حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Sunday 4 January 2015

ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما!



پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ’’سل دِ ومرہ یو دِ مۂ مرہ‘‘ ۔ترجمہ اس کا کچھ ایسابنے گاکہ بھلے سو لوگ تمہارے مر جائیں لیکن ایک ایسا ہو جسے کبھی موت نہ آئے ۔اور وہ ایساایک وہی ہوتا ہے جس کی موت سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہوتا ۔اس کی کمی کا احساس ہر وقت غالب ہی رہتا ہے اور ایسا آدمی اگر پوری قوم کے لئے نا گزیر ہو تو صدمے کی شدت برقرار رہتی ہے اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔کاکاجی صنوبر حسین مومند ؒ بھی ایسے ہی ایک زعیم قوم تھے جن کی موت تین جنوری 2014ء کو بھی تین جنوری 1963ء جتنی شدت کی حامل ہے ۔1897ء میں کوہاٹ روڈ پر واقع گاؤں کگہ ولہ میں جنم لینے والی اس شخصیت نے نہ صرف غیر منقسم ہندوستان کے سیاسی اُفق کے پختون حصے پر چمکنا تھا بلکہ پشتو ادب پر بھی گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑنے تھے ۔غلام ہندوستان میں کسی نفسیاتی کجی کا شکار ہونے کی بجائے ان کے اندر کا مردِآزاد ہمیشہ سے ان بندھنوں کو پاش پاش کرنے پر آمادہ تھا جس میں پورا ہندوستان بلا تخصیص رنگ و مذہب جکڑا ہوا تھا۔یہی وجہ تھی کہ میٹرک کرنے کے بعد جب درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ ایک کلاس کی تربیت کسی مجموعی قومی بہتری کی بنیاد نہیں رکھ سکتی اور لازم ہے کہ ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کر کے غلامی سے نجات کی عملی جد وجہد بڑے پیمانے پرآغاز کی جائے ۔چنانچہ اس وقت کی روایت کے عین مطابق خدائی خدمت گار تحریک سے وابستہ ہوئے اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے اُٹھنے والے آزادی کے نعرے کو اپنی زبان دے دی اور حریت کے عَلم کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔جلد ہی وہ دو حقائق کو اچھی طرح سمجھ گئے اولاًیہ کہ کانگریس کی جدوجہد میں پختونیت کا تصور نہیں اور دوسری بات یہ کہ جس طرح کا طرزِ سیاست کانگریس نے اپنا رکھا ہے وہ بلاضرورت دنوں کی جدوجہد و مبارزے کو برسوں میں تبدیل کر رہی ہے ۔اُدھر ان کے قریبی دوست صاحبزادہ اسلم شہید ؒ بھی اس قسم کی جد و جہد کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے اور کاکاجی پر بہر حال اسلم شہید کا اثر کافی تھا۔اس زمانے میں اشتراکیت کا بول بالا تھا کچھ اس دور کی مجبوریاں بھی تھیں ‘برطانوی سامراج اگر بین الاقوامی طور پر کسی خوف کا شکار تھا تو اس خوف کا نام یو ایس ایس آر تھا اور وہاں رائج نظام کی ہندوستان میں مقبولیت کا ایک سبب اس کے پُر کشش ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ برطانیہ کا احساسِ تفاخر مٹی میں ملانے کے لئے انہی وجوہات کی بنیاد پر یہاں کے دانشور سویت روس کی طرف دیکھتے تھے ۔دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ ہمارے قوم پرست بھی اشتراکیت سے اس درجے پر متاثر ہوئے کہ یہاں ان کی کاوشوں سے کمیونسٹ تنظیمیں بن گئیں حالانکہ اشتراکیت کے آباء قوم پرستی کو بورژوائیت کی آخری پناہ گاہ قرار دیتے تھے ۔کاکاجی بھی نوجوان بھارت سبھا اور انجمن نوجوانانِ سرحد کے روح رواں بن گئے ۔مفتئ سرحد مولانا عبد الرحیم پوپل زئی کے ساتھ ایک نیا سیاسی سفر شروع کیا۔اس جدوجہد کو وہ تیزی بخشی کہ انگریز حکومت آپ کی جان کے درپے ہو گئی گرفتاری کی کوششیں اور سازشیں عروج پر پہنچیں تو کاکاجی کو مجبوراًآزاد قبائلی علاقے میں آنا پڑا۔غازی آباد لکڑو باجوڑ میں مردِ حریت حاجی صاحب ترنگ زئی ؒ کی تحریک کے دست و بازو بن گئے ۔یہیں پر آپ کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ اپنے مشفق و مہربا ن دوست صاحبزادہ اسلم کی شہادت کی صورت میں جھیلنا پڑا جنہیں انگریزوں کے اجرتی قاتلوں نے سوال قلعہ میں شہید کیا۔یہ وہی اسلم شہید تھے جن کی یا دمیں قیامِ پاکستان کے بعد کاکاجی نے ’’اسلم ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا اور وہ ایسا رسالہ تھا جو صرف سیاسی نہ تھا بلکہ ترقی پسند ادب کا علمبردار و ترجمان بھی تھا۔اور اس میں اس رسالے کی جھلک بھی تھی جو کاکاجی نے شعلہ کے نام سے اپنے ایام جلاوطنی میں باجوڑ سے جاری کیا تھا اور جو دستی پریس کے ذریعے بھی اچھی خاصی بڑی اشاعت رکھتا تھاتاہم اس کی شعلہ خوئی سرکار کو ہضم نہ ہوسکی اور اس پرپابندی لگا دی گئی ۔کاکاجی صنوبر حسین مومند ایک بے بدل مترجم ‘ادیب اور شاعر تو تھے ہی لیکن ان کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے ادیب سازی کا فریضہ مشنری بنیادوں پر انجام دیا۔پشتو ادب کی پہلی تنظیم اولسی ادبی جرگہ میں آپ کی حیثیت ایک ایسے ستون کی تھی کہ جس پر صرف اس تنظیم ہی کا تکیہ نہ تھا بلکہ تمام ادیبوں اور شاعروں کا بھی وہ سہار ا تھا۔یہ جو آپ کو آج تنقیدی ادب پڑھنے کو مل رہا ہے یا تنقید کی بھٹی سے نکل کر کندن ادب موجود ہے یہ اس زبان پر اولسی ادبی جرگہ ہی کا احسان ہے۔کاکاجی انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے صدر بھی رہے اور اس حیثیت میں گرفتار بھی ہوئے ۔عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ کیا‘حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ‘کی سوانح لکھی‘ایرانی شاعر لاہوتی کی روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے والی نظموں کو پشتو میں متعارف کرایا‘حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے افکار پر کام کیا ۔اسلم شہید پر بھی ایک کتاب لکھی ‘غرضیکہ زبان و ادب کی ترقی کے لئے اپنی استعداد کا بھرپور استعمال کیا۔تقسیم ہند کے بعد اگرچہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے مگر سی آئی ڈی اور دیگر مضر ایجنسیوں کی کتابوں میں آپ کا نام ’’مشکوک افراد‘‘ کی فہرست میں رہا ۔اس زمانے میں ترقی پسندی ویسے بھی نظریۂ پاکستان کے خلاف کوئی شے سمجھی جاتی تھی اور بالخصوص جب کوئی پختون اس پاگل پن کا شکار ہو تو اس کے لئے تو مملکت خداداد میں کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی ، چنانچہ پھر گرفتار ہوئے شاہی قلعے کے بدنامِ زمانہ عقوبت خانے میں شدائد کا نشانہ بنائے گئے ‘پیرانہ سالی اس ظلم و ستم کے سامنے ٹھہر نہ سکی اور وہ دیا جسے پور ی برطانوی مشینری بجھانے میں ناکام رہی پاکستانی حکومت کے ’’ہنر مند وں ‘‘ کے ہاتھ سے اپنے انجام کو پہنچی ۔ان پر انقلابی و ترقی پسندانہ خیالات کی ترویج کے الزام میں وہ تشدد ہوا کہ انہیں دمہ لا حق ہو گیا‘ظلم کی انتہا یہ تھی کہ انہیں علاج کی سہولت بھی نہیں دی گئی اور تقریباً عالمِ نزع میں انہیں ریاست کے ظلم و تعدی سے رہائی ملی اور قید سے کیا رہائی ملی یہ زعیمِ قوم رہائی کے کچھ عرصہ بعد زندگی کی قید ہی سے آزاد ہو گئے ۔لیکن پختون سیاست اور پشتو ادب کے لئے ان کی خدمات اس بنیاد پر اب بھی صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہیں کہ آج بھی ان کے فیض یافتہ ان دو میدانوں میں ان کی فکر کے چراغ جلائے بیٹھے ہیں ۔
پس نوشت :اس موقعہ پر انور خان دیوانہ مرحوم کو یاد نہ کرنا ناانصافی ہو گی ‘جنہوں نے کاکاجی کی کتب ‘تذکرہ اور دیگر کام کو منظر عام پر لانے کی ایسی کوششیں کی کہ شاید ہی کسی نے کی ہوں بلکہ انہوں نے ان لوگوں کو بھی کاکاجی یاد دلایا جو اس مردِ بزرگ کو فراموش کر چکے تھے ۔

Wednesday 24 September 2014

ذاتی نوحہ



سانحوں کی شدت، گہرائی یا اس کے نتیجے میں جنم لینے والے غم و الم کا کوئی پیمانہ مقرر ہی نہیں ، اسے فطرت کی انصاف پسندی کا نام دیجئے یا بجائے خود غم والم کی شدت کی منہ زوری ، غم ہر انسان پر الگ رنگ میں اثر انداز ہوتا ہے ،رقت بھی ایک عجیب شے ہے اس کے طاری ہونے پر اگر کوئی ہمدرد کاندھا نصیب نہ ہو تو نہ رونے سے تسلی ہوتی ہے اور نہ ایسی کوئی رقت اندمال غم کا باعث بنتی ہے ، جس غم کے باعث رقت فطری ہوتی ہے اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ یا تو رقت کو سمجھنے والے ہوں یا غم کو ، ورنہ ایسی کوئی بھی حالت ایک مشق ہی رہتی ہے ۔ ہمارے مرشدومحبوب جون ایلیا نے اسی عالم کرب میں کافی شدت سے استفسار کیا تھا 

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا 
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا ؟

واقعی اس سوال کا جواب ہاں کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں ، یہ چند سطریں دراصل اسی حقیقت کی بنیاد پر لکھی جارہی ہیں ، محترم رِضا ہمدانی مرحوم نے کہا تھا کہ 

وہ آنسو جو بہہ نہیں سکتے 
دل پر جا کر جم جاتے ہیں 

سو یہ وہی آنسو ہیں جنہیں پونچھنے والا کوئی نہیں تھا ، اور جو گزشتہ پندرھواڑے سے دل پر جا کر جم چکے ہیں ،محترم رِضا ہمدانی نے یہ نہیں کہا تھا کہ دل پر جمنے والے آنسو کیا قیامت ڈھاتے ہیں اور غم کی شدت کو کس درجہ پر لے جاتے ہیں لیکن اس کا اندازہ محولہ بالا حالات کا مارا کوئی بھی کر سکتا ہے سو اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا ، دلی صدمات کے عدم اظہار نے جو جو ناقابل تلافی نقصانات ہمیں پہنچائے ہیں ، اس میں مزید اضافہ امکانات کی فہرست سے خارج ہوچکا ہے ۔ آپ کی مرضی ہے ان سطروں کو کوئی بھی نام دیدیں ، لیکن فی الاصل یہ ایک ذاتی نوحہ ہے ۔

11ستمبر کی شام کو ایک ایسا ہی واقعہ ہوا،سخاوت علی سخی جو ایس اے سخی کے نام سے معروف تھے نہایت خاموشی سے چل دئے ، وہ کب پیدا ہوئے ، ان کی زندگی کیسی گزری ، انہوں نے کیا کیا ملازمتیں کیں ، کن کن لوگوں سے تعلق رکھا ، یہ سب میرے موضوعات نہیں ، میرا موضوع صرف یہ ہے کہ میں اپنے غم کا اظہار کروں اور لفظوں کے ذریعے اشک بہاؤں اور انہیں یاد کروں ۔ 

پشاور سے شائع ہونے والے روزنامہ آج میں ادارت کے فرائض میرے ذمے تھے ، سخی صاحب روزنامہ آج میں دو موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے تھے ، ایک اصلاح اردو اور دوسرا ہاکی کے اسرار و رموز و تاریخ ۔ ان سے میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن اخبار کے مالک جناب عبدالواحد یوسفی صاحب کی وساطت سے ان کی تحاریر پہنچتی رہتی تھیں ، ایک مرتبہ ایک صاحب آئے جن کے کلی طور پر سفید بال سلیقے سے سنورے ہوئے تھے ،قد درمیانہ ،آسمانی شلوارقمیص پر نیلا کوٹ ، چال و آواز بالکل لڑکوں جیسی ،طرفہ یہ کہ ایک دلنواز مسکراہٹ کلین شیو چہرے پر سجی ہوئی ، ان کی عمر کا اندازہ نہیں لگا سکا ، آتے ساتھ ہی انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور کہنے لگے ، سخی !! میں نے پوچھا ایس اے سخی ؟ایک قہقہه  لگا کر بولے ہاں بس ایسے سخی !! اور ساتھ ہی کاغذوں کا انبار میری میز پر رکھ دیا ، میں نے کاغذات پر ایک سرسری نظر دوڑائی تو سخت مایوسی ہوئی ، اس قدر بدنویسی کا مظاہر ہ زندگی میں نہیں دیکھا تھا ، میں نے کہا سخی صاحب یہ اتنی گندی لکھائی کس کی ہے ؟اپنی طرف اشارہ کرکے کہا اس اچھے انسان کی ، میں نے کہا سخی صاحب اتنی گندی اور ’’ان پڑھ‘‘ لکھائی کو ٹائپ کون کرے گا؟کہنے لگے اسی لئے تو میں آیا ہوں ، آپ لوگ اتنی غلطیاں ٹائپنگ کی کر دیتے ہیں کہ کالم کا ستیا ناس ہو جاتا ہے ، اب ایک کمپیوٹر آپریٹر میرے حوالے کردیں ، میں خود اس کے ساتھ بیٹھوں گا اس کی مدد کروں گا اور پروف بھی خود پڑھوں گا۔مجھے یہ بات معقول معلوم ہوئی ۔ سخی صاحب مضمون فائنل کرکے رخصت ہوگئے ، 2003تک ہماری زندگی کا محور و مرکز ایک ہستی تھی اور ہماری زندگی کے بس دو ہی کام تھے دفتر جانا یا ان کی خدمت میں حاضر رہنا ۔یعنی ہمارے والد۔ چنانچہ اس دن جب واپسی ہوئی تو یہ سارا ماجرا انہیں سنا یا۔ انہوں نے ایک انتباہی بیان جاری کیا اور بولے یہ سخی صرف لکھاری نہیں ، بلکہ میرا کلاس فیلو بھی رہ چکا ہے ، اور اس سے میرا نہایت ہی خصوصی تعلق تھا، اس کے بھائی ملک راحت علی خان انجام اور مشرق میں میرے ساتھی تھے ، اس سے نہایت احترام سے ملا کرو اور جب بھی آئے چائے یا قہوے کے بغیر اسے جانے نہیں دینا، سخت حیرت ہوئی ،میں نے کہا کہ وہ تو آپ سے عمر میں کافی کم لگتے ہیں ، بولے وہ شروع سے ہی ایسا ہے ، ہاکی کا بہت بڑا کھلاڑی بلکہ استاد ہے اس لئے فٹ ہے ، اور ہمارا بیڑا جیلوں اور ٹارچر سیلوں نے غرق کررکھا ہے ۔ 

ہمارے والد کی ذات ہمارے لئے محوری و مرکزی اہمیت رکھتی تھی اس لئے ان کے دوستوں کے لئے بھی ہمارے دل میں احترام فطری تھا۔ اگلی مرتبہ وہ آئے تو میں نے انہیں یہ ساری بات بتائی ، وہ کہنے لگے کہ مجھے پتہ تھا لیکن میں چاہتا تھا کہ قلندر خود تمہیں کہے ، سخی صاحب ہفتے میں تین چار بار آتے تھے ، ان سے تعلق کی نوعیت رفتہ رفتہ تبدیل ہونے لگی ، پہلے وہ ایک کالم نگار تھے ، پھر وہ میرے والد کے خاص دوست اور رفیق کار کے بھائی نکلے لیکن چند ماہ میں ہی وہ میرے دوست بن گئے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ سخی صاحب نے ماہ و سال کے حساب سے عمر کے تعین کے سارے فلسفوں کو شکست دے رکھی تھی ، خاص پشاور کے تعلق اور مادری زبان اردو ہونے کی وجہ سے مجلسی معطر ساز تھے ، اخبار کے نائب قاصد سے لے کر اخبار کے مالک تک ہر فرد کے ساتھ گھل مل کر ایسی فضا باندھنے کے ماہر تھے کہ ان کی قوت قلبی ( دَ زڑھ زور) کی داد دینی پڑتی تھی ، سخی صاحب کی کوئی اولاد نہیں تھی ، لیکن سچائی یہی ہے کہ وہ خود آخری عمر تک اپنی ہر عادت میں لڑکوں سے بڑھ کر لڑکے تھے ۔ جب مجلسی عطر سازی پر اتر آتے تو کوئی ان کی ٹکر کا نہیں ہوتا تھا۔ 

اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت ہی سریلی آواز بخشی تھی ، سہگل ، مناڈے اور کشور وٖغیرہ کے گائے ہوئے گیت ایسے گاتے تھے کہ داد دینی پڑتی تھی ، عمر کے آخری حصے میں باقاعدگی سے نوحوں اور مرثیوں سے سوز وگداز برپا کرنے کا وظیفہ اپنا لیا تھا، خود بھی نوحے و مرثیے لکھتے تھے ، ان کے اہل خانہ کے پاس شاید ریکارڈ ہو، روزنامہ آج کے دفتر میں جب نوحہ یا مرثیہ پڑھتے تھے تو رقت نچھاور کردیتے تھے ، 2004میں اسلام آباد سے اے وی ٹی خیبر شروع ہوا تو میں پشاور چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہوا، اسی دوران سخی صاحب اور روزنامہ آج کے درمیان اختلافات شروع ہوئے ، پھر انہوں نے روزنامہ آج سے رشتہ توڑ دیا، میں نے سخی صاحب سے پوچھا کہ وجہ کیا تھی ، بولے میں تمہیں نوحے سناتا تھا اور تم روتے تھے بس یہی وجہ تھی ، تم چلے گئے تو مجھے بھی جانا تھا، حالانکہ وجہ یہ نہیں تھی ، سخی صاحب نے ایکسپریس اور مشرق میں بھی لکھا لیکن وہاں نہ کوئی لاڈ اٹھانے والا تھا اور نہ سخی صاحب کے ساتھ مجلس کرنے والوں میں سے کوئی تھا، سو انہیں بادل نخواستہ یہ شوق ختم پڑا، لیکن وہ مسلسل لکھتے رہے ، ایک زمانے میں عارضی طورپر حیات آباد منتقل ہوئے تو میں ان کے گھر گیا ، ایک پلنگ کے نیچے دو بوریاں دکھائیں ، بولے میں اب بھی لکھتا ہوں اور سب کچھ ان بوریوں میں بند کردیتاہوں۔

سخی صاحب ایک اچھے لکھاری تھے ، ان کے خاص موضوعات وہ عام غلطیاں ہوتی تھیں جو ہم زبان کے حوالے سے روزمرہ بنیادوں پر کرتے رہتے ہیں اور جن کی اصلاح کا احساس بھی ہمیں نہیں ہوتا ، زبان کے حوالے سے ان کی حساسیت کافی زیادہ تھی ، ہاکی کے کھیل کے عروج و زوال تکانیک اور پشاور میں ہاکی کی تاریخ کے موضوعات پر کافی لکھتے رہے ، بلکہ پشاور پر بھی بے تحاشا لکھا، پشاور کے مشہور و بدنام کرداروں سے لے کر مقامات و باغات رسوم و رواج سب کچھ پر فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ان کے پاس تھیں جو وہ خوب سخاوت سے اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے تھے ۔ 

چار فروری دو ہزار تین کو جب میرے والد فوت ہوئے عین اسی دن سخی صاحب کے بھائی ملک راحت علی خان بھی راہی ملک بقا ہوئے لیکن دوسرے ہی دن وہ میرے گھر پہنچ کر مجھے دلاسہ دے رہے تھے ، ملک راحت صاحب پشاور کے بزرگ صحافیوں میں سے تھے ، اور آج کل کے صحافیوں کی طرح پھنے خان یا سقراط نہیں تھے بلکہ نہایت ہی منکسر المزاج اور غریب پرور آدمی تھے اور علمائے صحافت و ادب سے ایک خاص تعلق خاطر رکھتے تھے ، مشاہیر زمانہ مثلاً مولانا ظفر علی خان ، عبدالمجید سالک ، چراغ حسن حسرت وغیرہ سے باقاعدہ خط کتابت تھی ، سخی صاحب اور ملک صاحب دونوں ساری زندگی اکھٹے رہے ، ان کے لئے اپنے بھائی کی وفات کچھ کم سانحہ نہ تھا لیکن اپنے ذاتی غم(ذاتی غم ۔۔یہاں اس کے پشتو روزمرہ کے مطابق استعمال میں ابلاغ زیادہ ہے) کے باوجود وضعداری سے دستبردار نہ ہوسکے ۔ کافی دیر بیٹھے رہے اور پھر میرے کہنے پر واپس چلے گئے ۔ 

انتقال سے کچھ سال قبل وہ پشاور چھوڑ کر حیات آباد منتقل ہوگئے ، اگرچہ حیات آباد پشاور ہی میں ہے لیکن اس پر میرا اور سخی صاحب کا کامل اتفاق تھا کہ پشاور صرف وہ پشاور ہے جو فصیل شہر کے اندر ہے ۔ اور پشاور کی ثقافتی و معاشرتی قدروں کی گود صرف وہی علاقہ ہے جو دروازوں کے اندر ہے ،حیات آباد سے ایک مرتبہ اسی بنیاد پر واپس آگئے تھے کہ وہ پشاور نہیں ، بہرحال ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ، اپنی پیرانہ سالی کے باوجود وہ میری طرف آتے رہے میں ان کی طرف جاتا رہا ، لیکن اس دوران گرنے کی وجہ سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی ، میں ملنے گیا تو دیکھا سخی صاحب جو ہر وقت ہنسنے اور ہنسانے کے عالم میں ہوتے ہیں نمناک آنکھیں لئے ہوئے ہیں ، مجھے دیکھا تو دور سے ہی ایک چیخ ماری دیکھو زلان یہ حالت ہوگئی ہے میری ، چیخ سیدھی میرے دل کو چیر گئی لیکن خود پر قابو رکھا ، اور کہا کہ سخی صاحب آپ تو اب بھی بہت لوگوں سے اچھی حالت میں ہیں ،یہ گزشتہ عیدالفطر کی بات ہے ، اس کے بعد بھی دو یا تین دفعہ ان سے ملنے گیا ، انہیں دل کا عارضہ تھا لیکن تمباکو نوشی کی لت اس سے زیادہ تھی ۔ اور لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ اس بات کے ماننے پر تیار نہیں تھے کہ تمباکو نوشی ان کے لئے نقصان دہ ہے ۔ گھر میں دو دو ڈاکٹروں کی موجودگی کے باوجود انہیں میڈیکل سائنس پر کوئی اعتبار نہیں تھا، شاید اس میں پشاور کے ڈاکٹروں کا بھی کردار تھا اور ان کی اپنی نازک مزاجی کا بھی ۔ 
12 ستمبر 2014کو ٹویٹر پر سبھی دوست ڈاکٹر محمد تقی کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد دے رہے تھے ، میں نے بھی مبارک باد دے دی ، بس یہی میری غلطی تھی ، ڈاکٹر تقی صاحب سخی صاحب کے بھتیجے اور ملک راحت علی خان کے صاحبزادے ہیں ، انہوں نے مجھے میسیج کیا کہ نہایت ہی تکلیف دہ دن ہے ان کے لئے کیونکہ کل رات ہی سخی صاحب کا انتقال ہوا ہے ۔میں نے یہ میسیج پڑھا تو سخی صاحب کے گھر کا نمبر ملایا ، بات نہیں ہوپارہی تھی ، سخی صاحب کی بیوہ سے بات ہوئی ، شدت سے گلہ کرنا چاہتا تھا کہ مجھے کیوں نہیں بتا یا گیا پھر سوچا کہ وہ جو دلبر و دلدار تھا وہ نہیں رہا اب کسی اور سے کیا گلہ ، جو کام روزنامہ آج والوں نے میرے جانے کے بعد سخی صاحب کے ساتھ کیا تھا وہی کام سخی صاحب کے گھر والوں نے ان کی وفات پر میرے ساتھ کرکے حساب برابر کردیا تھا۔ ڈاکٹر تقی صاحب کی سالگرہ سے لے کر آج کے دن تک کا یہ سارا عرصہ سخی صاحب کے ساتھ گزارے گئے لمحات کو درد کی تصویریں بناتا رہا۔ آج تک شاید کسی کوسالگرہ کی مبارکباد کہنے پر اتنا بڑا صدمہ نہیں دیا گیا ، نہیں  بھولوں گا اب یہ تاریخ ۔کبھی نہیں!!!

Tuesday 12 August 2014

سانحۂ بابڑہ۔ یہ خون خاک نشیناں تھا؟

یادگار شہدائے بابڑہ چارسدہ

سانحۂ بابڑہ۔ یہ خون خاک نشیناں تھا؟

ہمارے قومی وجود کے زخم ایسے ہیں اور اتنے ہیں کہ نہ ہی ان کی شدت پوری وضاحت سے بیان کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان کا شمار ممکن ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اند مال اور مداوے کے مطالبات ہماری فہرست میں ابھی شامل نہیں ہوئے۔ جو جو زیادتیاں ہوئی ہیں ان کا ذکر کرنا بھی اس لئے دشوار ہے کہ اس کیلئے بھی ایک عمر چاہئے اور جس رفتار سے المیے واقع ہورہے ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ ایسی کوئی المیہ شماری مستند ٹھہر سکے ۔ آج 12 اگست کا دن ہے اس دن کی سیاہی کو بیان کرنے کیلئے ابھی الفاظ ایجاد ہی نہیں ہوئے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایسے حروف ہی نہیں ہیں جو ایسے الفاظ کی ترتیب میں معاونت کریں جو اس تاریک دن کی سیاہی کا مکمل ابلاغ کرسکیں۔ ہم اس بابت کیا کہیں ایک چشم دید گواہ کی آپ بیتی سن لیجئے۔ 
سالار کریم داد خان اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں۔
12 اگست 1948ء کو علی الصبح ہی لوگ بابڑہ پہنچنا شروع ہوگئے تھے جو لوگ دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے وہ ایک روز قبل ہی پہنچ گئے تھے قرب و جوار کے دیہات سے بھی خدائی خدمت گاروں کی ایک بڑی تعداد اس لئے صبح سویرے آرہی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ شاید انہیں بابڑہ پہنچنے ہی نہ دیا جائے۔ اس دن بہت سارے لوگوں کو فوج اور پولیس والوں نے دریا میں پھینک دیا تھا۔ لیکن دریا میں پھینکنے والے بھی تیر تیر کر ایک راستے اور دوسرے راستے سے بابڑہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ پکڑ دھکڑ بڑی شدت سے شروع تھی لیکن پختونوں کے جذبے کے سامنے ہر جبر و ستم خس و خاشاک ثابت ہورہا تھا۔ خدائی خدمت گار ٹولیوں کی صورت بہم پہنچ رہے تھے ۔ بابڑہ کی جامع مسجد کی چھت پر فوجی اور ساتھ ہی دوسری طرف مسلم لیگی اسلحہ بدست تیار کھڑے تھے پو لیس کے ’’شیر دل ‘‘ جوان بھی ایک کثیر تعداد میں موقع پر موجود تھے ، انتظار جاری تھا ، ان سب اسلحہ برداروں کا غیظ و غضب بلا جواز بالکل نہیں تھا دراصل انہیں ایک نہایت ہی جانکاہ صدمہ پہنچا تھا اور وہ فرنگیوں کا یہاں سے جانا تھا سو یہ تمام اسلحہ بدست خدائی خدمتگاروں سے اپنے اصل آقاؤں یعنی فرنگیوں کی اس ہتک کا بدلہ لینے کو سخت اتاولے ہورہے تھے جو جو خدائی خدمت گاروں نے ان کو یہاں سے بھگا کر ان کے ماتھے پر ثبت کردی تھی۔ فوج نے رات ہی سے سارے انتظامات کررکھے تھے راستے سارے بند تھے۔ خیالی کا پل ‘ قاضی خیلوں والا پل مردان کی سمت سے آنے والا راستہ غرضیکہ ایسا کوئی راستہ ہی نہیں تھا کہ اسے اختیار کرکے بابڑہ پہنچا جائے۔ لوگ تیرتے ہوئے کشتیوں میں ٹولیوں میں بابڑہ پہنچنے کی کاوشوں میں پوری تندہی سے لگے ہوئے تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے سالار اعظم (سالار امین جان خان۔۔ناقل) سے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ وقت پڑنے پر جان و مال کی پرواہ نہیں کریں گے اور قومی مقاصد کیلئے ہر طرح کی قربانی دیں گے ۔ یہ کوئی کرائے کی فوج نہیں تھی نہ ہی انہیں کوئی اجرت ملتی تھی۔ یہ لوگ اگر سختیاں جھیلنے کا عزم مصمم کرکے اسے عملی جامہ پہنا رہے تھے تو اس کیوجہ صرف یہ تھی کہ ان کے دل میں قوم کا غم تھا۔ اور جس دل میں قوم کا غم ہو وہاں خوف خدا کے سوا دوسرے کسی خوف کا وجود نہیں ہوتا۔ سالار کریم داد لکھتے ہیں کہ اپنے گاؤں کے رضا کاروں کے ہمراہ وہ بھی کس طرح بابڑہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے یہ سفر کشتی میں طے کیا تھا۔ لکھتے ہیں کہ بابڑہ میں کافی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے پر سالار امین جان خان نے چارسدہ کی طرف مارچ کا حکم دیا۔ فوج پہلے سے ہی مورچے سنبھال چکی تھی۔ اس جلوس میں صرف مرد ہی نہیں تھے خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم سینوں سے تھامے اپنے بھائیوں کے ہم رکاب تھی۔ یہ جلوس جیسے ہی بابڑہ کی مسجد کے قریب پہنچا تو سڑک کے بائیں کنارے سے مسلم لیگی مجاہدین نے فائرنگ شروع کردی ، جلوس کے شرکاء یہ سمجھے کہ شاید خوشی کی فائرنگ ہے ، سو جلوس چلتا رہا تاہم اس دوران اچانک لوگ گرنے لگے ، خون سے پوری سڑک لال ہوگئی ، مشہور خدائی خدمت گار اور شاعر فضل رحیم ساقی اپنی کتاب خدائی خدمت گار میں لکھتے ہیں کہ دراصل یہ مسجد کی چھت پر موجود فوجی جوانوں کو سگنل تھا کہ شروع ہوجاؤ چنانچہ مسجد کی چھت پر موجود سپاہیوں نے فائرنگ شروع کردی ۔دستی بموں کا بے دریغ استعمال ہونے لگا اور مشین گنیں تھرانے لگیں ، جلوس کے ہراول دستے سے بھی آگے جانے والے خدائی خدمتگار جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں اور بچوں کی تھی موقع پر ہی شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئی ، اس ظلم وتعدی میں موقع پر موجود پولیس نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا ، ان کے پاس بھی جو اسلحے ، گولہ وباردو کا ذخیرہ تھا وہ بھی ان نہتوں پر استعمال ہونے لگا ، ساقی صاحب لکھتے ہیں کہ فتح محمد سالار جو پہلے فوج میں تھے اور اب خدائی خدمتگاروں کے جرنیل تھے نے چیخ چیخ کر شرکا ء سے کہا کہ لیٹ جائیں ، بہت ساری خواتین جو اپنے بھائیوں ، بچوں کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے چھتوں پر کھڑی تھیں اور جلوس دیکھ رہی تھیں ان کو بھی گولیاں لگیں ، متعدد شہید ہوئیں ، اسفندیار ولی خان کی والدہ تاجو بی بی (گوہر تاج )جو اس وقت حاملہ تھیں بھی اس جلوس میں شامل تھیں اور وہ بھی زخمی ہوئیں ، آتش و آہن کی یہ بارش جاری تھی کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد قرآن مجید سروں پر اٹھائے گھروں سے باہر نکل آئیں ، ان کا خیال تھا کہ یہ تو انگریز نہیں مسلمان ہیں ، اس بزرگ وبرتر کتاب کا واسطہ مان لیں گے ، خواتین نے قرآن کریم کا واسطہ دے کر عافیت مانگی مگر گولی چلانے والوں کو صرف موت بانٹنے کا حکم دیا گیا تھا۔ مملکت خدادا کے مسلمانوں سپاہیوں نے کرہ ارض اور فرش پر موجود مقدس ترین کتاب کی پرواہ نہیں کی۔ قیامت کا سماں تھا ایک محشر برپا تھا۔ دھول مٹی بارود بن چکی تھی ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔سالار کریم داد کہتے ہیں کہ نستہ کے صحت خان گولی کھا کر زمین پر گر پڑے ان کا سر میں نے اپنی گود میں رکھا۔ چاروں طرف آگ برس رہی تھی لیکن کوئی خدائی خدمتگار اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ یہ گولیاں ان لوگوں پر چلائی جارہی تھیں جو انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ہر قسم کی قربانی دے چکے تھے اور گولیاں چلانے والے وہ تھے جنہوں نے انگریزوں کی حکمرانی کے قیام اور اس کے استحکام میں ہر طرح کے مفادات سمیٹے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ آزادی ملی تو اختیار ان لوگوں کو ملا جو انگریزوں کے کاسہ لیس تھے۔ جو غدارانِ وطن تھے آج حاکمان وطن تھے ۔ خواتین کو قرآن کریم سمیت شہید کردیا گیا تھا جیسے دشمن پر گولیاں برسائی جارہی ہوں اور مقصد فتح کرنا ہو۔ ایک اسلامی ملک میں عظیم قرآن کے اوراق فضاؤں میں اڑ رہے تھے لیکن پولیس اور فوج کے جوان اور مسلم لیگ کے غازی جو سارے مسلمان تھے اسے اپنی غیرت کیلئے کوئی تازیانہ نہیں سمجھ رہے تھے۔ ساڑھے چھ سو کے قریب لاشیں اٹھائی گئیں۔ زخمیوں کا شمار ممکن نہی نہیں تھا۔ یہ تھا ایک خدائی خدمت گار کا بیان اور آنکھوں دیکھا حال۔ سالار امین جان خان کہتے ہیں بلکہ لکھتے ہیں کہ اس جلوس کی باقاعدہ اجازت لی گئی تھی۔ لیکن جیسے ہی جلوس روانہ ہوا تو مطلع کیا گیا کہ جلوس پر دفعہ 144 کے تحت پابندی لگ گئی ہے اور یہ ممکن نہ تھا کہ جلوس نکلے بغیر ہی منتشر ہوجائے۔ عینی شاہدین کا یہ کہنا ہے کہ پولیس اور فوج کے بہادر اور شجیع جوانوں نے بہت ساری لاشیں اٹھانے نہیں دیں۔ اکثر کو قریبی دریا میں پھینک دیا گیا۔ زخمیوں کے بارے میں یہ حکمنامہ جاری ہوچکا تھا کہ ان کا علاج کسی سرکاری شفاخانے میں نہیں ہوگا۔فضل رحیم ساقی مرحوم و مغفور لکھتے ہیں کہ بابڑہ کا سانحہ 12اگست ہی کو ختم نہیں ہوا اس کے بعد بھی ہفتوں جاری رہا ، سب سے پہلے تو تحصیل چارسدہ کے سارے دیہات کو پچاس ہزار روپے جرمانہ کردیا گیا ، حکومت نے وجہ یہ بتائی کہ جرمانہ اس لئے لگایا جارہا ہے کہ فوج اور پولیس کا گولہ وبارود ضائع ہوا ہے ، یعنی جن گولیوں سے خدائی خدمتگاروں کو اپنی ہی سرزمین پر خاک وخون میں نہلایا گیا اس کی قیمت بھی وصول کر لی گئی ، ساقی صاحب لکھتے ہیں کہ جو لوگ متمول تھے انہوں نے تو جرمانہ ادا کردیا لیکن خدائی خدمتگاروں میں اکثریت غرباء کی تھی ، چنانچہ ان کے گھروں اور قیمتی اشیا ء کو نیلام کردیا گیا اور مسلم لیگ کے غازیوں کو کوڑیوں کے مول یہ سب کچھ مل گیا، پولیس اور سی آئی ڈی کی سرگرمیاں اس کے بعد بھی جاری رہیں ، معزز عمر رسیدہ زعمائے قوم کو بے لباس کر کے ان کے پورے جسم پر گند مل دیا جاتا اور بازاروں اور گھروں میں انہیں پھرایا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ ہیں ہندووں کے ایجنٹ اور اس وطن کے غدار، جب پولیس یہ تماشا کرتی تو وہ بھی ایک عجیب سا منظر ہوتا ، جب ان عمائدین قوم کو پولیس کے جوان اس حالت میں بازاروں میں لے کے جاتے تو لوگ آنکھیں بند کرکے دھاڑیں مار مار کر روتے ، آنسوؤں ہچکیوں کے طوفان آجاتے لیکن کچھ لوگ خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے وہ لوگ مسلم لیگ اور پولیس کے غازی تھے ، نہ پولیس کی تعداد خدائی خدمت گاروں سے زیادہ تھی نہ مسلم لیگیوں کی ، یہ بے سروسامان لوگ چاہتے تو ان کی تکہ بوٹی کر کے رکھ دیتے لیکن انہوں نے ایک مردبزرگ مسیح الافاغنہ سے عدم تشدد کا عہد کر رکھا تھا ، اور وہ اپنی جان دے سکتے تھے لیکن تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرسکتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ کوہاٹ کے ایک خدائی خدمتگار کو جب اس سلوک سے گزرنا پڑا تو اس نے اپنے عہد کی تو لاج رکھ لی لیکن برہنہ بازاروں میں پھرانے کی ہتک برداشت نہ کرسکا اور خود کو گولی مار دی ، ان لوگوں کا قصور کیا تھا یہ سارا معرکہ کیوں برپا ہوا اور بقول کسے پختونوں یا چارسدے کا کربلا کس وجہ سے وجود میں آیا؟ صرف اس لئے کہ ان لوگوں کا ایک مطالبہ تھا اور وہ یہ کہ باچا خان اور ان کے ساتھی گرفتار تھے اور یہ خدائی خدمت گار ان کی رہائی چاہتے تھے۔ کیا یہ مطالبہ اس درجے پر سنگین تھا کہ موت کا پروانہ ٹھہر جائے؟ ہمیں افسوس امر کا ہے کہ اس قدر بڑے سانحے پر ہماری سرکاری کتابیں خاموش ہیں۔ عدلیہ پر ایک افتاد آپڑی تو ججوں نے کرام ویل کی مثال دی کیا یہ انصاف کا تقاضا نہیں کہ 67 برس بعد ہی سہی پختونوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے کرام ویل کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو ایک دفعہ انگلستان میں ہوچکا ہے ۔ یا ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہو۔

Sunday 19 January 2014

مسیح الافاغنه باچاخان کی برسی کے موقع پر ان کے چند اقوال ۔۔۔۔۔زلان مومند



اقوالِ رہبرؒ 

گزشتہ صدی کئی حوالوں سے معتبر حیثیت رکھتی ہے۔اس صدی میں بہت ساری ایسی شخصیات گزری ہیں جن کی وجہ سے اہم ترین واقعات پچھلے سو برسوں کی یادگار بن گئے۔برِّ صغیر کی آزادی کی تحریک ایک ایسا واقعہ ٹھہر گئی جس کی پشت پر ایک سے زیادہ عظیم ہستیاں بطورِ عامل موجود رہیں۔جس خطہء زمین پرہم جی رہے ہیں وہاں ایک ایسی قدآور شخصیت نے تاریخ کا دھارا موڑا جس کی سادگی، بے ساختگی، عجز، پر ہیز گاری اور سماجی اصلاح کا بے نظیر جذبہ اس کے سیاسی افکار پر ہمیشہ غالب رہا ۔ایک ایسی قوم جس نے جنگ و جد ل کو بطورِ کلچر اپنا رکھا تھا اس قوم کو اس مردِ درویش نے عدم تشدد کا درس دیا ۔پھر تاریخ کے صفحات پر عجیب و غریب تصویریں ابھریں ۔وہ قوم جس میں برادر کشی کو جواز میسر تھااور جو تشدد اور اسلحے کو علم و ہنر کا درجہ دیتی تھی اس کوبیچ چوراہوں میں ظلمِ فرنگ کا سامنا کرنا پڑا۔شجاعت ، جرأت اور بے خوفی سے لبالب بھرے اس مٹی کے بیٹوں کو بے دردی سے انگریز سپاہی اور ان کے دیسی چاکر پیٹتے رہے لیکن اس باخدا مردِ درویش کے عدم تشدد کے فلسفے نے ان کا ہاتھ روک رکھا تھا۔بس ایسے ہی ہوتے ہیں خدا والے۔یہی وجہ تھی کہ فرنگی اپنے سرکاری کاغذات میں یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ
 Non violent Pathan is much dangerous than the violent Pathan.
انتہائی خوف اور بے کسی کے عالم میں ایک جابر بدیسی راج کا اس سے بہتر خراجِ تحسین اور کیا ہو سکتا ہے؟باچا خان ؒ کا مشن ایک ایسی ترکیب ہے جس کا استعمال آج کل نہایت عام ہے لیکن کسی سے پوچھا جائے کہ یہ مشن کیا تھا ؟تو شاید اس کے جواب میں کوئی دو ٹوک بات کسی کو نہ سوجھے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشن غیر واضح تھا ۔افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان کی تعلیمات بھی اسی طرح فراموش کر دی گئیں جیسے ان سے پہلے بہت سارے سماجی مصلحین کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالا گیا۔ذیل میں جو اقوالِ رہبرؒ دئیے جا رہے ہیں درحقیقت باچا خان کا مشن انہی پر مبنی ہے۔گویا یہ صرف اقوالِ رہبرؒ نہیں بلکہ رہبرِ اقوال بھی ہیں۔

* ہماری جنگ صبر کی جنگ ہے ۔ہم صبر سے کام لیں گے اور خود کو سپردِ خدا کریں گے،اپنے دلوں سے نفاق دور کریں گے،خود غرضی کو جڑ سے اکھاڑیں گے کیونکہ ہماری بربادی کی بنیادی وجوہات یہی ہیں۔

* ہر ایک گروہ میں بے اتفاقی کی پیدائش ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔
* اے میرے پختون بھائیو! خوف اور مایوسی کا شکار نہ ہونا!یہ خدا کی طرف سے ہماری آزمائش اور امتحان ہے۔پس بیداری کی ضرورت ہے۔اٹھیے اور مخلوقِ خد ا کی خدمت پر کمر بستہ ہو جائیے۔
* آزادی کا پودا نوجوانوں کی قربانیوں سے سینچا جاتا ہے۔یہ پودا جو ہم نے لگایا ہے ضرور پھلے اور پھولے گا کیونکہ ہمارے نوجوانوں کی قربانیاں بے نظیر ہیں۔
* میرا عقید ہ ہے کہ ایک قوم صر ف اسی وقت ترقی کر سکتی ہے جب اس کی عورتیں مردوں کے شانہ بہ شانہ گاڑی کے دو پہیوں کی طرح کام شروع کریں ۔
* وہ کام جو کھل کے نہ کیا جا سکے اور در پردہ ہو وہ انسان میں کمزوریاں اور خوف پیدا کرتا ہے۔
* اچھا قانون بری نیت سے بنے تو اس کا استعمال یقیناًبرا ہو گا۔
* جس قوم کی نظر میں اپنی زبان کی وقعت نہ رہے اس قوم کی اپنی وقعت نہیں رہتی اور جس قوم سے اپنی زبان کھو جائے وہ قوم خود کھو جاتی ہے۔
* صنف کی بنیاد پر کسی کو تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے ۔توقیر کی بنیاد صرف عمل ہے۔
*اگر آپ نے کسی بھی قوم کے مہذب ہونے کا اندازہ لگانا ہے تو یہ دیکھئے کہ اس قوم کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ اور سلوک کیسا ہے ، جن لوگوں کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ ہتک آمیز ہو وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں
* عدم تشدد ایک طاقت ہے جس کا ہتھیار تبلیغ ہے۔عدم تشدد ، ہمت، حمیت ، محبت اور جرأت پیدا کرتا ہے جبکہ تشدد لوگوں میں نفرت اور خوف کو جنم دیتا ہے۔
* جس قوم کی خواتین بیدار ہو جائیں اور ملکی آزادی کا عہد کر لیں اسے کوئی بھی غلام نہیں رکھ سکتا ۔
* انقلاب ایک سیلاب ہے جو خفتہ لوگوں کو بہا لے جاتا ہے۔
* ہمارا فرض دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلانا ہے۔ہم اس قوم اور حکومت کی مخالفت کریں گے جو مخلوقِ خدا پر ظلم ڈھاتی ہو چاہے ظالم ہمارا بھائی اور ہمارا ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو۔
* ہمیں چاہے کوئی کتنی ہی تکلیف دے ، ہم پر ظلم کرے، ہمارے ساتھ زیادتی کرے لیکن ہم انتقام نہیں لیں گے بلکہ صبر کریں گے اور ایسے فرد، قوم یا حکومت کو سمجھانے کی کوشش کریں گے۔
* ہماری جنگ عدم تشدد کی جنگ ہے اور اس راستے میں آنے والی تمام تکالیف اور مصائب ہمیں صبر سے جھیلنے ہوں گے۔
* غلامی سے بڑھ کر لعنتِ خداوندی اور کوئی نہیں۔
* جو قوم ایک طویل مدت تک غلامی کی شکار رہے اس قوم کا بالآخر خاتمہ ہو جاتا ہے۔
* سچا خدا ئی خدمت گار اسمبلی میں صرف مخلوقِ خدا کی خدمت کے جذبے کے تحت جاتا ہے۔
* ناکام ہونے کا غم انہیں لاحق ہوتا ہے جو اپنے اغراض کے لئے کام کرتے ہیں۔جو لوگ خدا کی راہ میں نکلتے ہیں اور خدا کے لئے کام کرتے ہیں انہیں ناکامی کا غم نہیں ہوتا۔
* جو اقوام باتیں کم اور عمل زیادہ کرتی ہیں وہی اپنی منزل پاتی ہیں۔
* سیادت قومی خدمت ہے اس لئے یہ قوم کی مرضی و منشا کے مطابق ہونی چاہئے۔اگر حکمرانی میں قوم کی مرضی و منشا نظر انداز ہو تو سیادت عزت کی بجائے ذلت کا باعث بن جاتی ہے۔
* تکلیف کے فیصلے کبھی بھی کثرتِ رائے سے نہیں ہو سکتے ۔
* جس قوم میں دلیری اور قربانی کا مادہ باقی نہیں رہتا وہ قوم ہمیشہ دوسری اقوام کی شجاعت میں اپنے خوش ہونے کے مواقع ڈھونڈتی رہتی ہے۔
* خدا کو خدمت کی ضرورت نہیں۔مخلوقِ خدا کی خدمت ہی دراصل خدمتِ خداوندی ہے۔جو کوئی بھی سچے دل سے برائے خدا قوم کی خدمت کرے اس کا راستہ کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔
* اس ملک پر عورتوں اور مردوں کا یکساں حق ہے۔
* ہمارا گھر تشدد کی وجہ سے برباد ہو چکا ہے۔آئیے اپنے اس تاراج گھر کو پھر سے آباد کریں۔

( ان تمام اقوال کا مآخذ باچاخانؒ کی خود نوشت سوانح حیات ’’میری زندگی اور جدوجہد ‘‘ہے۔)

Monday 11 November 2013

منور حسن کے بیان کا تنازعہ اور آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز

                   جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے متنازعہ بیان سے یہ بات مزید پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے کہ پاکستانی معاشرے کو تقسیم کرنے اور مذہب کی من چاہی تشریح کرنے میں مذہبی جماعتیں کس انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں ، اسی قسم کا بیان مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے بھی سامنے آیا تھا لیکن انہوں نے احتیاط برتتے ہوئے ننگی تاروں کو چھونے سے احتراز برتا تھا ، یا یوں کہئے کہ جناب سلیم صافی نے ان پر ایک احسان کرتے ہوئے ان سے یہ سوال نہیں پوچھا تھا کہ فوجی جوانوں کے طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے کو آپ شہادت سمجھتے ہیں یا نہیں ۔
                   جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام دونوں پاکستان میں بسنے والے سخت گیر مذہبی گروہوں کی نمائندہ مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں ، ان دونوں کے قائدین کے شرعی معاملات کی سیاسی تشریحات نے کھلبلی مچا رکھی ہے تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں ، مذہبی سیاسی جماعتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ معاشرے کو مقدسات کی آڑ میں ایسی توڑ پھوڑ کا شکار کردیا جائے کہ اسے کسی بھی طرح دوبارہ نہ جوڑا جاسکے ، لیکن یہ جو نام نہاد لبرل اور سیکولر طبقہ ہے اس کی جرأت رندانہ کے بھی کیا ہی کہنے اور الیکٹرانک میڈیا کی تو خیر بات ہی نہ کیجئے کہ ان کے بارے میں بھی یہ سوچ عام ہو رہی ہے کہ ان کے ڈانڈے بھی کہیں اور سے ہلائے جاتے ہیں ، یہی دیکھ لیں کہ جناب منور حسن نے اپنے ہی ملک کے فوجی جوانوں کے حوالے سے ایک بات کہی اور یہ محولہ دونوں طبقے(روشن خیال سیکولر/لبرل اور میڈیا) آئی ایس پی آر کی جانب سے مذمتی پریس ریلیز کا انتظار کر رہے تھے ، ان کے نزدیک اس بات کی اہمیت ہی اس وقت پیدا ہوئی جب خود فوج نے اس کا نوٹس لیا اور یوں ان کو اپنی روشن خیالی اور فوج کی جانب سے دی گئی قربانیوں کے تقدس کا خیال آیا ، سو یہی وجہ ٹھہری کہ پاکستان کے تمام نیوز چینلوں پر کل اور آج ( ان سطور کے لکھنے تک) یہ بات شہ سرخیوں میں شامل ہوئی اور اس پر براہ راست پروگراموں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ جو نجانے کب تک جاری رہے گا ۔ 
                 فوج کی پریس ریلیز میں مولانا مودودی کی خدمات کا اعتراف اور ان کے لئے سنہری الفاظ کا استعمال بھی محل نظر بلکہ مہمل سی بات ہے ، آئی ایس پی آر ایک ایسا نشریاتی رابطہ ہے جس سے پاکستان کے عوام کو باالخصوص اور دنیا کے دیگر ملکوں کو یہاں کی فوجی قیادت کی عقل و دانش سمجھنے میں مدد ملتی ہے ، پریس ریلیز کے اس حصے سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ فوج الشمس ، البدر ، شانتی کمیٹیوں اور رضاکاروں کی چیرہ دستیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ، وہ چیرہ دستیاں جو بنگلہ دیش (اس وقت کے نام نہاد مشرقی پاکستان ) میں حریت پسندمسلمانوں اور ہندووں سے روا رکھی گئی ، اور جنگی جرائم کی تاریخ میں اسے ہولوکاسٹ کے بعد بدترین تشدد سمجھنا چاہئے تھا ، اور ظاہر ہے اس وقت جب انسانیت کے خلاف جماعت اسلامی ان جرائم کا ارتکاب کررہی تھی تو اس کے امیر مولانا مودودی ہی تھے جو اس سارے عمل کے نگران تھے ، اس سے یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ پاکستان کے فوج نے بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما غلام اعظم کو پاکستان میں پناہ دینے کے فعل قبیح کو بھی ابھی تک ایسا امر نہیں سمجھا جس پر اسے ندامت ہو۔
                    پریس ریلیز کے اس حصے کو غیر ضروری اور سیاق و سباق سے بالکل ہی الگ سمجھا جانا چاہئے تھا ، موجودہ حال میں تو اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ فوج کو منور حسن کے حالیہ خیالات سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ اس کے ماضی کا نہایت ہی قریبی ساتھی بلکہ حلیف اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا ہے ۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کا عمل نہایت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن اس سے یہ بات بہر حال مسلّم ہوجاتی ہے کہ اصلاح پر آمادگی کا جوہر موجود ہے ، منور حسن کے بیان کے پسِ پشت محرکات تو سب کو معلوم ہیں ، پاکستان کے عوام اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں اور خود پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے بھی اس امر سے آگاہ ہیں کہ القاعدہ اور دیگر کالعدم تنظیموں کے اہم رہنماؤں کی گرفتاریاں کہاں سے ہوتی رہی ہیں ، سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کا ماسٹر مائنڈ کہاں سے پکڑا گیا تھا، اور یہ جو عالمی ایک کڑی مذہبی تنظیموں کی ہے اس میں جماعت اسلامی کا کردار کیا ہے ، افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اس ملک کی اعلیٰ عدالتیں عتیقہ اوڈھو کے سامان سے دو بوتل شراب کی برامدگی کا ازخود نوٹس لینے کو ہر دم اتاولی رہتی ہیں لیکن ریاستی اداروں کے اندر بے چینی پھیلانے اور ہزاروں معصوموں کے لواحقین کے دلوں پر چھری پھیرنے والوں کے ضمن میں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے حوالے سے جنگی جرائم کے جو مقدمات قائم ہوئے اور جن پر فیصلے بھی آئے وہ بھی ہماری اعلیٰ عدلیہ کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں ، ان حالیہ بیانات کے بعد تو الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کو خود اس بات کا نوٹس لینا چاہئے تھا ، منور حسن صاحب نے تو فوج کے بیان کے بعد بھی اپنے خیالات پر مصر رہنے کا اعلان کر دیا ہے ، ان سطور کے لکھنے تک نیوز چینلوں پر جو پٹیاں چل رہی تھیں وہ اس بات کا برملا اظہار کر رہی تھیں کہ جماعت اسلامی والے اس معاشرے میں رہنے والوں کو کس سمت میں لے کر چلنا چاہتے ہیں ۔
                   ہمیں تو اس بات کا بھی افسوس ہے کہ پاکستان کے مذہبی رہنماؤں سے زیادہ عقل ودانش کا مظاہرہ طالبان کی مجلس شوریٰ کرتی رہتی ہے ، ان کی جانب سے حال ہی میں فضل اللہ کو تحریک طالبان کا امیر بنانے کا فیصلہ نہایت ہی سیاسی بصیرت کا حامل ہے ، ایک تو اس فیصلے کے بعد پاکستان کے افغانستان سے تعلقات مزید بگڑ جائیں گے کہ نئے امیر کا مسکن افغانستان ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان کے خلاف آپریشن نہیں ہوسکے گا ، پاکستان کی فوج افغانستان جاکر آپریشن کرنے سے تو رہی ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے خود کو اس بازاری دانش کے اثرات سے محفوظ رکھا ہے جس میں پاکستان کے مذہبی رہنما مبتلا ہیں اور جس کی طرف گزشتہ دنوں میں انہوں نے خود اشارہ بھی کردیاتھا کہ نیٹو سپلائی کے معاملے پر عمران خان بازاری بیانات سے گریز کریں ۔ 
                         پاکستان حالت جنگ میں ہے ، کوئی بھی ایسا حصہ ملک کا نہیں جسے مامون کہا جاسکے، ہمارے شہر ، قصبے اور گاؤں سب کے سب سنگین بدامنی کا شکار ہیں ،ریاست کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے فوج کے جوان بیرکوں میں نہیں بلکہ قبائلی علاقوں میں ہیں ، جہاں وہ القاعدہ ، طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں سے برسر پیکار ہیں ، ان حالات میں سید منور حسن کا یہ بیان اور اس پر مصر رہنے کا اعلان بالکل ایسا ہی طرز عمل ہے جیسا بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی نے ان کی تحریک آزادی میں ادا کیا تھا، وہاں تو ان پر پابندی بھی لگ گئی ان کی سیاسی سرگرمیاں بھی کالعدم ٹھہر ا دی گئیں لیکن یہاں ان کے بانی کو فوج اب بھی ہیرو ہی سمجھتی ہے ، اور کیوں نہ سمجھے پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں ایک ایسا شخص بھی پارلیمانی سیاست میں حصہ لے سکتا ہے جس نے دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکے تھے ، جنرل نیازی کسی اور ملک میں ہوتا تو واپسی پر خود کشی کرلیتا ، قید کر لیا جاتا یا عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بنتا لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ، کچھ دنوں بعد کسی کو یہ باتیں یاد بھی نہیں رہیں گی 

Friday 1 November 2013

ایک کہانی


قریش خٹک بنیادی طور پر ایک صحافی ہیں ‘بڑا عرصہ پشاور میں رہے ہیں ‘صحافتی سیاست میں اچھے خاصے متحرک تھے لیکن اب وہ این جی اوز کو پیارے ہو چکے ہیں ‘ظاہر ہے خاندان میں وسعت ضروریات میں وسعت لے کر نمودار ہوتی ہے اور پھر دل ودماغ کی قوتِ فیصلہ سازی میں معدے جیسا عضوِ کثیف بھی شامل ہوجاتاہے تو ایسے میں صحافت جیسے پیشے کو بطور پیشہ اپنانا مشکل ہوجاتا ہے ‘ہاں البتہ ایک شوق یا عادتِ مرغوب کی حیثیت سے اس کی موجودگی گراں نہیں گزرتی ‘ویسے بھی ایک لکھاری تبھی لکھنا بند کرتا ہے جب وہ سانس لینا بند کر دے ‘ورنہ اُصولی طور پر وہ اس وقت بھی لکھ رہا ہوتا ہے جب کچھ بھی نہیں لکھ رہا ہوتا۔ایک ای میل میں رفیقِ شفیق قریش خٹک نے طبع زاد ایک کہانی بزبانِ افرنگ لکھی ہے ۔کہانی اس قدر متعلق ہے کہ اس کا ترجمہ کئے بغیر موجودہ مہمل حالات کو کوئی معنے نہیں پہنائے جاسکتے۔ خوف خلقِ خدا کے باعث اس میں تھوڑی ترمیم کرنی پڑے گی تاہم کوشش کی جائے گی کہ اس سے اصل معنے قتل نہ ہوں ۔قریش خٹک لکھتے ہیں کہ یہ کہانی انہوں نے اپنی بچی کے لئے لکھی ہے حالانکہ میرا خیال ہے کہ یہ کہانی سب کے لئے ہے۔کہانی ملاحظہ ہو
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بدمعاش شہزادے نے ایک بندر پال رکھا تھا جو اسی شہزادے کی مانند شریر و بد طینت تھا۔اس شریر و شر انگیز بندر کے پالنے کی وجہ یہ تھی کہ بدمعاش شہزادہ اپنے دیگر ہم منصبوں کا جینا دو بھر کرنا چاہتا تھا اور اس بندر کی چالاکیوں اور شرارتوں سے واقعی اس بدمعاش شہزادے کی دلی مرادپوری ہوتی رہتی تھی ۔کوئی اس شریر بند ر کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا۔شہنشاہ معظم بھی شہزادے اور بندرکی حرکتوں سے محظوظ ہوتے رہتے تھے اور اس قدر ان کو شہزادے اور بندر کی ادائیں بھائیں کہ شہنشاہ معظم نے شہزادے کو باقاعدہ الگ سے ایک اچھی خاصی رقم دینی شروع کردی تاکہ حظ اُٹھانے کی شدت میں اضافہ ہوتارہے۔اپنے بندر کی شرارتوں پر مفخّر شہزادہ شہنشاہ کے اس التفات کے باعث اچھا خاصابہک گیا بلکہ زا ئد الاعتمادی کا شکا رہو گیاچناں چہ شہزادے نے فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ خود شہنشاہ معظم کو تختۂ آزار بنایا جائے سو اس نے بندر کو حکم دیا کہ قصرِ شہنشاہی کوہدف بناؤ۔بندر نے حکم کی تعمیل بحسن و خوبی انجام دی ‘شہنشاہ کا قیمتی گل دان توڑ دیا ‘ان کے توشہ خانے میں ایک ہڑبونگ برپا کر دی اور ایسی اتھل پتھل مچا دی کہ الحفیظ و الامان !شہنشاہ معظم نے دربار سے دیوان خانے آکر جو یہ تباہی دیکھی تو غصے سے لال پیلے ہو گئے ‘منہ سے جھاگ بہنے لگی اور دھاڑتے ہوئے بندر کے فی الفور قتل کا شاہی حکم جاری کر دیا۔شہزادے کو قطعاًحالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔تاہم جب بات بہت بڑھ گئی اور شہنشاہ نے ہر قسم کا وظیفہ موقوف کرنے کی دھمکی دے دی تو شہزادے نے بندر کو گھنے جنگل میں فوری طور پر روپوش ہونے کا مشورہ دیا ۔بندر جنگل چلا گیا‘شہزادے نے شہنشاہ کو لکھوا بھیجا کہ بندر گھنے جنگلوں میں روپوش ہو گیا ہے اور اس علاقے میں بندر کو اس لئے تلاش نہیں کیا جا سکتا کہ وہاں اس کی عملداری کمزور ہے ‘اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ گھنے جنگلوں میں بندر کی تلاش کا مشکل کام سر انجام دے سکے ‘ اس پر شہنشاہ نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دئے اور اپنی فوجیں بھی بھجوا دیں اور شہزادے کو حکم دیا کہ ان افواج کی سرکردگی میں فوری طور پر گھنے جنگلوں میں بندر کی تلاش شروع کی جائے اور ہر حال میں اس کا خاتمہ یقینی بنایا جائے ۔چاروناچار شہزادے کو بادلِ نخواستہ بندر کی تلاش میں شہنشاہ کی فوجوں کے ساتھ گھنے جنگلوں کا سفر اختیار کرنا پڑا ‘فوج بندر تلاش کرنے میں بالآخر کام یاب ہو گئی ‘انہیں بندر ایک اونچے درخت پر بیٹھا مل ہی گیا ۔انہوں نے فوری طور پر شہزادے کو خبر کر دی شہزادہ نے جب دیکھا کہ فوجیں بندر کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو سخت دل گرفتہ ہوا تاہم دل شکستہ نہیں ہوا ‘شہنشاہ کے عساکر کے اعلیٰ افسر نے بندر کو گولی مار نے کا حکم دیا لیکن شہزادے نے اسے حکمت عملی کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ یہ مناسب فیصلہ نہیں ‘بہتر یہ ہوگا کہ پہلے درخت کو کاٹ دیا جائے ۔ادھر شہنشاہ کو شہزادے نے مراسلہ بھجوا دیا کہ مبارک ہو !شریر بندر کا اتاپتا مل گیا ہے اور وہ جس درخت پر بیٹھا ہے اس کے کاٹنے کا انتظام ہو رہا ہے لہٰذا ان حالات کے پیش نظر وسائل کی مزیدفراہمی پر غور کیا جائے یہ اور اسی قسم کی دیگر باتو ں سے ایک اچھاخاصا دفتر بنا کر شہنشاہ کو تواتر سے بھجوایا جانے لگا ادھر بندر ایک درخت سے دوسرے درخت پرپھلانگتا رہا ۔شہنشاہ کی فوج نے درختوں کو کاٹ کاٹ کر پورے جنگل کا حلیہ بگاڑ دیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پورے جنگل کو گنجا ہی کر دیااس صورتِ حال میں جنگل سے نایاب پرندے نقل مکانی کرنے لگے ‘جانووروں کو شہنشاہ کی فوج ذبح کر کے خوراک کی کمی پوری کرتی رہی ‘شہزادے کی سفارش پر نقد رقوم اور دیگر وسائل فراہم ہوتے رہے ‘ہوتے ہوتے اس اثنا میں آٹھ برس بیت گئے ۔اب شہنشاہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا ۔اس نے ایک آخری خط شہزادے کو لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر جلد ہی بندر کا خاتمہ نہ کیا گیا تو شہنشاہ کو خود آنا پڑے گا ۔یہ دھمکی بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی سو شہنشاہِ معظم خود عازم جنگل ہوئے جنگل پہنچنے پر انہوں نے افواج کی قیادت خود سنبھالی اور بندر کے گرد گھیرا تنگ کردیا اور ساتھ میں شہزادے سے اس رقم کی تفصیل اور حساب مانگا جو بندر کے خلاف اس مہم پر خزانۂ شاہی سے صرف ہوئی تھی ‘شہنشاہ کی خوشنودی کا ایک آخری حربہ شہزادے کو یہ سوجھا کہ اس نے پورے جنگل میں آگ لگوا دی ‘جنگل کی آگ پورے علاقے میں پھیل گئی ‘دھویں کے بادل دور دور سے نظر آنے لگے ‘ایک دھواں تھا جس نے بینائی کو مفلوج کر دیا ‘اور یہ دھواں جب رخصت ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ دور پہاڑ کی چوٹی پر شریر بندر شہزادے کے کاندھے پر بیٹھا خوخیا رہا تھااور شہزادہ بندرسے اٹھکھیلیوں میں مصروف تھا‘لوگوں نے جب بندر کو شہزادے کے کاندھے پر سوار دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے اس پر شہزادے نے ایک فلک شگاف چیخ میں کہا کہ اسے یہ بندر ہر کسی سے پیارا ہے اور وہ کبھی بھی اس بندر کو کسی کے ہاتھوں ختم ہونے نہیں دے گا۔شہزادے نے یہ کہا اور پہاڑ کی دوسری جانب اتر گیا‘‘۔
کہانی اگرچہ یہاں پر ختم کر دی گئی ہے مگر اصل کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے ‘یعنی اس جنگل کے نذرِآتش ہونے کے نقصانات کی روداد۔ویسے اس کہانی کا نتیجہ ہی اصل کہانی ہے اور اس کا انحصار کہانی کے قاری پر ہے کہ وہ اخذ کیا کرتا ہے ؟

Tuesday 29 October 2013

میڈیا کی برکات۔ اور کچھ بیاں اپنا

                 یہ اس وقت کی بات ہے جب آج سے قریباً ایک عشرہ قبل بسلسلۂ روزگار ہمیں ایک ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہونا پڑا، غریب الدیاری اور خواری(مؤخر الذکر لفظ پشتو اور فارسی دونوں کا سمجھا جائے) کی ایک الگ ہی کہانی ہے اسے پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں ، اس وقت ہماری زبان کا کوئی چینل ہی نہیں تھا ( ابھی حال ہی میں ایک دوسرا چینل کھلا ہے لیکن اس چینل کے آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے کوئی نظر ہی نہیں آتا) اس پر چینل کے مالک کی شدید خواہش تھی کہ اس چینل میں حالات حاضرہ اور نیوز کا بھی شعبہ ہونا چاہئے ، چناں چہ ایک مسئلہ ہمیں درپیش تھا اور وہ یہ کہ ہم نے سب کچھ شروع کرنا تھا اور وہ بھی زیرو سے-
               چینل کے مالک نے ہمیں ایک میٹنگ کے لئے بلوایا ، ایک دوسرے تجربہ کار صحافی جنہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا اور ہمارے چینل کے ڈائریکٹر نیوز تھے وہ بھی موجود تھے، انہوں نے ہم دونوں کے سامنے ایک سوال رکھا کہ پالیسی کیا ہونی چاہئے ؟ہم نے اپنے ڈائریکٹر کی طویل تقریر سنی ، بڑے علمی اور تہذیبی نکات کا عمیق جائزہ انہوں نے نہایت ہی سادہ انداز میں چینل کے مالک کے سامنے رکھ دیا، ان کی باری ختم ہوئی تو محترم مالک نے ہم سے استفسار کیا  ہمارے پاس دلائل و براہین کا وہ قاموس تو نہیں تھا جو ہمارے ڈائریکٹر کے پاس تھا البتہ ہم نے خود مالک سے یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ پالیسی کی ضرورت ہی کیا ہے ؟کیا اس حوالے سے انہیں سرکاری طور پر کوئی ہدایت موصول ہوئی ہے یا وہ خود کسی خاص قسم کی سوچ اس چینل کے ذریعے پروان چڑھانا چاہتے ہیں ؟ہمارے اکھٹے ان سوالات مع تأثرات پر انہیں حیرت ہوئی اور کہنے لگے کہ ابلاغ کے ہر ذریعے کی کوئی پالیسی ہوتی ہے ، ہم نے کہا کہ ایسا سابقہ سویت یونین کے زمانے میں ہوا کرتا تھا ، آزادئ اظہار کے سب سے بڑے وکیل امریکہ اور اس کے حلیفوں نے مختلف حیلوں اور بعض ممالک میں قوانین کے ذریعے ابلاغ کے آزاد ذرائع کا ناطقہ بند کر رکھا تھا ، اور جو اخبارات و جرائد سویت یونین کی طرف معمولی جھکاؤ کا بھی اظہار کردیتے تھے انہیں پراپیگنڈا مشین قرار دیا جاتا تھا ، اور پھر سرکاری مراعات یافتہ میڈیا اس اخبار یا جریدے کا کوئی ایسا نقشہ کھینچتے کہ معلوم ہوتا کہ یہ کوئی شیطانی منصوبہ ہے یا رسالے اخبار وغیرہ کا ایڈیٹر گوئبلز کا کزن ہے ، ان معروضات کا اثر خاطر خواہ ہوا ، پوچھنے لگے کہ پھر کیا کیا جائے ، ہم نے گزارش کی کہ پالیسی کی ضرورت ہی نہیں ، ہم نے سچ ہی کو فروغ دینا ہے ، عوامی مفادات کا خیال رکھنا ہے اور کھرے کھوٹے کی تمیز بتانی ہے اس کے لئے کسی پالیسی کی ضرورت نہیں ، انسان اس درجہ پرترقی کر چکا ہے کہ اب برے بھلے کی تمیز کرنے کے لئے سقراط کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہی ، بچہ بچہ سمجھتا ہے کہ فلاں کام کے پس پشت کیا عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں ، چناں چہ یہ طے پایا کہ کوئی پالیسی ہی نہیں ہوگی ، جو بھی ہوگا خلوص نیت سے ہوگا اور عوامی مفاد کو ہر مفاد پر مقدم رکھا جائے گا-
             سچائی بھی یہی ہے ، سویت یونین کے خاتمے کے سو نقصانات ایک طرف اور یہ فائدہ دوسری طرف کہ اس عظیم تحلیل ریاست نے آزادئ اظہار کی راہ ہموار کر دی ، ہمارے پرانے رفقائے کار ، سرکاری ملازمین اور حکومتی میڈیائی ذرائع سے منسلک صحافت کاروں کے نزدیک اس بات کی اہمیت مشکوک ہو یا ان کے نزدیک پالیسی کا وجود ازبس ضروری ٹھہر سکتا ہے لیکن اب دنیا 1991ء سے بہت آگے نکل چکی ہے ،ذرائع ابلاغ کا ایک کردار متعین ہوچکا ہے اور ان کے کردار کے اثرات بد کی وجہ سے اس تعین کی سمت واضح نہیں ہوپا رہی گویا یہ نو دریافت کرداری تعین بھی مسلسل ارتقا کے مراحل سے گزر رہا ہے ، ابلاغ کا ہر ذریعہ مختلف تجربوں کے ذریعے غلطیوں سے سیکھ رہا ہے ۔ہمارے خیال میں ابلاغ کے کسی بھی سوتے کی کوئی پالیسی نہیں ہونی چاہئے سوائے ایک پالیسی کے اور وہ ہے ملازمین کے تقرر کی ، ان کی اہلیت کے معیار کی ، اور ان کے علم و دانش اور آگہی کی ۔
               یہی دیکھ لیں کہ آج کل ہر نیوز چینل شیخ رشید کو نہایت ہی پرائم اوقات میں دل کی بھڑاس نکالنے کا بھرپور موقع فراہم کرر ہے ہیں اور جناب شیخ بھی ایسے طرز عمل کا مظاہر ہ کر رہے ہیں کہ جیسے ان کے پاس پاکستان کے تمام مسائل کا حل موجود ہے ، اور یہ کہ پاکستان کے ہر مسئلے کا جتنی باریک بینی سے انہوں نے مطالعہ کر رکھا ہے اس قدر علم یہاں کے اداروں اور جامعات کے پاس بھی نہیں ، گویا ہر نوعیت کی سیاسی دانش شیخ رشید کے گھر کی لونڈی ہے ، سوائے ایک طلعت حسین کے جنہوں نے اپنے ایک پروگرام میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اس ملک کی ذہنی پستی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ بڑے بڑے سیاسی دماغوں کی بجائے تمام چینل شیخ رشید کو دن رات سر پر اٹھائے پھرتے ہیں 
             الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے چند سال پیشتر اس رائے کا اظہار ہم نے کیا تھا ہمارے ہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ صحافت کا شوبزنس ہے اسے ٹی وی جرنلزم نہیں کہا جاسکتا ، یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ٹی وی چینلوں نے راتوں رات مشہور صحافیوں کو جنم دیدیا ہے ، جن لوگوں نے اپنی زندگی میں کسی جلوس کی رپورٹنگ نہیں کسی پریس کانفرنس میں نہیں بیٹھے وہ لوگ اچانک نجانے کہاں سے پیراشوٹ کے ذریعے نیوز چینلوں پر سیاست دانوں سے سیاست کی باریک بینیوں پر سوالات پوچھتے رہتے ہیں اور وہ ابھی اس قسم کے اول فول کے ابکائی اور متلی کی سی کیفیت ہوجاتی ہے ، اس پر بھی مستزاد یہ کہ نیوز ریڈروں کو اینکرز بنا دیا گیا ہے ، نہ انہیں کسی سیاسی پارٹی کی تاریخ کا پتہ ہوتا ہے نہ ملکی سیاست کی تاریخ کی سمجھ ہوتی ہے نہ ہی ملکی آئین و قوانین سے کسی قسم کی واقفیت لیکن بھلا ہو پی آر بینک کا جس نے پاکستان میں اس قدر برانچیں کھول رکھیں ہیں کہ ہر قسم کے لوگ نیوز ریڈر سے اینکر ، اینکر سے دانشور اور اب فلاسفر بنتے جارہے ہیں ،ٹی وی پر آ موجود ہونے والے ایسے ماہرین سوات کا کیا ذکر کریں جو سوات کو ساوات کہتے نہیں تھکتے ، ہر چینل کے حالات حاضرہ کے پروگرام کرنے والوں کے پاس ایسے ’’دانشوروں‘‘ کا ایک فہرست ہوتی ہے جنہیں سحری سے لے تہجد تک کے سارے وقت میں کسی بھی وقت بلایا جا سکتا ہے ، اور ان ماہرین کی مصروفیات میں کوئی خلل بھی واقع نہیں ہوتا ۔
            ایک حضرت ہیں جو ڈاکٹر کہلاتے ہیں لیکن اتنا چیختے ہیں اتنا چیختے ہیں کہ ان کی دماغی صحت پر شک ہو جاتا ہے ، صنف نازک کے حسن و جمال اور پیکر کے شیدائیوں نے ایسی خواتین اینکرز کو بھی اس میدان میں لا بٹھایا ہے جن کا نہ تو صحافت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس ملک کے عمومی مسائل کا ان پر کوئی اثر مرتب ہوتا ہے ، یہ بات الیکٹرانک میڈیا تک محدود نہیں ، اخبارات کے صفحات کیا زیادہ ہوئے ان کا پیٹ بھرنا اور بھی مشکل ہوگیا ، جو لوگ پروف ریڈر تھے وہ اداریہ نویس و کالم نویس بن گئے چلئے کسی طور ایک مقام پر اس دلیل کا استحکام متاثر ہوسکتا ہے ، لیکن ہومیوپیتھک ڈاکٹروں ، بیمہ ایجنٹوں اور حکیموں کے ساتھ ساتھ ایسے ہی پیشوں سے وابستہ لوگ بھی اب کالم نویسی کا شغل فرمانے لگے ، پہلے زمانے میں اخبارات کے ادارتی صفحے پر ایک آدھ کالم ہوتا تھا لیکن آج کل ایسی الٹی گنگا بہنے لگی ہے کہ جس نے دس سطریں کھینچیں بس وہ تصویر کے ساتھ جناب مدیران کرام کالم کی صورت شائع کر دیتے ہیں ، پھر سکولوں سے وابستہ اساتذۂ کرام کی ایک وافر تعداد بھی اس کار خیر میں مصروف ہے ، ان کا مطمح نظر یہ ہوتا ہے کہ جیسے تیسے ہیڈ ماسٹر کو اپنی اخباری سرگرمی سے کنٹرول کیا جاسکے ، ایسے حالات میں اچھا بھلا انسان بھی حسن نثار جتنا مایوس ہو سکتا ہے ۔ان میڈیائی دانشوروں کی بصیرت افروزیوں کی داستان ختم نہیں ہوئی ۔ یا ر زندہ صحبت باقی !!