حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Monday 15 March 2010

کہسا ر باقی افغان باقی ۲

کابل ائر پورٹ پر ہمارا ا ستقبال وزارت امور خارجہ کے نوجوان اور مستعد اہلکار اجمل جان نے کیا ۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ صبح سے ہی ہماری آمد کے منتظر تھے ۔یہ الگ بات کہ ان کے وزیر خارجہ جناب رنگین داد فر سپانتا اور سیمینار کے داعی داود مرادیان صاحب(جو سڑیٹیجک سٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر جنرل ہیں ) دونوں اس وقت افغانستان میں موجود نہیں تھے ۔ 

ائر پورٹ سے باغ بالا کے قریب واقع کابل انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل جانے کا راستہ کافی دلچسپ اور سبق آموز اس حوالے سے ثابت ہو ا کہ ایک تو یہ معلوم ہو ا کہ پورے کابل کی سڑکوں کو ادھیڑ دیا گیا تھا اور ان کی تعمیر نو کا کام تیزی سے جاری تھا ۔ دوسری بات یہ تھی کہ ایک بے ہنگم و پُر ہنگم قسم کا رش تھا اور کھوے سے کھوا چھلکنے کا وہی سماں تھا جو پشاور میں ایم ایم اے دو ر کی یاد گار ہے ، لیکن جس صبر و استقلال کے مظاہرے دیکھنے میں آئے وہ قابل تقلید تھے-

ایسا لگتا تھا جیسے کابل کے باشندوں نے محترم افراسیاب خٹک کی یہ بات پلے سے باندھ لی ہے کہ “ افغانوں نے اپنے حصے کی تما م جنگیں لڑ لی ہیں اب چاہئے یہ کہ آئندہ کئی سو سال تک افغان عوام کسے تنازعے یا مناقشے کا حصہ نہ بنیں” َ۔ ایک موقعہ پر ہماری گاڑی ایک دوسری گاڑی پر چڑھ دوڑنے سے کچھ ہی قاصر رہ گئی تھی لیکن ہماری گاڑی کے ڈرائیور کی پیشانی پر عرق انفعال دیکھ کر دوسری گاڑی والے صاحب نے کہا خیر باشد خیر باشد اور چل دئے ، ایسا طرز عمل درحقیقت ہماری لغت میں نادر ہی تھا ۔ جس کی تعریف کئے بنا ہم نہ رہ سکے ۔ 

گاڑی ہوٹل میں داخل ہوئی تو اس کی تلاشی وغیرہ لینے کے بعد ہمیں اندر جانے کی اجازت ملی اور ایسا ہماری سلامتی کے لئے کیا گیا تھا ۔ دربانوں نے خالص افغانی روایات کے تحت سینے پر ہاتھ رکھ کر عجز و خیر مقدم کے اشارے دئے جواباً ہم نے بھی سینے پر ہی ہاتھ رکھ کر خیر سگالی کا اظہار کیا ۔ ضروری اندراج سے فارغ ہوئے تو معلوم ہوا کہ افراسیاب خٹک صاحب لابی ہی میں موجود ہیں ان سے ملاقات ہوئی اور سیاسی و قومی امور کے حوالے سے جو گتھیاں نہیں سلجھ رہی تھیں ان کا موقف ان سے پایا ۔

ہمارے ساتھی اور کابل میں باچاخان ؒ ٹرسٹ کے نگران سید عثمان سنجش بھی پہنچ چکے تھے ۔ لونگین ولی خان کا اصرار تھا کہ انہیں کابل دیکھنا ہے لیکن تھکاوٹ اور نیندکا فطری اتحاد اس خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن گیا ۔ہم نے سنجش صاحب سے گزار ش کی کہ وہ عصر اور مغرب کے درمیان تشریف لائیں تو ان کی معیت میں ہم لونگین ولی خان کی خواہش پوری کر دیں گے ۔ ہمارے رفیق سفر بلکہ امیر قافلہ ڈاکٹر فضل الرحیم مروت صاحب اور میں کابل کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں اس لئے اس جوش سے ہم عاری تھے ۔ 

مغرب کے قریب جب سنجش صاحب آئے تو ہم ان کی گاڑی میں بیٹھ کر شہر کے قلب میں واقع سٹی سینٹر جا پہنچے ۔ سٹی سینٹر کیا تھا طرز تعمیر کا ایک شاہکار تھا۔ کابل کے وسط میں اس نئی دریافت کو ہم نے کافی حیرت و مسرت سے نوٹ کیا ۔ سٹی سینٹر کے اندر گئے تو صفائی کا انتظام اس سے بھی اعلیٰ تھا ۔ نجانے کس ملک کے سفید سنگ سے تراشا گیا ایک پیکر تھا جس میں یورپ کی نزاکت اور افغانی ہیبت و استحکام کو اس درجہ پر باہم جوڑ دیا گیا تھا کہ الفاظ سے وضاحت نہیں ہو سکتی ۔ شیشہ کاری اور چھوٹی چھوٹی لفٹوں نے اس پیکر حسن تعمیر کو چار چاند لگا دئے تھے ۔ 

وہاں مختلف قسم کی اشیائے ضروریہ کی دکانیں تھیں ۔ مثلاً زیورات اور پاپوش و پارچہ جات اور سامان ہائے آرائش و زیبائش وافر تعداد و مقدار میں موجود تھے ۔ سٹی سینٹر کے بالائی حصے میں رہائشی منزل تھی ۔ ہمیں سمجھ نہ آسکی کہ اس منزل پر فلیٹس ہیں یا کمرے لیکن بہر حال وہاں رہائش ضرور تھی ۔ اس سٹی سینٹر میں فروخت کے لئے رکھی گئ اشیاءکی قیمتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ کابل میں عمومی تمول کا عالم کیا ہے، جو ہمارے لئے ایک مزید حیرت برپا کرنے کا باعث ہو ا ۔

ایک دکان میں موجود بوٹ دیکھا تو بہت پسند آیا(اپنے لئے نہیں کہ ہم چارسدہ کی چپلی کے سوا کوئی پاپوش پہننے کے روادار ہی نہیں، اسی طرح جیسے ہم بریانی وغیرہ کھانے سے ثقافتی طور پر الرجک ہیں ) لونگین خان کی طرف بڑھاتے ہوئے اس پر قیمت کی پرچی دیکھی تو 24570کے اعداد نظر آئے ۔ ہم سمجھے کہ کوئی سیریل نمبر ہوگا لیکن دکان دار صاحب نے بتایا کہ یہ سیریل نمبر نہیں بلکہ اس کی قیمت ہے ۔ پاکستانی کرنسی کے مطابق اس کی قیمت شاید اڑتالیس ہزار کے لگ بھگ بنتی ہوگی کیونکہ ایک ہزار پاکستانی روپے سے آج کل صرف ساڑھے پانچ سو افغانی بنتی ہیں اور وہ زمانہ اب نہیں رہا جب بارہ چاولوں اور تین روپے کی ایک سینکڑہ افغانی ملا کرتی تھیں ۔ اس نصف لاکھ کے جوتے کو ہم نے تمام تر احترا م کے ساتھ ایک طرف رکھ دیا اور طبقاتی نظام کے سارے درس یاد کر کے اپنی پرولتاریت کی دولت سے تمتماتے ہوئے اس دکان سے باہر نکل آئے ۔ کابل میں شاید اب اتنا مہنگا جوتا پہنا جا سکتا ہو مگر ہمارا مزاج اور ہمارا حال اس جوتے سے کم تر ہی تھا۔ 

باہر نکلے تو سید عثمان سنجش صاحب نے انکشاف کیا کہ اس سٹی سینٹر کی تہہ یعنی بیسمنٹ میں ایک اعلیٰ درجے کا ریستوران ہے ۔ جوتے کی قیمت نے ہماری طبیعت میں تکدر کے عناصر اس درجہ پر برپا کر دئے تھے کہ نہایت ڈرتے ڈرتے ریستوران پہنچے اور وہاں بھی ہمارا اصرار یہ رہا کہ اپنے ہوٹل واپس چلتے ہیں ۔ لیکن سنجش صاحب اور ان سے زیادہ لونگین ولی خان یہ بات ماننے پر راضی نہیں تھے ۔ انہوں نے جوس اور دیگر اشیا ءکے آرڈر دئے تو ہمارے خوف نے ہم سے کہلوا ہی دیا کہ صاحب ہم جوس وغیر ہ ویسے بھی نہیں پیتے ، اگر ایک پیالی چائے کی مل جائے تو شاید طبیعت بشاش ہو جائے ۔ اندیشہ یہی تھا کہ یہ نہ ہو کہ جو جمع جتھا ساتھ لائے ہیں وہ کہیں سٹی سینٹر کے ریستوران ہی کو دان نہ کردیں ۔ ہمارے رفیق بزرگ ڈاکٹر مروت صاحب نے بھی بہتیرا سمجھایا کہ جوس صحیح رہے گا کیونکہ ان کے خیال میں چائے پینے سے صحت خراب ہوتی ہے اب انہیں کیا بتاتے کہ جوس پینے سے ہم چاروں میں سے کسی کی بھی معاشی صحت برباد ہو سکتی تھی ۔ بہر حال جو چائے ہم نے وہاں پی اس میں پستہ و بادام کی شمولیت کے باعث ہمارا ماتھا مسلسل ٹھنک رہا تھا مگر خیریت پیش آئی اور بل کا ہمیں پتہ ہی نہ لگ سکا کہ وہ قرعہ جناب سنجش صاحب نے اپنے نام کا اپنی مرضی سے خود ہی نکال لیا تھا اور ہم مارے شرم کے ان سے یہ بھی نہ پوچھ سکے کہ جوتے اور جوس کی قیمت کا باہمی فرق کتنا تھا ؟
(جاری هے)

No comments:

Post a Comment