حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Saturday 20 March 2010

کہسار باقی افغان باقی۷

افغان قصر صدارت ارگ میں دوپہر کے کھانے کی اس سادہ اور پروقار تقریب کے میزبان جناب ِ صدر حامد کرزئی نے ہم سب سے بسم اللہ کرنے کو کہا ۔ نفیس افغانی ملبوس میں چند نوجوان نہایت تواضع سے طشتریا ں اور خوان اٹھا اٹھا کر ہمارے سامنے رکھ رہے تھے- کھانا نہایت سادہ تھا ۔ ایک ڈش شلغم کی تھی دوسری چنے کی دال تھی اور تیسری ڈش سادہ چاولوں کی تھی ، سلاد بطور جزو لازم موجود تھا۔ حالانکہ جو کھانا رکھا گیا تھا اس کے ساتھ سلاد کی ضرورت اس لئے نہیں تھی کہ سبزیاں اور دال خود زود ہضم ہوتے ہیں، ان کے ساتھ سلاد ذائقے میں اضافے کے لئے تو کھایا جاسکتا ہے مگر سلاد کا مقصد اعظم گوشت ، قیمے اور اسی نوعیت کی دیر سے ہضم ہونے والی اشیا ءکے جلد ہاضمے میں مدد کا ہوتا ہے ۔

یہ بتانا شاید ہم بھول گئے تھے کہ کھانے کے آغازسے قبل ایک نوجوا ن گرما گرم پکوڑے بھی لے کے آیا تھا ۔ کرزئی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے چھ ورکنگ ایام کو تقسیم دو کر رکھا ہے - یعنی پہلے تین دن گوشت ہوتا ہے اور بعد کے تین دن سبزیاں اور دال وغیرہ ۔ چونکہ ہم ان کے ساتھ کھانا ایک ایسے وقت میں کھا رہے تھے جب کئی دن تک گوشت اور قیمے کی مختلف مصنوعات سے ہم عاجز آچکے تھے اور اس حد تک عاجز تھے کہ کہیں گھاس چر نے کو دل مچل رہا تھا اس لئے جناب ِ صدرکے دولت کدے میں سبزیاں دسترخوان پر دیکھیں تو روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی والی کیفیت تھی ۔ ایک خوشی ہمیں اس بات کی بھی تھی کہ جناب ِ صدر کے دسترخوان پر ہمیں گرما گرما بھاپ اڑاتی روٹی کا سواد لینے سے کوئی نہیں روک سکے گا -

افغانستان میں گرم روٹی کھانے کا رواج نہیں ہے ۔ ہر کھانے کی پیشکش اور ذائقہ اپنا جواب اور مثال نہیں رکھتا لیکن روٹی کے معاملے میں ایسی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آتی ۔ کابل میں تو لوگ زیادہ تر چاول پسند کرتے ہیں اور چاول موجود ہوں تو روٹی خال ہی کسی کی توجہ اپنی جانب کھینچتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آج کہیں کوئی کھانے کا پروگرام ہو تو ایسا لگتا ہے کہ اس پروگرام کے لئے روٹیاں کل سے پکا کر تیار رکھی گئی ہوں- ہم نے کابل انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں اتنے اچھے اچھے کھانوں کے ساتھ ٹھندی روٹیاں کھائی ہیں کہ بتا نہیں سکتے- کھانوں کے ساتھ اس ناانصافی پر ہم دل ہی دل میں کڑھتے رہے- کسی کو کہہ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہاں ہم نے اپنے سوا کسی دوسرے کو روٹی اٹھاتے دیکھا نہیں ، وہی بنگلہ دیش والا حساب تھا، لوگ گوشت کے ساتھ بھی چاول کھاتے تھے اور آلو گوشت کے ساتھ بھی ۔ 

بہر حال جب روٹی دیکھی تو جناب ِ صدر کے دسترخوان پر بھی صورت ِ حال کچھ ایسی ہی تھی ۔ شاید جناب ِ صدر نے ہمارے چہرے کے تاثرات دیکھ یا پڑھ لئے نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ اپنے سامنے پڑی روٹی کی چنگیر اٹھائی اور ہمارے سامنے پکڑ لی - اس اچانک تواضع اور محبت پر سٹپٹا گئے ۔ تاہم خود کو سنبھالا اور ایک ٹکڑا نان کا اٹھا لیا۔ یہاں پر ہمیں پھر اس ملاقات کا حوالہ یاد آیا جو افغان صدر کے سابق پاکستانی ہم منصب سے ہوئی تھی اور جس میں انہوں نے کہاتھا کہ تھوڑے لوگ ہیں تو ہینڈ شیک کرلیتے ہیں ۔ 

کھانے کے دوران جناب صدر کی دل موہ لینے والی گفتگو جاری رہی ۔ انہوں نے پاکستان میں رہنے والے پختونوں کے بارے میں نہایت نیک جذبات اور خواہشات کا اظہار کیا ۔ پاکستان سے تعلقات کے بارے میں انہوں نے ہماری رائے بھی پوچھی اور ہم نے انہیں وہی رائے دی جو کسی بھی پختون کو ایسے سوال پر دینی چاہئے ۔ ہیواد مل صاحب بھی گفتگو میں شریک تھے ایک موقع پر ایک جگہ کسی کے تقرر کی با ت ہوئی توجناب ِ صدر نے ہیواد مل صاحب سے کہا کہ مجھے امیر کروڑ کے عہد کا کوئی عہدیدار نہیں چاہئے ، کوئی ایسا آدمی ہو جو نئے دور کے تقاضوں اور ضرورتوں سے اچھی طرح آگاہ ہو ۔امیر کروڑ پٹہ خزانہ (علامہ عبدالحئی حبیبی کی دریافت جو محمد ہوتک سے منسوب ہے )کے مطابق پشتو کے پہلے شاعر ہو گزرے ہیں ۔ قدامت کی اس تشبیہہ پر محفل زعفران زار بن گئی ۔ اس دوران جناب کرزئی نے کسی دوسرے شخص کا حوالہ دے کر کہا کہ ہیواد مل صاحب پہلے بھی ایسے ہی کسی شخص کو لائے تھے جو  کسی عہد عتیق کا تھا لیکن ہیواد مل صاحب نے نہایت تواتر سے جناب ِ صدر کی بات کے دوران ہی اس کی تردید کرنا شروع کر دی ۔ پاکستان ہوتا تو ہیواد مل صاحب کبھی کے اپنے عہدے سے فارغ ہوچکے ہوتے لیکن افغانستان کا قصر صدارت اس درجہ پر جمہوری ہے کہ ایک مشیر بر سرمحفل ایک صدر کی بات کاٹ کر تردید کر سکتا ہے اور مسلسل کر سکتا ہے  اور جناب صدر کی پیشانی پر کوئی شکن برامد نہیں ہوتی ۔ 

اس دوران ہمارے ذہن میں یہی بات بار بار گھومتی رہی کہ پاکستان میں میڈیا کے لوگ صدر کرزئی کو امریکی ایجنٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ایسا تاثر دے رہے تھے کہ یہ خیال تھا کہ الیکشن جیتنے پر صدر بارک اوباما مبارکباد دینے خود آئیں گے ۔ حال یہ ہے کہ امریکہ اس وقت افغانستان کے صدارتی انتخابات کا سب سے برا ناقد بن کر سامنے آیا ہے روزانہ اخبارات میں افغانستان کے انتخابات کے حوالے سے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور امریکہ کے بیانات ایک دوسرے پر سبقت لاتے لے جاتے نظر آتے ہیں- اب تو یہ بھی سنا ہے کہ امریکہ نے نومبر میں افغان انتخابات دوبارہ کرانے کی ایک تاریخ دی ہے ۔ 

امریکہ کے زور آور اور زبردست ہونے کو کسی دلیل کی حاجت نہیں- وہاں اتنے تھنک ٹینکس ہیں کہ لگتا ہے کہ دنیا جہان کے غور اور فکر کا کام وہیں ہوتا ہے- ان لوگوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہو پارہا کہ کسی بھی ملک میں عوامی رائے کسی بیرونی طاقت کے کہنے پر تبدیل نہیں ہوا کرتی اور بالخصوص امریکہ اگر جنوبی ایشیاءمیں کہیں کوئی اچھی بات بھی کرے تو اسے قبولیت نہیں ملتی ۔ افغان الیکشن پر جس طرح کے اعتراضات امریکہ کی طرف سے ہورہے ہیں وہ ہمارے خیال میں مثبت ہی ثابت ہوں گے ۔ ایک تو ان لوگوں کا منہ بند ہوگیا ہے جو صدر کرزئی کے لئے امریکی ایجنٹ کے سوا کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کر تے دوسرا مثبت اثر یہ متوقع ہے کہ اس سے افغان قوم پرستی کو ایک نیا رخ مل سکتاہے ۔ افغان انتخابات ایسے افغانستان کے اندرونی معاملے میں مداخلت کرنے پر بضد اوباما انتظامیہ کے دانشور یہ بھی بھول چکے ہیں کہ اس عمل سے ان کی “دہشت گردی کیخلاف جنگ کس قدر متاثر ہو سکتی ہے اور خود افغانستان سے امریکی تعلقات کتنے بگڑ سکتے ہیں ۔ جناب کرزئی کی 2002ءمیں بطور افغان صدر تقرری ان کے پختون ہونے کی دلیل بھی رکھتی تھی لیکن اب وہ دلیل بھی امریکہ والے بھول گئے ہیں ۔ نجانے اس حوالے سے ان کی عقل و دانش کو کیا ہو گیا ہے ؟
 
کھانے کی یہ مجلس جو ایک ورکنگ لنچ میں ڈھل گئی تھی، ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی ۔ وہاں سے نہایت گرمجوشی سے رخصت کئے گئے اور ہم ایک مزید اچھی یاد لے کر ہوٹل واپس آگئے 

( جاری ہے)

No comments:

Post a Comment