفرنس میں شرکت اور چندے بھی دئے -وسائل کی کسی کمی کا ذکر تک نہیں آیااور نومبر 1986ءمیں یہ کانفرنس کامیابی سے تین روز تک جاری رہی ۔

دوسری طرف پشتو عالمی کانفرنس کے انعقاد کی بازگشت سنائی دی لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہوسکا ۔ محترم سید میر مہدی شاہ باچاکی صدارت میں ایک اجلاس العنایات میں منعقد ہوا ۔العنایا ت کرنل عنایت اللہ ایڈووکیٹ مرحوم کا دولت خانہ تھا جو ہر زبان کے ادباءاور شعرا کا ہائیڈ پارک تھا ۔ اس اجلاس میں پشتو کے نامور شعراءاور ادباءبھی شامل تھے اوران سب حاضرین نے متفقہ طور پر محترم سلیم راز صاحب کو کانفرنس کا چیئرمین منتخب کر لیا اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ راز صاحب انجمن ترقی پسند مصنفین کے بھی صوبائی کنوینر تھے اور دوسری بات اور بڑی وجہ یہ تھی کہ اس خیال کے محرک بھی راز صاحب ہی تھے ۔
راز صاحب نے بہتیری کوشش کی کہ سال 1986ءہی میں اس کانفرنس کا انعقاد ہو مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے تاہم اگلے سال اپریل 1987ءمیں انہوں نے یہ انہونی کر دکھائی ۔ تمام تر سازشوں اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ پشاور کے تحصیل گور گٹھڑی ہال میں اس کانفرنس کو منعقد کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں امیر حمزہ خان شنواری مرحوم (جو بابائے غزل کہے جاتے ہیں ) بحیثیت صدر شامل تھے اور اس سے بھی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پختون /افغان قوم کے محسن اعظم فخر افغان باچاخان ؒ بھی شامل تھے ۔ باچاخان ؒ نے اس کانفرنس میں جو تقریر کی تھی وہ ان کی زندگی کی آخری تقریر ثابت ہوئی کیونکہ اس کانفرنس میں بھی انہوں نے شرکت نہایت بیماری کے عالم میں کی تھی اور اس کے بعد وہ اس قدر علیل ہوئے کہ ا ن کو طبی معائنوں کے لئے بیرون ملک لے جانا پڑا ۔
دوسری پشتو عالمی کانفر نس 2000ءمیں ہوئی جس کا افتتاح والد محترم پروفیسر قلندر مومند نے کیا جبکہ پروفیسر پریشان خٹک مہمان خصوصی تھے ۔ اب تیسری عالمی پشتو کانفرنس یہی تھی جس کا ذکر اس سے پچھلے کالم سے جاری ہے ۔ 

ہمیں اس بات کا اندازہ اس سے بھی تھا کہ افغانستان ریجنل سٹڈیز سنیٹر کے ڈائریکٹر جنرل محترم عبدالغفور لیوال نے ایک ریڈیو پروگرام میں خود اس کانفرنس کو پشاور میں ہونے والی دو کانفرنسوں کا تسلسل قرار دے کر تیسری کانفرنس کہا تھا ۔ اب جو اس کانفرنس کا انعقاد ہورہا تھا تو ہمیں معلوم ہوا کہ سلیم راز صاحب نے نہ صرف اس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے بلکہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کابل میں اس کانفرنس سے اپنی برا ت کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ کابل آنے سے قبل اس کانفرنس کے حوالے سے جس طرح کی سرگرمیاں جاری تھیں ان سے ہم یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ کسی بدمزگی کا امکان بہر حال پیدا ہوگا اور ہوا بھی یہی ۔ محترم سلیم راز کا مو قف ہے کہ انہیں اس کانفرنس کے مدعوئین کے ضمن میں اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ جبکہ اس کانفرنس کا انعقاد کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر خوشحال روہی ( جو معروف ادیب صدیق روہی مرحوم کے فرزند ارجمند ہیں ) نے انہی سے ابتدائی گفتگو کی تھی ۔ 


سلیم راز صاحب کا کہنا ہے کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کانفرنس کے انتظامات کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کی سطح پر کمیٹیا ں بنائی جاتیں (ظاہر ہے غیر سرکاری اور وہ بھی ادباءشعرا ءکی ) اور اسے ایجنڈے سے لے کر مدعوئین تک اور انتظامات تک کے حوالے سے ایک انٹرنیشنل افیئر بنانے کی سعی کرنی چاہئے تھی - لیکن افغانستان میں اس کانفرنس کے انتظامات کو کچھ ایسے طریقے سے برتا گیا کہ اس کی بین الاقوامی حیثیت کو اس سے گزند پہنچا ۔ سلیم راز صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس کانفرنس کے مدعوئین کی ایک فہرست افغان دوستوں کو بھجوائی تو انہوں نے کہا کہ یہ فہرست اپنی طوالت کی بنیاد پر قابل ِ قبول نہیں اور صرف پانچ افراد کو مدعو کیا جاسکتا ہے حالانکہ یہ کانفرنس بین الاقوامی تھی اور اس میں ہمارے صوبے کے 24اضلاع اور بلوچستان کے چند ضلعوں سے کل ملا کر 39اہلیانِ قلم شامل تھے ۔

یہ عجیب وغریب سی ہی بات تھی جس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ۔ ہمارے دوست اسداللہ دانش جو شاید ڈاکٹر خوشحا ل روہی یا برادرم عبدالغفور لیوال کی طرف سے رابطہ افسر مقرر کئے گئے تھے ان کے پاس بھی اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا بلکہ وہ تو خود کو اس سارے قضئیے ہی سے لاتعلق قرار دیتے رہے تھے ۔ کابل میں جناب سلیم راز صاحب کی جانب سے اس بائیکاٹ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ۔ لوگو ں نے کوئی بات تو برسرریکارڈ یا آن دی ریکارڈ نہیں کہی لیکن محرم راز لوگوں نے جو کچھ ہم تک پہنچایا اس سے یہی معلوم ہو اکہ راز صاحب کی پریس کانفرنس سے دوست ناراض ہی تھے۔ یہ الگ بات کہ اعلیٰ سطح پر ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ۔

ہمارے ڈاکٹر مروت صاحب نے کانفرنس میں وزیر اعلیٰ امیر حید ر خان ہوتی کا پیغام پڑھا ،انہوں نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی کہ صلح جوئی ان کی فطرت میں شامل ہے وہ آج تک کسی متنازعہ امرکے اریب قریب  نظرہی نہیں آئے ۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انہیں کسی بات پر غصہ ہی نہیں آتا ‘ اگر چہ ہم نے ان کے ساتھ جتنا وقت گزارا ہے اس میں کئی مرتبہ ایسے مقامات آئے ہیں لیکن ان کے خیال میں مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں اس لئے وہ کسی ایسی ویسی بات پر چیں بجبیں بالکل نہیں ہوتے اور اگر کوئی شعوری کوشش بھی کرے تو زیادہ سے زیادہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ۔ لیکن اس معاملے کا کیا کیا جائے کہ عالمی پشتو کانفرنس صرف سلیم راز صاحب کا برین چائلڈ ہی نہیں وہ اس کانفر نس کے چیئرمین بھی ہیں اگر ایسا موقعہ مروت صاحب کی زندگی میں پیش آیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ بھی طیش میں آجائیں
( جاری هے )

Saturday 20 March 2010

کہسار باقی افغان باقی ۸

افغانستان کے بارے میں پاکستان کے میڈیا میں اکثر یہ بات پڑھنے کو ملتی ہے کہ وہاں امریکی اور نیٹو کی افواج کا قبضہ ہے اور یہ کہ نیٹو افواج کی وجہ سے حکومت انتظام کافی حد تک گھٹ چکا ہے ۔ یہ بات اکثر و بیشتر پاکستانی حکومت کے طبقہ اشرافیہ میں موجود افغان گریز حلقوں کی طرف سے میڈیا میں اپنے دوستوں کے ذریعے پھیلائی جاتی ہے ۔ ہمارے صوبے کے گورنر اویس احمد غنی نے آج تک ایسا کوئی موقع نہیں چھوڑا جس میں افغان حکومت اور افغانستان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی بات پھیلائی جا سکتی ہو اور انہوں نے اس کا فائده نہ اٹھا یا ہو ۔

چند ماہ پیشتر انہوں نے پشاور کے تمام صحافیوں اور اخبارات سے وابستہ لوگوں کو ایک ضیافت پر مدعو کیا تھا (یہ الگ بات کہ اسے سنیئر صحافیوں سے ملاقات کا نام دیا تھا) اس ضیافت میں جناب گورنر نے افغانستان کے خلاف کچھ اس شدت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کیا کریں گے ۔ انہوں نے باقاعدہ نام لے کر کہا کہ وہاں سے پاکستان میں مداخلت ہو رہی ہے ۔ انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے مشترکہ سرحدی افغان علاقوں میں سولہ بھارتی قونصل خانوں کا بھی ذکر کیا ۔  “سینئر صحافیوں”  کی بہتات کی وجہ سے ہمیں ان کے خطاب کے دوران تو سوال کا موقعہ نہ مل سکا لیکن کھانے کی میز پر ہم نے ان سے عرض کیا کہ جناب گورنر صاحب آپ ایک عرصے سے ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں (جو ظاہر ہے سفارتی آداب کے منافی ہیں ) لیکن جن شواہد کی بنیادپر آپ یہ سب کچھ ارشاد فرما رہے ہیں وہ اعلیٰ سطح پر دفتر خارجہ کے توسط سے افغان حکام کو کیوں نہیں بتاتے؟ دوسری بات یہ ہے کہ جن سولہ قونصل خانوں کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے کیا ان کے موقعیت کا بھی کوئی ثبوت ہے ۔ سولہ قونصل خانے بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ کسی بھی ملک میں اتنے زیادہ سفارتی دفاتر نہیں ہوا کرتے لیکن شاید جناب گورنر کی اینٹلی جنس کا دارومدار پنجاب سے شائع ہونے والے اخبارات ہی ہیں جن میں اس سلسلے میں مبالغے پر مبنی اعداد و شمار دئے جاتے ہیں ۔ 

نیٹو فورسز نے افغانستان کا کنٹرول اس درجے پر سنبھالا ہوتا کہ وہاں جناب حامد کرزئی کی بجائے جنرل ٹامی فرینک یا جنرل ڈان میک نیل کی بادشاہی ہوتی تو امریکہ کو وہاں انتخابات کے سلسلے میں اس درجہ پر پریشانی کا سامنا نہ ہوتا ۔ بلکہ جس انداز سے پنجابی پریس میں نیٹو کا اثر و نفوذ افغانستان میں دکھایا جا رہا ہے اس لحاظ سے تو نیٹو کے سپاہیوں کو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے لئے ووٹ پول کرنے چاہئے تھے اور اگر ایسا نہ ہوسکتا تو انتخابی نتائج ہی اپنی مرضی کے حاصل کرلئے جاتے لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے ۔ افغانستان میں ہم نے اپنے ہر مرتبہ کے قیام کے دوران کوشش کی ہے کہ امریکیوں کے اثر و نفوذ کو نوٹ کریں لیکن ایسا نہ ہو سکا ۔ 

پہلے یہ بتایا جاتا تھا کہ کابل مکمل طور پر نیٹو کے قبضے میں ہے لیکن کابل کے ہر چوک میں مقامی افغان سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد ہی نظر آتی ہے ۔ بارہا ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ نیٹو کے فوجی ٹرک اور دیگر لاریاں ہمیں راستے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آتی جاتی دکھائی دیں لیکن وہ بھی آتی جاتی ۔۔۔۔راستے میں رکنے کی تاب ان میں ہے ہی نہیں ۔ بہت سارے افغان سرکاری دفاتر دیکھے ،کسی دفتر میں نہ کسی انگریز اور نہ ہی کسی امریکی سے ملاقات ہوئی حالانکہ ہم دل و جان سے چاہتے تھے کہ کہیں کسی سرکاری دفتر میں ہماری ملاقات کسی سنہری بالوں والی امریکی یا برطانوی افسرہ (اپسرا نہیں ) بکار خاص سے ملاقات ہو اور ہم اس سے باہمی دلچسپی کے امور پر اتنی ہی طویل گفتگو کریں جیسی اس قسم کی ملاقاتوں میں ہوا کرتی ہیں ۔ لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہو سکی ۔ 

ارگ( افغان صدارتی محل ) جاتے ہوئے ایک فوجی گاڑی میں نہایت خوبصورت عورت کو وردی ہیلمٹ اور دیگر الم غلم پہنے دیکھا تو کابل میں انگر یز یا سفید پوست مغربی خاتون کو دیکھنے کی آرزو پوری ہوگئی لیکن جب زیادہ غور کیا تو وہ کوئی نوجوان لڑکاہی تھا ۔ نظر کے اس دھوکے نے ہمیں خجل کرنا تھا لیکن شکر ہے کہ کسی سے کچھ کہا نہیں ۔ ہماری واپسی کا وقت قریب آرہا تھا- آٹھ اکتوبر کو ہم نے افغانستان کے معیاری وقت کے مطابق دو بج کر بیس منٹ پر پاکستان کی قومی (قومی ؟)ائر لائن کی پرواز سے واپس جانا تھا ۔ سامان وغیرہ کی پیکنگ کا کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں تھا اس لئے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا سامان نہیں تھا جس کی پیکنگ کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیدا کرتا۔اصل مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے بہت سارے دوستوں نے کابل آنا تھا اور ہم کوشش کررہے تھے کہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکیں ۔ کابل میں آٹھ اور نو اکتوبر کو عالمی پشتو کانفرنس ہونا تھی اور اس کے لئے زیریں پختونخوا کے ادباءاور لکھاریوں کی ایک جمعیت آرہی تھی ۔ 70 سے لے کر 80 نوابغ کا یہ قافلہ اسداللہ دانش کی سربراہی میں سات اکتوبر کو پہنچناتھا اور ہمارے خیال کے مطابق اس قافلے کو دوپہر کے وقت تک کابل پہنچ جانا چاہئے تھا - لیکن تاسف تھا کہ اس قافلے کے لوگوں سے ہماری ملاقات رات کے وقت ہی ہو سکی - وجہ اس کی یہ تھی اس قافلے کی جگہ جگہ آوبھگت ہورہی تھی ۔

قافلے میں بلوچستان کے شعراءاور ادباءبھی شامل تھے - مجھے حیرت تھی کہ ان لوگوں کو تو قندہار کے ذریعے آنا چاہئے تھا لیکن ان ساتھیوں نے بھی شاید رفاقت راہ کی خاطر طورخم کا راستہ چنا تھا ، دوسری بات یہ ہوئی کہ جلال آبا د میں ان کا قیام شیڈول سے زیادہ طویل ہوگیا اور شاید کھانے کے بعد یہ لوگ یا تو آرام کر رہے تھے یا جلال آبا د گھوم رہے تھے - اسی طرح کابل آنے کے فوراً بعد یہ لوگ ہوٹل پہنچنے کی بجائے اس عشائیے پر پہنچے جو ان کے اعزاز میں دیا گیا تھا- اگر یہ حضرات براہ راست کوئی وقت ضائع کئے بغیر کابل آتے تو وقت کی کافی بچت ہو جاتی لیکن جناب اسداللہ دانش کی بات کہ شعرا ءکی تنظیم کوئی سہل کام نہیں - اور یہ ہے بھی حقیقت- شاعروں کے انتظاما ت کی ذمہ داری نبھانا دنیا کے چند مشکل ترین کاموں میں سے ہے ۔ لیکن اسداللہ دانش کی ایک خصوصیت بہر حال یہ ہے کہ وہ شعراءکی نزاکتوں کو جانتے اور بھانپتے ہیں اس لئے اہلیان ِ قلم کی اکثریت انہیں دوست رکھتی ہے اور انہیں دوست رکھنے کا ایک سبب تو یہ بھی ہے کہ وہ ہر درجے اور ہر قسم کے شاعر اور لکھاری کو اپنے رسالے میں شائع کرنے میں کسی قسم کا عار محسوس نہیں کرتے ۔بلکہ اگر شاعر اور لکھاری نہ بھی ہو تو اس کی تحاریر شائع کر کے اسے بھی اس درجے پر فائز کرنے کی کاوشوں میں لگے رہتے ہیں 

شعرائے کرام جب ہوٹل آئے تو ہم اپنے کمرے ہی میں ٹہل رہے تھے کہ ڈاکٹر مروت صاحب نے ان کے آنے کی اطلاع دی ۔ ہم جلدی سے لفٹ میں سوار ہوکر نیچے آئے ۔ ایک جم غفیر تھا جو ہوٹل کے کارڈز ہاتھ میں لئے پُر کرنے کے کار ِ گراں سے نبرد آزما تھا ۔ وہیں ہمیں پتہ لگا کہ ہمارے بزرگوار مشفق و مہربان اور پشتوعالمی کانفرنس کے چیئرمین سلیم راز صاحب احتجاجاً تشریف نہیں لائے( جاری ہے)

کہسار باقی افغان باقی۷

افغان قصر صدارت ارگ میں دوپہر کے کھانے کی اس سادہ اور پروقار تقریب کے میزبان جناب ِ صدر حامد کرزئی نے ہم سب سے بسم اللہ کرنے کو کہا ۔ نفیس افغانی ملبوس میں چند نوجوان نہایت تواضع سے طشتریا ں اور خوان اٹھا اٹھا کر ہمارے سامنے رکھ رہے تھے- کھانا نہایت سادہ تھا ۔ ایک ڈش شلغم کی تھی دوسری چنے کی دال تھی اور تیسری ڈش سادہ چاولوں کی تھی ، سلاد بطور جزو لازم موجود تھا۔ حالانکہ جو کھانا رکھا گیا تھا اس کے ساتھ سلاد کی ضرورت اس لئے نہیں تھی کہ سبزیاں اور دال خود زود ہضم ہوتے ہیں، ان کے ساتھ سلاد ذائقے میں اضافے کے لئے تو کھایا جاسکتا ہے مگر سلاد کا مقصد اعظم گوشت ، قیمے اور اسی نوعیت کی دیر سے ہضم ہونے والی اشیا ءکے جلد ہاضمے میں مدد کا ہوتا ہے ۔

یہ بتانا شاید ہم بھول گئے تھے کہ کھانے کے آغازسے قبل ایک نوجوا ن گرما گرم پکوڑے بھی لے کے آیا تھا ۔ کرزئی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے چھ ورکنگ ایام کو تقسیم دو کر رکھا ہے - یعنی پہلے تین دن گوشت ہوتا ہے اور بعد کے تین دن سبزیاں اور دال وغیرہ ۔ چونکہ ہم ان کے ساتھ کھانا ایک ایسے وقت میں کھا رہے تھے جب کئی دن تک گوشت اور قیمے کی مختلف مصنوعات سے ہم عاجز آچکے تھے اور اس حد تک عاجز تھے کہ کہیں گھاس چر نے کو دل مچل رہا تھا اس لئے جناب ِ صدرکے دولت کدے میں سبزیاں دسترخوان پر دیکھیں تو روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی والی کیفیت تھی ۔ ایک خوشی ہمیں اس بات کی بھی تھی کہ جناب ِ صدر کے دسترخوان پر ہمیں گرما گرما بھاپ اڑاتی روٹی کا سواد لینے سے کوئی نہیں روک سکے گا -

افغانستان میں گرم روٹی کھانے کا رواج نہیں ہے ۔ ہر کھانے کی پیشکش اور ذائقہ اپنا جواب اور مثال نہیں رکھتا لیکن روٹی کے معاملے میں ایسی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آتی ۔ کابل میں تو لوگ زیادہ تر چاول پسند کرتے ہیں اور چاول موجود ہوں تو روٹی خال ہی کسی کی توجہ اپنی جانب کھینچتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آج کہیں کوئی کھانے کا پروگرام ہو تو ایسا لگتا ہے کہ اس پروگرام کے لئے روٹیاں کل سے پکا کر تیار رکھی گئی ہوں- ہم نے کابل انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں اتنے اچھے اچھے کھانوں کے ساتھ ٹھندی روٹیاں کھائی ہیں کہ بتا نہیں سکتے- کھانوں کے ساتھ اس ناانصافی پر ہم دل ہی دل میں کڑھتے رہے- کسی کو کہہ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہاں ہم نے اپنے سوا کسی دوسرے کو روٹی اٹھاتے دیکھا نہیں ، وہی بنگلہ دیش والا حساب تھا، لوگ گوشت کے ساتھ بھی چاول کھاتے تھے اور آلو گوشت کے ساتھ بھی ۔ 

بہر حال جب روٹی دیکھی تو جناب ِ صدر کے دسترخوان پر بھی صورت ِ حال کچھ ایسی ہی تھی ۔ شاید جناب ِ صدر نے ہمارے چہرے کے تاثرات دیکھ یا پڑھ لئے نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ اپنے سامنے پڑی روٹی کی چنگیر اٹھائی اور ہمارے سامنے پکڑ لی - اس اچانک تواضع اور محبت پر سٹپٹا گئے ۔ تاہم خود کو سنبھالا اور ایک ٹکڑا نان کا اٹھا لیا۔ یہاں پر ہمیں پھر اس ملاقات کا حوالہ یاد آیا جو افغان صدر کے سابق پاکستانی ہم منصب سے ہوئی تھی اور جس میں انہوں نے کہاتھا کہ تھوڑے لوگ ہیں تو ہینڈ شیک کرلیتے ہیں ۔ 

کھانے کے دوران جناب صدر کی دل موہ لینے والی گفتگو جاری رہی ۔ انہوں نے پاکستان میں رہنے والے پختونوں کے بارے میں نہایت نیک جذبات اور خواہشات کا اظہار کیا ۔ پاکستان سے تعلقات کے بارے میں انہوں نے ہماری رائے بھی پوچھی اور ہم نے انہیں وہی رائے دی جو کسی بھی پختون کو ایسے سوال پر دینی چاہئے ۔ ہیواد مل صاحب بھی گفتگو میں شریک تھے ایک موقع پر ایک جگہ کسی کے تقرر کی با ت ہوئی توجناب ِ صدر نے ہیواد مل صاحب سے کہا کہ مجھے امیر کروڑ کے عہد کا کوئی عہدیدار نہیں چاہئے ، کوئی ایسا آدمی ہو جو نئے دور کے تقاضوں اور ضرورتوں سے اچھی طرح آگاہ ہو ۔امیر کروڑ پٹہ خزانہ (علامہ عبدالحئی حبیبی کی دریافت جو محمد ہوتک سے منسوب ہے )کے مطابق پشتو کے پہلے شاعر ہو گزرے ہیں ۔ قدامت کی اس تشبیہہ پر محفل زعفران زار بن گئی ۔ اس دوران جناب کرزئی نے کسی دوسرے شخص کا حوالہ دے کر کہا کہ ہیواد مل صاحب پہلے بھی ایسے ہی کسی شخص کو لائے تھے جو  کسی عہد عتیق کا تھا لیکن ہیواد مل صاحب نے نہایت تواتر سے جناب ِ صدر کی بات کے دوران ہی اس کی تردید کرنا شروع کر دی ۔ پاکستان ہوتا تو ہیواد مل صاحب کبھی کے اپنے عہدے سے فارغ ہوچکے ہوتے لیکن افغانستان کا قصر صدارت اس درجہ پر جمہوری ہے کہ ایک مشیر بر سرمحفل ایک صدر کی بات کاٹ کر تردید کر سکتا ہے اور مسلسل کر سکتا ہے  اور جناب صدر کی پیشانی پر کوئی شکن برامد نہیں ہوتی ۔ 

اس دوران ہمارے ذہن میں یہی بات بار بار گھومتی رہی کہ پاکستان میں میڈیا کے لوگ صدر کرزئی کو امریکی ایجنٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ایسا تاثر دے رہے تھے کہ یہ خیال تھا کہ الیکشن جیتنے پر صدر بارک اوباما مبارکباد دینے خود آئیں گے ۔ حال یہ ہے کہ امریکہ اس وقت افغانستان کے صدارتی انتخابات کا سب سے برا ناقد بن کر سامنے آیا ہے روزانہ اخبارات میں افغانستان کے انتخابات کے حوالے سے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور امریکہ کے بیانات ایک دوسرے پر سبقت لاتے لے جاتے نظر آتے ہیں- اب تو یہ بھی سنا ہے کہ امریکہ نے نومبر میں افغان انتخابات دوبارہ کرانے کی ایک تاریخ دی ہے ۔ 

امریکہ کے زور آور اور زبردست ہونے کو کسی دلیل کی حاجت نہیں- وہاں اتنے تھنک ٹینکس ہیں کہ لگتا ہے کہ دنیا جہان کے غور اور فکر کا کام وہیں ہوتا ہے- ان لوگوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہو پارہا کہ کسی بھی ملک میں عوامی رائے کسی بیرونی طاقت کے کہنے پر تبدیل نہیں ہوا کرتی اور بالخصوص امریکہ اگر جنوبی ایشیاءمیں کہیں کوئی اچھی بات بھی کرے تو اسے قبولیت نہیں ملتی ۔ افغان الیکشن پر جس طرح کے اعتراضات امریکہ کی طرف سے ہورہے ہیں وہ ہمارے خیال میں مثبت ہی ثابت ہوں گے ۔ ایک تو ان لوگوں کا منہ بند ہوگیا ہے جو صدر کرزئی کے لئے امریکی ایجنٹ کے سوا کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کر تے دوسرا مثبت اثر یہ متوقع ہے کہ اس سے افغان قوم پرستی کو ایک نیا رخ مل سکتاہے ۔ افغان انتخابات ایسے افغانستان کے اندرونی معاملے میں مداخلت کرنے پر بضد اوباما انتظامیہ کے دانشور یہ بھی بھول چکے ہیں کہ اس عمل سے ان کی “دہشت گردی کیخلاف جنگ کس قدر متاثر ہو سکتی ہے اور خود افغانستان سے امریکی تعلقات کتنے بگڑ سکتے ہیں ۔ جناب کرزئی کی 2002ءمیں بطور افغان صدر تقرری ان کے پختون ہونے کی دلیل بھی رکھتی تھی لیکن اب وہ دلیل بھی امریکہ والے بھول گئے ہیں ۔ نجانے اس حوالے سے ان کی عقل و دانش کو کیا ہو گیا ہے ؟
 
کھانے کی یہ مجلس جو ایک ورکنگ لنچ میں ڈھل گئی تھی، ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی ۔ وہاں سے نہایت گرمجوشی سے رخصت کئے گئے اور ہم ایک مزید اچھی یاد لے کر ہوٹل واپس آگئے 

( جاری ہے)