حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Wednesday 25 January 2012

مسیح الافاغنہ



پچھلی صدی کے اوائل میں ٹیگور اور کپلنگ دونوں ہی نے اپنی تحریروں میں پختون کرداروں کا ذکر کرتے ہوئے ان کرداروں کو جذباتی طور پر آسانی سے مشتعل ہونے والے پُر جوش انسانوں کے روپ میں پیش کیا تھا۔(1)ہماری پختون قوم کی حساس اور پُر جوش فطرت کی منفیت کے متعدد حوالے کئی ایک دیگر کتابوں میں بھی ملتے ہیں۔مثال کے طور پرباچا خان کی عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کے بارے میں مشہور کتاب Thrown to the Wolves کے مصنف پیارے لال نے اپنی اس تصنیف میں فیلڈنگ کنگ ہال کی کتاب Thirty Days of Indiaسے درج ذیل اقتباس نقل کیا ہے،

"One Pathan was sitting on the ground listening intently to a radio broadcasting programme while his neighbour continued to chatter. The first man told the talker to shut up, but the later observed that he had as much right to speak as 'that loud mouth over there'. The radio fan promptly switched off the human 'loud speaker' by sticking a knife into his ribs"(2)

یعنی ایک پٹھان بڑے غور سے ریڈیو سن رہا تھا جبکہ اس کا پڑوسی مسلسل بول رہا تھا۔ اس نے اپنے پڑوسی سے خاموش ہونے کو کہا لیکن پڑوسی بولا کہ بات کرنے کا حق اسے بھی ریڈیو جتنا ہی ہے۔ اس پر ریڈیو سننے والے نے اسے پسلیوں میں چاقو گھونپ کر چپ کرا دیا۔

تاہم پختونوں کی فطرت اور عادات کی دل چسپ ترین تفصیلات ہمیں ان خفیہ رپورٹوں اور سرکاری خط و کتابت میں ملتی ہیں جو برطانیہ کی انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ ہیں۔ان کی چند جھلکیاں ہم خان عبدالولی خان کی کتاب   “باچا خان اور خدائی خدمتگاری یا اسی کتاب کے انگریزی ترجمے The Struggle and the Aftermath میں دیکھ چکے ہیں۔اس کتاب میں نقل کی گئی ایک لائن تو خصوصاً کافی دل چسپ ہے اور موجودہ حالات سے مربوط بھی!یہ لائن اس خط سے لی گئی ہے جو دس نومبر سن انیس سو تیس کو وائسرائے لارڈ ارون نے اس وقت کے وزیرِ ہند کو لکھا تھا،

"This corner of the earth is as troublesome as it is tiny and occupies a share of my attention and no doubt yours also out of all proportions to its size" (3)

 ا س خط میں وائسرائے صاحب وزیرِ ہند کو بتا رہے تھے کہ کرہ ارض کا یہ حصہ اپنے رقبے کے اختصار کے باوجود ان کے لئے نہایت مصیبت خیز ہے اور اس مختصر رقبے کے مقابل ان کی توجہ اس نے کچھ زیادہ ہی حاصل کر رکھی ہے ۔جب یہ خط لکھا گیا تھا تو اس وقت باچا خان کو عدم تشدد کا فلسفہ اختیار کئے ہوئے دس برس جبکہ اپنی قوم کی اصلاح کے لئے انہوں نے جو تحریک آغاز کی تھی اس کو بیس سال بیت چکے تھے۔آج سے تقریباً اٹھارہ برس بعد اس خط کو تحریر ہوئے ایک صدی مکمل ہو جائے گی لیکن کرہ ارض کا یہ حصہ اپنے رقبے کے تمام تر اختصار کے باوجود آج بھی بیرونی دنیا کے لئے مصیبت خیز ہے اورعالمی توجہ کا بھی ایک بڑا حصہ بدستور اسی پہ مرکوز ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ پچھلی صدی کے ابتدائی برسوں میں ہمارے نو آبادیاتی حکمرانوں کے لئے وجہ ءپریشانی عدم تشدد کا وہ فلسفہ تھا جس کے باچا خان نہ صر ف حامی تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی اس کا پرچار کرتے تھے بلکہ عملاً بھی نہایت پُرجوش طریقے سے انہوں نے اسے اختیار کر رکھا تھا، جبکہ آج ہم ایسے حالات میں جی رہے ہیں کہ جہاں تشدد ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔

عدم تشدد، امن پسندی، اہنسا اور حالیہ ترین عدم مقاتلے کے نظریات کی حمایت اور ان کا دفاع کرنے والے تو ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں لیکن انہی نظریات پر سختی سے عمل کرنے والوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے۔پختون قوم کی خوش قسمتی یہ ہے کہ عدم تشدد کے فلسفے کے پرجوش ترین پرچارک اور اسی پرسختی سے کاربند رہنے والے عظیم انسان نے انہی کے بیچ جنم لیا تھا۔باچا خان کا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا لیکن ان کا دل عوام اور محروم طبقات کے لئے احساس سے پُر تھا۔اسی لئے تو انہوں نے خود بھی ان ہی میں سے ایک ہونا چن لیا تھا۔انہوں نے کبھی بھی خود کو کسی سٹیج یا منبر تک محدود نہیں رکھا جہاں سے وہ صرف ان مقاصد کی زبانی خدمت ہی کر سکتے ہیں جن کے لئے اپنی قوم کو بیدار کرنا ان کا مشن تھا۔ہمیشہ انہوں نے اپنے لوگوں کے قریب جا کر عملاً انہیں اپنی بات کا ابلاغ کرانا چاہا۔اس ضمن میں ایک واقعہ جو خان عبد الولی خان نے اپنی محولہ بالا کتاب  میں بیان کیا ہے، خصوصاً قابلِ ذکر ہے۔ولی خان لکھتے ہیں کہ اپنے سیاسی کیرئیر کی ابتداءمیں انہیں ایک ہزار ساتھیوں سمیت کرک کا دورہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔موسم سخت گرم تھا اور انہیں یہ دورہ پیدل ہی کرنا تھا۔جو علاقے ان کے دورے کے لئے چنے گئے تھے وہ نہایت رتیلے تھے اور مہینہ بھی رمضان کا تھا۔یعنی انہیں بنا کچھ کھائے پئے صبح سے شام تک گرمی میں تپتی ریت پر چلتے ہوئے جانا تھا۔ولی خان نے لکھا ہے کہ سفر کے دوسرے روز ہی ان کے پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے اور وہ چپل پہننے سے معذور تھے۔چنانچہ تپتی ریت پر انہیں ننگے پاں چلنا پڑ رہا تھا۔ایک دن طویل اور تھکادینے والے سفر کے بعد وہ ایک گاں پہنچے اور وہاں کی مسجد کے قریب رک گئے۔ مسجد میں ایک درخت کے نیچے چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ ولی خان تھکن سے چور تھے چنانچہ وہ کراہتے ہوئے اس چارپائی پہ لیٹ گئے۔ان کے خدائی خدمتگار ساتھی نے جو ان کی یہ حالت دیکھی تو انہیں بتایا کہ انہیں یاد ہے کہ ایک بار ایسے ہی موسم میں اور ایسی ہی حالت میں باچا خان اسی گاوں کی اسی مسجد پہنچے تھے لیکن یہاں جیسے ہی وہ بیٹھے تو انہیں سامنے پہاڑ پر دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔ باچا خان نے امامِ مسجد سے پوچھا کہ کیا پہاڑ پر کوئی گاں ہے؟امام مسجد نے جواب دیا کہ نہیں صرف ایک ہی گھر ہے جہاں ایک آدمی اکیلا رہتا ہے۔ باچا خان فوراً اس شخص سے ملنے کو تیار ہو گئے۔ امام مسجد نے انہیں بہتیرایقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ شخص جمعے کی نماز پڑھنے جب آئے گا تو اسے ان کا پیغام پہنچا دیا جائے گالیکن باچا خان کا اصرار تھا کہ وہ ذاتی طور پر اس آدمی سے ملیں گے۔(4) اپنے لوگوں تک اپنا پیغام ذاتی طور پر خود پہنچانے کے لئے ان میں اس قدر جذبہ پایا جاتا تھا۔

جلسے جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں میں جہاں حکام کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج کا حکم ہوتا تو وہ لاٹھیاں سہنے ہجوم میں وہ بھی موجود ہوتے۔جب کبھی بھی گرفتاریوں کی لہر اٹھی تو گرفتار شدگان میں اولین نام انہی کا ہوتا۔ان کی قامت کے کسی رہنماکی گرفتاریاں اور اسیری کے عرصے اتنے تکلیف دہ نہیں رہے جتنے ان کے تھے۔ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران مردان کے قریب ایک احتجاجی مظاہرے سے انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری سے قبل انہیں شدید زدو کوب کا نشانہ بنایا گیا ۔ انہیں شدید زخم آئے تھے اور پسلیاں بھی ان کی ٹوٹ گئی تھیں۔(5)وہ انسان جو دنیا کو عدم تشدد کا درس دے رہا تھا خود اسے ہی تشدد کی بد ترین صورتوں کا نشانہ بنایا گیا ۔

جب ان کی پہلی گرفتاری عمل میں آئی تو انہیں ہتھکڑی باندھ کر چارسدہ سے پشاور پیدل  جیل لے جا یا گیا اور جتنے عرصے تک وہ قید رہے تو انہیں بیڑیاں پہنائے رکھی گئی  تھیں جیل والوں کے پاس ان کے ناپ کی بیڑیوں کی کوئی جوڑی نہیں تھی ۔جو جوڑی ان کے لئے چنی گئی تھی اس سے ان کے پیر سخت زخمی ہو گئے تھے۔جب وہ انہیں پہنائی جا رہی تھی تب بھی ان کی ایڑیوں سے اوپر والے حصے سے کافی خون بہا تھا۔انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ جلد ہی اس کے عادی ہو جائیں گے۔ (6)جس کوٹھڑی میں انہیں رکھا گیا تھا وہ نہایت بدبو دار تھی۔رفع حاجت کے لئے زمین میں ہی ایک گڑھا کھودا گیا تھا جو کناروں تک غلاظت سے بھرا ہوا تھا۔جب انہیں وہاں لے جایا گیا تو انہوں نے فوراً ہی باہر نکل کر پولیس والے کو بتایا کہ اندر شدید بدبو ہے۔پولیس والے نے انہیں اندر دھکیل کر دروازے کو تالا لگا دیا۔کھانا انہیں سلاخوں کے پار سے دھکیل کر دیا جاتا تھا۔ اس کوٹھڑی کی مسلسل نگرانی کی جاتی تھی تاکہ باہر سے کسی کو باچا خان سے رابطے کا کوئی موقع نہ میسر آ جائے۔(7)

باچا خان کے طرزِ عمل کی ان مثالوں سے ان کے پیروکاروں کو خاکِ وطن کے لئے جانی قربانی سے بھی دریغ نہ کرنے کی تحریک ملی۔تیئس اپریل سن انیس سو تیس کے واقعات خدائی خدمتگاروں کی بے غرض خدمات اور قربانیوں کا ایک روشن ثبوت ہیں۔ینگ انڈیا سے لئے گئے درج ذیل اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ اس سیاہ دن پختونوں سے کس قدر انسانیت سوز سلوک کیا گیا تھا،
"A troop of English soldiers reached the spot and without any warning to the crowd began firing into the crowd in which a number of women and children were present. When those in front fell down, those behind came forward with their breast bared and exposed themselves to the fire. Some people got as many as 21 bullet wounds. [Still] all the people stood their ground without getting into panic…An old woman seeing her relatives and friends being wounded came forward [but] was shot and [she] fell wounded An old man with a four years old child on his shoulder unable to brook this brutal slaughter advanced asking the soldier to fire at him. He was taken at his word and he too fell down wounded. The crowd kept standing at the spot facing the soldiers and was fired at from time to time until there was heaps of wounded and dying lying about. The Anglo-Indian paper of Lahore, which represents the official view itself wrote to the effect that the people came forward one after another to face the firing and when they fell wounded they were dragged back and others came forward to be shot at. This state of things continued from 11 to 5'o clock in the evening. When the number of corpses became too many the Ambulance cars of the Government took them away."(8)
فرنگی سپاہیوں کا ایک جتھہ موقعے پر پہنچا اور بغیر کسی انتباہ کے اس نے اس ہجوم پر گولیاں برسانی شروع کر دیں جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ سامنے کی صف والے جب گر گئے تو اس سے اگلی صف والے گریبان کھول کر گولیاں کھانے آگے آ گئے۔کچھ لوگوں کو تو اکیس گولیاں تک لگ گئیں۔اس کے باوجود بھی لوگ اپنی جگہ پر کھڑے رہے تھے اور کوئی افرا تفری نہیں مچی تھی۔ایک معمر خاتون نے جو اپنے رشتہ داروں اور احباب کو زخمی ہو کر گرتے دیکھا تو آگے آئی لیکن اسے بھی گولی مار دی گئی اور وہ بھی زخمی ہو کر گر پڑی۔ایک معمر آدمی جس نے کندھوں پہ ایک چار سالہ بچے کو اٹھایا ہوا تھا اس سے یہ بربریت برداشت نہ ہوئی تو آگے آیا اور سامنے کھڑے سپاہی سے کہنے لگا کہ اسے بھی گولی مار دی جائے۔ اس کی خواہش فی الفور پوری کر دی گئی اور وہ بھی زخمی ہو کر گر پڑا۔موقعے پر موجود لوگ مسلسل آگے آکر گولیاں کھا رہے تھے اور سپاہی بھی ان پر مسلسل گولیا ں برسائے جا رہے تھے حتیٰ کہ وہاں زخمیوں اور لاشوں کا ایک انبار بن گیا ۔ لاہور کے سرکاری ترجمانی کرنے والے اینگلو انڈین پرچے نے بھی یہی لکھا ہے کہ لوگ یکے بعد دیگرے فائرنگ کے سامنے آ رہے تھے اور جب وہ گر جاتے تو انہیں گھسیٹ کر ایک طرف کر دیا جاتا اور ایک نئی قطار آگے آ جاتی۔ یہ صورتحال صبح گیارہ سے شام پانچ بجے تک جاری رہی۔ جب لاشوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تو سرکاری ایمبولینسوں میں انہیں اٹھا لیا گیا۔

اٹھارہ برس بعد اور تقسیم کے اگلے ہی برس یہی منظر بابڑہ میں دہرایا گیا۔اسی تنظیم کے وفادار اپنے اسی قائد کی گرفتاری پر احتجاج کر رہے تھے اور ان کے ساتھ پھر وہی سلوک دہرایا گیا۔بابڑہ کے اس مظاہرے میں خواتین بھی قرآن سروں پر اٹھائے یا سینوں سے لگائے شامل تھیں۔(۹)تاہم اس بار ان پر گولی چلانے کا حکم نو آبادیاتی حکمرانوں نے نہیں دیا تھابلکہ آزاد وطن کے نئے حکمران اپنے نو آبادیاتی آقاں کے نقشِ قدم پر چل رہے تھے۔انہوں نے اس المناک واقعے پر پردے ڈالنے کی پوری کوشش کی اور نتیجہ یہ ہے کہ آج سانحہءبابڑہ تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو چکا ہے۔
باچا خان اور ان کے ساتھیوں نے حریت اور آزادی کے لئے کبھی بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔تاہم المیہ یہ ہے کہ ان کی تمام بے غرض کاوشوں اور قربانیوں کے صلے میں انہیں مزید اور شدید تر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بابڑہ کے میدان میں نئے حکمرانوں نے جو سلوک ان کے ساتھ کیا اس سے ثابت ہوتا تھا کہ تقسیم کے بعد کی زندگی خدائی خدمتگاروں کے لئے اور بھی اجیرن ہونے والی ہے۔وجہ اس کی ظاہر تھی۔ تقیم سے قبل کانگرس کے حلیف تھے اور نئی ریاست میں ان کی تمام تر مخلصانہ یقین دہانیوں کے باوجود بھی انہیں ریاست کے وفادار تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا۔

آزادی کے کئی برس بعد Thrown To The Wolvesکے مصنف کو لکھے ایک خط میں باچا خان فرماتے ہیں،
"Considerations of personal harm have never weighted with me. What saddens me is that while we shrank from no sacrifice for the sake of India's independence, the Congress on attaining it forsook us. They gave themselves upto enjoyment while we were left to suffer alone. We are still dubbed 'Hindus'. This was unbecoming of the Congress"(10)

ذاتی نقصان کی پروا میں نے کبھی نہیں کی لیکن جو بات مجھے دلگیر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے کوئی قربانی دینے سے اگرچہ ہم نے کبھی کوئی دریغ نہیں کیا لیکن جب یہ آزادی حاصل ہوئی تو کانگرس ہمیں بیچ منجدھار چھوڑ گئی۔خود تو وہ (آزادی کے) مزے لیتے رہے اور ہمیں سب تکالیف جھیلنے انہوں نے تنہا چھوڑ دیا۔ہمیں آج بھی ”ہندو“ کہا جاتا ہے۔ یہ کانگرس کے شایانِ شان نہیں تھا۔

اپنے لوگوں کی بدحالی نے باچا خان کو اپنی تلخی کے اظہار پر مجبور کر دیا تھا۔یہ ایک ایسے شخص کے الفاظ تھے جسے خدشہ تھے کہ جن لوگوں نے اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جانیں گنوائی ہیں ان کی قربانیاں تسلیم کرنے سے کہیں ا نکار نہ کر دیا جائے۔

باچا خان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اپنے دیگر ہم عصر مسلمان قائدین کے بر عکس ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھنے اور ایک مومن با عمل ہونے کے باوجود ان کی چال ڈھال اور شخصیت میں خود نمائی یا تعلی کاکوئی عنصر نہیں تھا۔ان کے لئے مذہب عقیدوں کا کوئی پلندہ نہیں تھا کہ جس کو سیاسی مقاصد کے لئے جس طرح چاہے استعمال کر لیا جائے۔انہوں نے مذہب کا مطالعہ کر رکھا تھا اور اپنی زندگی کے لئے اسباق انہوں نے اسلام کے اولین دور سے لئے تھے کہ جب مسلمانانِ مکہ کو شدید تر ین تشدد کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن جواباً انہوں نے کبھی پُر تشدد ردعمل کی راہ نہیں اپنائی۔ باچا خان اچھی طرح سے جانتے تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی انہوں نے یہی بتایا تھا کہ

"There are two ways to national progress: one is the path of religion and the other is the road to patriotism. If we are on the road to ruin, it is because we have neither the true spirit of religion, nor the true spirit of patriotism, of love for our nation, nor have we developed any social consciousness."(11)

قومی ترقی کے دو راستے ہیں۔ ایک مذہب اور دوسرا وطن پروری کا۔اگر آج ہم تباہی کی راہ پر ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں نہ تو مذہب کی اصل روح موجود ہے اور نہ ہی وطن پروری یعنی قوم کے لئے محبت کی اور نہ ہی ہم نے خود میں سماجی بیداری کی کوئی سعی کی ہے۔

جہاں غیر کانگرسی مسلمان رہنماءبراہِ راست یا بالواسطہ طور پر مذہبی تفرقات پر زور دے کر تشد د کو بڑھاوا دے رہے تھے وہیں باچا خان کی پر جوش کاوشیں اس امر پر مرکوز تھیں کہ کسی طوران کی قوم اس قابل ہو جائے کہ اپنے اس الٰہی ہتھیار کو دوبارہ ہاتھ میں لے لے جسے وہ ایک عرصے سے فراموش کئے ہوئے ہے۔ یہ ہتھیار صبر کا ہتھیار تھا۔اپنے عوام کے لئے ان کا پیغام تھا

"I am going to give you such a weapon that the police and the army will not be able to stand against it. It is the weapon of the Prophet (Peace be upon him), but you are not aware of it. That weapon is patience and righteousness. No power on earth can stand against it. When you go back to your villages, tell your brethren that there is an army of God and its weapon is patience. Endure all hardships. If you exercise patience, victory will be yours."(12)

میں تم لوگوں کو ایک ایسا ہتھیار دینے جا رہا ہوں جس کے سامنے کوئی پولیس یا فوج کبھی ٹھہر نہیں سکے گی۔یہ رسول اللہﷺ کا ہتھیار ہے لیکن تم لوگ اس سے واقف نہیں ہو۔یہ صبر اور تقویٰ ہے۔دنیا کی کوئی طاقت اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ تم لوگ جب واپس اپنے دیہات جا تو اپنے بھائیوں کو یہ ضرور بتانا کہ خدا کی ایک فوج ہے جس کا ہتھیار صبر اور تحمل ہے۔تمام مصائب اور مشکلات برداشت کروکیونکہ اگر تم صبر کرو گے تو فتح یقینا تمہاری ہی ہو گی!

یہ وہ پیغام ہے جو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دینا چاہئے۔احساسِ ذمہ داری کا مادہ رکھنے والے اسے ضرور قبول کریں گے۔

حوالے:

 ۱) ٹیگور کے افسانے کابلی والا میں پختون کردار کا نام رحمت جبکہ کپلنگ کے ناول کم میں پختون کردار کا نام محبوب علی تھا۔
۲) پیارے لال،تھرون ٹو دی وولوز، عبدالغفار خان :ایسٹ لائٹ بک ہاس، کلکتہ ، ،1966 ۔ص27
۳) خان عبدالولی خان، باچا خان اور خدائی خدمتگاری(تقسیم ِ ہند یا تقسیمِ مسلمان): باچا خان سینٹر، پشاور، 2009 ۔ص56
۴)خان عبدالولی خان، ص ص 177-178
۵)فارغ بخاری، تحریکِ آزادی اور باچا خان: فکشن ہاس ، لاہور، 1999۔ص156
۶)خان عبدالغفار خان، زما ژوند اوجدوجہد: کابل دولتی مطبع، کابل، 1981،ص 146
۷)راج موہن گاندھی، عبدالغفار ، دی نان وائلنٹ بادشاہ آف دی پختونز:پینگوئن بکس انڈیا، نئی دہلی، 2004۔ص62
۸) پیارے لال،ص17
۹) تفصیل کے لئے دیکھئے سالار کریم داد ، خدائی خدمتگار سالار کریم داد، ضیاءسنز پرنٹرز، پشاور،2006۔ص ص82-88
۰۱) پیارے لال، ص 76
۱۱) ایس آر بخشی ، عبدالغفار خان، دی فرنٹیئر گاندھی: انمول پبلی کیشنز ، نئی دہلی، 1992۔ ص ص 122-123
۲۱)ایکناتھ، اے مین ٹو میچ ھز مانٹینز،بادشاہ خان ، دی نان وائلنٹ سولجر آف اسلام، نیلگری پریس، کیلی فورنیا، بار دوم، 1985،ص117