حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Sunday 4 January 2015

ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما!



پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ’’سل دِ ومرہ یو دِ مۂ مرہ‘‘ ۔ترجمہ اس کا کچھ ایسابنے گاکہ بھلے سو لوگ تمہارے مر جائیں لیکن ایک ایسا ہو جسے کبھی موت نہ آئے ۔اور وہ ایساایک وہی ہوتا ہے جس کی موت سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہوتا ۔اس کی کمی کا احساس ہر وقت غالب ہی رہتا ہے اور ایسا آدمی اگر پوری قوم کے لئے نا گزیر ہو تو صدمے کی شدت برقرار رہتی ہے اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔کاکاجی صنوبر حسین مومند ؒ بھی ایسے ہی ایک زعیم قوم تھے جن کی موت تین جنوری 2014ء کو بھی تین جنوری 1963ء جتنی شدت کی حامل ہے ۔1897ء میں کوہاٹ روڈ پر واقع گاؤں کگہ ولہ میں جنم لینے والی اس شخصیت نے نہ صرف غیر منقسم ہندوستان کے سیاسی اُفق کے پختون حصے پر چمکنا تھا بلکہ پشتو ادب پر بھی گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑنے تھے ۔غلام ہندوستان میں کسی نفسیاتی کجی کا شکار ہونے کی بجائے ان کے اندر کا مردِآزاد ہمیشہ سے ان بندھنوں کو پاش پاش کرنے پر آمادہ تھا جس میں پورا ہندوستان بلا تخصیص رنگ و مذہب جکڑا ہوا تھا۔یہی وجہ تھی کہ میٹرک کرنے کے بعد جب درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ ایک کلاس کی تربیت کسی مجموعی قومی بہتری کی بنیاد نہیں رکھ سکتی اور لازم ہے کہ ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کر کے غلامی سے نجات کی عملی جد وجہد بڑے پیمانے پرآغاز کی جائے ۔چنانچہ اس وقت کی روایت کے عین مطابق خدائی خدمت گار تحریک سے وابستہ ہوئے اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے اُٹھنے والے آزادی کے نعرے کو اپنی زبان دے دی اور حریت کے عَلم کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔جلد ہی وہ دو حقائق کو اچھی طرح سمجھ گئے اولاًیہ کہ کانگریس کی جدوجہد میں پختونیت کا تصور نہیں اور دوسری بات یہ کہ جس طرح کا طرزِ سیاست کانگریس نے اپنا رکھا ہے وہ بلاضرورت دنوں کی جدوجہد و مبارزے کو برسوں میں تبدیل کر رہی ہے ۔اُدھر ان کے قریبی دوست صاحبزادہ اسلم شہید ؒ بھی اس قسم کی جد و جہد کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے اور کاکاجی پر بہر حال اسلم شہید کا اثر کافی تھا۔اس زمانے میں اشتراکیت کا بول بالا تھا کچھ اس دور کی مجبوریاں بھی تھیں ‘برطانوی سامراج اگر بین الاقوامی طور پر کسی خوف کا شکار تھا تو اس خوف کا نام یو ایس ایس آر تھا اور وہاں رائج نظام کی ہندوستان میں مقبولیت کا ایک سبب اس کے پُر کشش ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ برطانیہ کا احساسِ تفاخر مٹی میں ملانے کے لئے انہی وجوہات کی بنیاد پر یہاں کے دانشور سویت روس کی طرف دیکھتے تھے ۔دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ ہمارے قوم پرست بھی اشتراکیت سے اس درجے پر متاثر ہوئے کہ یہاں ان کی کاوشوں سے کمیونسٹ تنظیمیں بن گئیں حالانکہ اشتراکیت کے آباء قوم پرستی کو بورژوائیت کی آخری پناہ گاہ قرار دیتے تھے ۔کاکاجی بھی نوجوان بھارت سبھا اور انجمن نوجوانانِ سرحد کے روح رواں بن گئے ۔مفتئ سرحد مولانا عبد الرحیم پوپل زئی کے ساتھ ایک نیا سیاسی سفر شروع کیا۔اس جدوجہد کو وہ تیزی بخشی کہ انگریز حکومت آپ کی جان کے درپے ہو گئی گرفتاری کی کوششیں اور سازشیں عروج پر پہنچیں تو کاکاجی کو مجبوراًآزاد قبائلی علاقے میں آنا پڑا۔غازی آباد لکڑو باجوڑ میں مردِ حریت حاجی صاحب ترنگ زئی ؒ کی تحریک کے دست و بازو بن گئے ۔یہیں پر آپ کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ اپنے مشفق و مہربا ن دوست صاحبزادہ اسلم کی شہادت کی صورت میں جھیلنا پڑا جنہیں انگریزوں کے اجرتی قاتلوں نے سوال قلعہ میں شہید کیا۔یہ وہی اسلم شہید تھے جن کی یا دمیں قیامِ پاکستان کے بعد کاکاجی نے ’’اسلم ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا اور وہ ایسا رسالہ تھا جو صرف سیاسی نہ تھا بلکہ ترقی پسند ادب کا علمبردار و ترجمان بھی تھا۔اور اس میں اس رسالے کی جھلک بھی تھی جو کاکاجی نے شعلہ کے نام سے اپنے ایام جلاوطنی میں باجوڑ سے جاری کیا تھا اور جو دستی پریس کے ذریعے بھی اچھی خاصی بڑی اشاعت رکھتا تھاتاہم اس کی شعلہ خوئی سرکار کو ہضم نہ ہوسکی اور اس پرپابندی لگا دی گئی ۔کاکاجی صنوبر حسین مومند ایک بے بدل مترجم ‘ادیب اور شاعر تو تھے ہی لیکن ان کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے ادیب سازی کا فریضہ مشنری بنیادوں پر انجام دیا۔پشتو ادب کی پہلی تنظیم اولسی ادبی جرگہ میں آپ کی حیثیت ایک ایسے ستون کی تھی کہ جس پر صرف اس تنظیم ہی کا تکیہ نہ تھا بلکہ تمام ادیبوں اور شاعروں کا بھی وہ سہار ا تھا۔یہ جو آپ کو آج تنقیدی ادب پڑھنے کو مل رہا ہے یا تنقید کی بھٹی سے نکل کر کندن ادب موجود ہے یہ اس زبان پر اولسی ادبی جرگہ ہی کا احسان ہے۔کاکاجی انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے صدر بھی رہے اور اس حیثیت میں گرفتار بھی ہوئے ۔عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ کیا‘حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ‘کی سوانح لکھی‘ایرانی شاعر لاہوتی کی روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے والی نظموں کو پشتو میں متعارف کرایا‘حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے افکار پر کام کیا ۔اسلم شہید پر بھی ایک کتاب لکھی ‘غرضیکہ زبان و ادب کی ترقی کے لئے اپنی استعداد کا بھرپور استعمال کیا۔تقسیم ہند کے بعد اگرچہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے مگر سی آئی ڈی اور دیگر مضر ایجنسیوں کی کتابوں میں آپ کا نام ’’مشکوک افراد‘‘ کی فہرست میں رہا ۔اس زمانے میں ترقی پسندی ویسے بھی نظریۂ پاکستان کے خلاف کوئی شے سمجھی جاتی تھی اور بالخصوص جب کوئی پختون اس پاگل پن کا شکار ہو تو اس کے لئے تو مملکت خداداد میں کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی ، چنانچہ پھر گرفتار ہوئے شاہی قلعے کے بدنامِ زمانہ عقوبت خانے میں شدائد کا نشانہ بنائے گئے ‘پیرانہ سالی اس ظلم و ستم کے سامنے ٹھہر نہ سکی اور وہ دیا جسے پور ی برطانوی مشینری بجھانے میں ناکام رہی پاکستانی حکومت کے ’’ہنر مند وں ‘‘ کے ہاتھ سے اپنے انجام کو پہنچی ۔ان پر انقلابی و ترقی پسندانہ خیالات کی ترویج کے الزام میں وہ تشدد ہوا کہ انہیں دمہ لا حق ہو گیا‘ظلم کی انتہا یہ تھی کہ انہیں علاج کی سہولت بھی نہیں دی گئی اور تقریباً عالمِ نزع میں انہیں ریاست کے ظلم و تعدی سے رہائی ملی اور قید سے کیا رہائی ملی یہ زعیمِ قوم رہائی کے کچھ عرصہ بعد زندگی کی قید ہی سے آزاد ہو گئے ۔لیکن پختون سیاست اور پشتو ادب کے لئے ان کی خدمات اس بنیاد پر اب بھی صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہیں کہ آج بھی ان کے فیض یافتہ ان دو میدانوں میں ان کی فکر کے چراغ جلائے بیٹھے ہیں ۔
پس نوشت :اس موقعہ پر انور خان دیوانہ مرحوم کو یاد نہ کرنا ناانصافی ہو گی ‘جنہوں نے کاکاجی کی کتب ‘تذکرہ اور دیگر کام کو منظر عام پر لانے کی ایسی کوششیں کی کہ شاید ہی کسی نے کی ہوں بلکہ انہوں نے ان لوگوں کو بھی کاکاجی یاد دلایا جو اس مردِ بزرگ کو فراموش کر چکے تھے ۔