حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Wednesday 24 September 2014

ذاتی نوحہ



سانحوں کی شدت، گہرائی یا اس کے نتیجے میں جنم لینے والے غم و الم کا کوئی پیمانہ مقرر ہی نہیں ، اسے فطرت کی انصاف پسندی کا نام دیجئے یا بجائے خود غم والم کی شدت کی منہ زوری ، غم ہر انسان پر الگ رنگ میں اثر انداز ہوتا ہے ،رقت بھی ایک عجیب شے ہے اس کے طاری ہونے پر اگر کوئی ہمدرد کاندھا نصیب نہ ہو تو نہ رونے سے تسلی ہوتی ہے اور نہ ایسی کوئی رقت اندمال غم کا باعث بنتی ہے ، جس غم کے باعث رقت فطری ہوتی ہے اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ یا تو رقت کو سمجھنے والے ہوں یا غم کو ، ورنہ ایسی کوئی بھی حالت ایک مشق ہی رہتی ہے ۔ ہمارے مرشدومحبوب جون ایلیا نے اسی عالم کرب میں کافی شدت سے استفسار کیا تھا 

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا 
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا ؟

واقعی اس سوال کا جواب ہاں کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں ، یہ چند سطریں دراصل اسی حقیقت کی بنیاد پر لکھی جارہی ہیں ، محترم رِضا ہمدانی مرحوم نے کہا تھا کہ 

وہ آنسو جو بہہ نہیں سکتے 
دل پر جا کر جم جاتے ہیں 

سو یہ وہی آنسو ہیں جنہیں پونچھنے والا کوئی نہیں تھا ، اور جو گزشتہ پندرھواڑے سے دل پر جا کر جم چکے ہیں ،محترم رِضا ہمدانی نے یہ نہیں کہا تھا کہ دل پر جمنے والے آنسو کیا قیامت ڈھاتے ہیں اور غم کی شدت کو کس درجہ پر لے جاتے ہیں لیکن اس کا اندازہ محولہ بالا حالات کا مارا کوئی بھی کر سکتا ہے سو اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا ، دلی صدمات کے عدم اظہار نے جو جو ناقابل تلافی نقصانات ہمیں پہنچائے ہیں ، اس میں مزید اضافہ امکانات کی فہرست سے خارج ہوچکا ہے ۔ آپ کی مرضی ہے ان سطروں کو کوئی بھی نام دیدیں ، لیکن فی الاصل یہ ایک ذاتی نوحہ ہے ۔

11ستمبر کی شام کو ایک ایسا ہی واقعہ ہوا،سخاوت علی سخی جو ایس اے سخی کے نام سے معروف تھے نہایت خاموشی سے چل دئے ، وہ کب پیدا ہوئے ، ان کی زندگی کیسی گزری ، انہوں نے کیا کیا ملازمتیں کیں ، کن کن لوگوں سے تعلق رکھا ، یہ سب میرے موضوعات نہیں ، میرا موضوع صرف یہ ہے کہ میں اپنے غم کا اظہار کروں اور لفظوں کے ذریعے اشک بہاؤں اور انہیں یاد کروں ۔ 

پشاور سے شائع ہونے والے روزنامہ آج میں ادارت کے فرائض میرے ذمے تھے ، سخی صاحب روزنامہ آج میں دو موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے تھے ، ایک اصلاح اردو اور دوسرا ہاکی کے اسرار و رموز و تاریخ ۔ ان سے میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن اخبار کے مالک جناب عبدالواحد یوسفی صاحب کی وساطت سے ان کی تحاریر پہنچتی رہتی تھیں ، ایک مرتبہ ایک صاحب آئے جن کے کلی طور پر سفید بال سلیقے سے سنورے ہوئے تھے ،قد درمیانہ ،آسمانی شلوارقمیص پر نیلا کوٹ ، چال و آواز بالکل لڑکوں جیسی ،طرفہ یہ کہ ایک دلنواز مسکراہٹ کلین شیو چہرے پر سجی ہوئی ، ان کی عمر کا اندازہ نہیں لگا سکا ، آتے ساتھ ہی انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور کہنے لگے ، سخی !! میں نے پوچھا ایس اے سخی ؟ایک قہقہه  لگا کر بولے ہاں بس ایسے سخی !! اور ساتھ ہی کاغذوں کا انبار میری میز پر رکھ دیا ، میں نے کاغذات پر ایک سرسری نظر دوڑائی تو سخت مایوسی ہوئی ، اس قدر بدنویسی کا مظاہر ہ زندگی میں نہیں دیکھا تھا ، میں نے کہا سخی صاحب یہ اتنی گندی لکھائی کس کی ہے ؟اپنی طرف اشارہ کرکے کہا اس اچھے انسان کی ، میں نے کہا سخی صاحب اتنی گندی اور ’’ان پڑھ‘‘ لکھائی کو ٹائپ کون کرے گا؟کہنے لگے اسی لئے تو میں آیا ہوں ، آپ لوگ اتنی غلطیاں ٹائپنگ کی کر دیتے ہیں کہ کالم کا ستیا ناس ہو جاتا ہے ، اب ایک کمپیوٹر آپریٹر میرے حوالے کردیں ، میں خود اس کے ساتھ بیٹھوں گا اس کی مدد کروں گا اور پروف بھی خود پڑھوں گا۔مجھے یہ بات معقول معلوم ہوئی ۔ سخی صاحب مضمون فائنل کرکے رخصت ہوگئے ، 2003تک ہماری زندگی کا محور و مرکز ایک ہستی تھی اور ہماری زندگی کے بس دو ہی کام تھے دفتر جانا یا ان کی خدمت میں حاضر رہنا ۔یعنی ہمارے والد۔ چنانچہ اس دن جب واپسی ہوئی تو یہ سارا ماجرا انہیں سنا یا۔ انہوں نے ایک انتباہی بیان جاری کیا اور بولے یہ سخی صرف لکھاری نہیں ، بلکہ میرا کلاس فیلو بھی رہ چکا ہے ، اور اس سے میرا نہایت ہی خصوصی تعلق تھا، اس کے بھائی ملک راحت علی خان انجام اور مشرق میں میرے ساتھی تھے ، اس سے نہایت احترام سے ملا کرو اور جب بھی آئے چائے یا قہوے کے بغیر اسے جانے نہیں دینا، سخت حیرت ہوئی ،میں نے کہا کہ وہ تو آپ سے عمر میں کافی کم لگتے ہیں ، بولے وہ شروع سے ہی ایسا ہے ، ہاکی کا بہت بڑا کھلاڑی بلکہ استاد ہے اس لئے فٹ ہے ، اور ہمارا بیڑا جیلوں اور ٹارچر سیلوں نے غرق کررکھا ہے ۔ 

ہمارے والد کی ذات ہمارے لئے محوری و مرکزی اہمیت رکھتی تھی اس لئے ان کے دوستوں کے لئے بھی ہمارے دل میں احترام فطری تھا۔ اگلی مرتبہ وہ آئے تو میں نے انہیں یہ ساری بات بتائی ، وہ کہنے لگے کہ مجھے پتہ تھا لیکن میں چاہتا تھا کہ قلندر خود تمہیں کہے ، سخی صاحب ہفتے میں تین چار بار آتے تھے ، ان سے تعلق کی نوعیت رفتہ رفتہ تبدیل ہونے لگی ، پہلے وہ ایک کالم نگار تھے ، پھر وہ میرے والد کے خاص دوست اور رفیق کار کے بھائی نکلے لیکن چند ماہ میں ہی وہ میرے دوست بن گئے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ سخی صاحب نے ماہ و سال کے حساب سے عمر کے تعین کے سارے فلسفوں کو شکست دے رکھی تھی ، خاص پشاور کے تعلق اور مادری زبان اردو ہونے کی وجہ سے مجلسی معطر ساز تھے ، اخبار کے نائب قاصد سے لے کر اخبار کے مالک تک ہر فرد کے ساتھ گھل مل کر ایسی فضا باندھنے کے ماہر تھے کہ ان کی قوت قلبی ( دَ زڑھ زور) کی داد دینی پڑتی تھی ، سخی صاحب کی کوئی اولاد نہیں تھی ، لیکن سچائی یہی ہے کہ وہ خود آخری عمر تک اپنی ہر عادت میں لڑکوں سے بڑھ کر لڑکے تھے ۔ جب مجلسی عطر سازی پر اتر آتے تو کوئی ان کی ٹکر کا نہیں ہوتا تھا۔ 

اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت ہی سریلی آواز بخشی تھی ، سہگل ، مناڈے اور کشور وٖغیرہ کے گائے ہوئے گیت ایسے گاتے تھے کہ داد دینی پڑتی تھی ، عمر کے آخری حصے میں باقاعدگی سے نوحوں اور مرثیوں سے سوز وگداز برپا کرنے کا وظیفہ اپنا لیا تھا، خود بھی نوحے و مرثیے لکھتے تھے ، ان کے اہل خانہ کے پاس شاید ریکارڈ ہو، روزنامہ آج کے دفتر میں جب نوحہ یا مرثیہ پڑھتے تھے تو رقت نچھاور کردیتے تھے ، 2004میں اسلام آباد سے اے وی ٹی خیبر شروع ہوا تو میں پشاور چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہوا، اسی دوران سخی صاحب اور روزنامہ آج کے درمیان اختلافات شروع ہوئے ، پھر انہوں نے روزنامہ آج سے رشتہ توڑ دیا، میں نے سخی صاحب سے پوچھا کہ وجہ کیا تھی ، بولے میں تمہیں نوحے سناتا تھا اور تم روتے تھے بس یہی وجہ تھی ، تم چلے گئے تو مجھے بھی جانا تھا، حالانکہ وجہ یہ نہیں تھی ، سخی صاحب نے ایکسپریس اور مشرق میں بھی لکھا لیکن وہاں نہ کوئی لاڈ اٹھانے والا تھا اور نہ سخی صاحب کے ساتھ مجلس کرنے والوں میں سے کوئی تھا، سو انہیں بادل نخواستہ یہ شوق ختم پڑا، لیکن وہ مسلسل لکھتے رہے ، ایک زمانے میں عارضی طورپر حیات آباد منتقل ہوئے تو میں ان کے گھر گیا ، ایک پلنگ کے نیچے دو بوریاں دکھائیں ، بولے میں اب بھی لکھتا ہوں اور سب کچھ ان بوریوں میں بند کردیتاہوں۔

سخی صاحب ایک اچھے لکھاری تھے ، ان کے خاص موضوعات وہ عام غلطیاں ہوتی تھیں جو ہم زبان کے حوالے سے روزمرہ بنیادوں پر کرتے رہتے ہیں اور جن کی اصلاح کا احساس بھی ہمیں نہیں ہوتا ، زبان کے حوالے سے ان کی حساسیت کافی زیادہ تھی ، ہاکی کے کھیل کے عروج و زوال تکانیک اور پشاور میں ہاکی کی تاریخ کے موضوعات پر کافی لکھتے رہے ، بلکہ پشاور پر بھی بے تحاشا لکھا، پشاور کے مشہور و بدنام کرداروں سے لے کر مقامات و باغات رسوم و رواج سب کچھ پر فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ان کے پاس تھیں جو وہ خوب سخاوت سے اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے تھے ۔ 

چار فروری دو ہزار تین کو جب میرے والد فوت ہوئے عین اسی دن سخی صاحب کے بھائی ملک راحت علی خان بھی راہی ملک بقا ہوئے لیکن دوسرے ہی دن وہ میرے گھر پہنچ کر مجھے دلاسہ دے رہے تھے ، ملک راحت صاحب پشاور کے بزرگ صحافیوں میں سے تھے ، اور آج کل کے صحافیوں کی طرح پھنے خان یا سقراط نہیں تھے بلکہ نہایت ہی منکسر المزاج اور غریب پرور آدمی تھے اور علمائے صحافت و ادب سے ایک خاص تعلق خاطر رکھتے تھے ، مشاہیر زمانہ مثلاً مولانا ظفر علی خان ، عبدالمجید سالک ، چراغ حسن حسرت وغیرہ سے باقاعدہ خط کتابت تھی ، سخی صاحب اور ملک صاحب دونوں ساری زندگی اکھٹے رہے ، ان کے لئے اپنے بھائی کی وفات کچھ کم سانحہ نہ تھا لیکن اپنے ذاتی غم(ذاتی غم ۔۔یہاں اس کے پشتو روزمرہ کے مطابق استعمال میں ابلاغ زیادہ ہے) کے باوجود وضعداری سے دستبردار نہ ہوسکے ۔ کافی دیر بیٹھے رہے اور پھر میرے کہنے پر واپس چلے گئے ۔ 

انتقال سے کچھ سال قبل وہ پشاور چھوڑ کر حیات آباد منتقل ہوگئے ، اگرچہ حیات آباد پشاور ہی میں ہے لیکن اس پر میرا اور سخی صاحب کا کامل اتفاق تھا کہ پشاور صرف وہ پشاور ہے جو فصیل شہر کے اندر ہے ۔ اور پشاور کی ثقافتی و معاشرتی قدروں کی گود صرف وہی علاقہ ہے جو دروازوں کے اندر ہے ،حیات آباد سے ایک مرتبہ اسی بنیاد پر واپس آگئے تھے کہ وہ پشاور نہیں ، بہرحال ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ، اپنی پیرانہ سالی کے باوجود وہ میری طرف آتے رہے میں ان کی طرف جاتا رہا ، لیکن اس دوران گرنے کی وجہ سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی ، میں ملنے گیا تو دیکھا سخی صاحب جو ہر وقت ہنسنے اور ہنسانے کے عالم میں ہوتے ہیں نمناک آنکھیں لئے ہوئے ہیں ، مجھے دیکھا تو دور سے ہی ایک چیخ ماری دیکھو زلان یہ حالت ہوگئی ہے میری ، چیخ سیدھی میرے دل کو چیر گئی لیکن خود پر قابو رکھا ، اور کہا کہ سخی صاحب آپ تو اب بھی بہت لوگوں سے اچھی حالت میں ہیں ،یہ گزشتہ عیدالفطر کی بات ہے ، اس کے بعد بھی دو یا تین دفعہ ان سے ملنے گیا ، انہیں دل کا عارضہ تھا لیکن تمباکو نوشی کی لت اس سے زیادہ تھی ۔ اور لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ اس بات کے ماننے پر تیار نہیں تھے کہ تمباکو نوشی ان کے لئے نقصان دہ ہے ۔ گھر میں دو دو ڈاکٹروں کی موجودگی کے باوجود انہیں میڈیکل سائنس پر کوئی اعتبار نہیں تھا، شاید اس میں پشاور کے ڈاکٹروں کا بھی کردار تھا اور ان کی اپنی نازک مزاجی کا بھی ۔ 
12 ستمبر 2014کو ٹویٹر پر سبھی دوست ڈاکٹر محمد تقی کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد دے رہے تھے ، میں نے بھی مبارک باد دے دی ، بس یہی میری غلطی تھی ، ڈاکٹر تقی صاحب سخی صاحب کے بھتیجے اور ملک راحت علی خان کے صاحبزادے ہیں ، انہوں نے مجھے میسیج کیا کہ نہایت ہی تکلیف دہ دن ہے ان کے لئے کیونکہ کل رات ہی سخی صاحب کا انتقال ہوا ہے ۔میں نے یہ میسیج پڑھا تو سخی صاحب کے گھر کا نمبر ملایا ، بات نہیں ہوپارہی تھی ، سخی صاحب کی بیوہ سے بات ہوئی ، شدت سے گلہ کرنا چاہتا تھا کہ مجھے کیوں نہیں بتا یا گیا پھر سوچا کہ وہ جو دلبر و دلدار تھا وہ نہیں رہا اب کسی اور سے کیا گلہ ، جو کام روزنامہ آج والوں نے میرے جانے کے بعد سخی صاحب کے ساتھ کیا تھا وہی کام سخی صاحب کے گھر والوں نے ان کی وفات پر میرے ساتھ کرکے حساب برابر کردیا تھا۔ ڈاکٹر تقی صاحب کی سالگرہ سے لے کر آج کے دن تک کا یہ سارا عرصہ سخی صاحب کے ساتھ گزارے گئے لمحات کو درد کی تصویریں بناتا رہا۔ آج تک شاید کسی کوسالگرہ کی مبارکباد کہنے پر اتنا بڑا صدمہ نہیں دیا گیا ، نہیں  بھولوں گا اب یہ تاریخ ۔کبھی نہیں!!!

Tuesday 12 August 2014

سانحۂ بابڑہ۔ یہ خون خاک نشیناں تھا؟

یادگار شہدائے بابڑہ چارسدہ

سانحۂ بابڑہ۔ یہ خون خاک نشیناں تھا؟

ہمارے قومی وجود کے زخم ایسے ہیں اور اتنے ہیں کہ نہ ہی ان کی شدت پوری وضاحت سے بیان کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان کا شمار ممکن ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اند مال اور مداوے کے مطالبات ہماری فہرست میں ابھی شامل نہیں ہوئے۔ جو جو زیادتیاں ہوئی ہیں ان کا ذکر کرنا بھی اس لئے دشوار ہے کہ اس کیلئے بھی ایک عمر چاہئے اور جس رفتار سے المیے واقع ہورہے ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ ایسی کوئی المیہ شماری مستند ٹھہر سکے ۔ آج 12 اگست کا دن ہے اس دن کی سیاہی کو بیان کرنے کیلئے ابھی الفاظ ایجاد ہی نہیں ہوئے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایسے حروف ہی نہیں ہیں جو ایسے الفاظ کی ترتیب میں معاونت کریں جو اس تاریک دن کی سیاہی کا مکمل ابلاغ کرسکیں۔ ہم اس بابت کیا کہیں ایک چشم دید گواہ کی آپ بیتی سن لیجئے۔ 
سالار کریم داد خان اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں۔
12 اگست 1948ء کو علی الصبح ہی لوگ بابڑہ پہنچنا شروع ہوگئے تھے جو لوگ دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے وہ ایک روز قبل ہی پہنچ گئے تھے قرب و جوار کے دیہات سے بھی خدائی خدمت گاروں کی ایک بڑی تعداد اس لئے صبح سویرے آرہی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ شاید انہیں بابڑہ پہنچنے ہی نہ دیا جائے۔ اس دن بہت سارے لوگوں کو فوج اور پولیس والوں نے دریا میں پھینک دیا تھا۔ لیکن دریا میں پھینکنے والے بھی تیر تیر کر ایک راستے اور دوسرے راستے سے بابڑہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ پکڑ دھکڑ بڑی شدت سے شروع تھی لیکن پختونوں کے جذبے کے سامنے ہر جبر و ستم خس و خاشاک ثابت ہورہا تھا۔ خدائی خدمت گار ٹولیوں کی صورت بہم پہنچ رہے تھے ۔ بابڑہ کی جامع مسجد کی چھت پر فوجی اور ساتھ ہی دوسری طرف مسلم لیگی اسلحہ بدست تیار کھڑے تھے پو لیس کے ’’شیر دل ‘‘ جوان بھی ایک کثیر تعداد میں موقع پر موجود تھے ، انتظار جاری تھا ، ان سب اسلحہ برداروں کا غیظ و غضب بلا جواز بالکل نہیں تھا دراصل انہیں ایک نہایت ہی جانکاہ صدمہ پہنچا تھا اور وہ فرنگیوں کا یہاں سے جانا تھا سو یہ تمام اسلحہ بدست خدائی خدمتگاروں سے اپنے اصل آقاؤں یعنی فرنگیوں کی اس ہتک کا بدلہ لینے کو سخت اتاولے ہورہے تھے جو جو خدائی خدمت گاروں نے ان کو یہاں سے بھگا کر ان کے ماتھے پر ثبت کردی تھی۔ فوج نے رات ہی سے سارے انتظامات کررکھے تھے راستے سارے بند تھے۔ خیالی کا پل ‘ قاضی خیلوں والا پل مردان کی سمت سے آنے والا راستہ غرضیکہ ایسا کوئی راستہ ہی نہیں تھا کہ اسے اختیار کرکے بابڑہ پہنچا جائے۔ لوگ تیرتے ہوئے کشتیوں میں ٹولیوں میں بابڑہ پہنچنے کی کاوشوں میں پوری تندہی سے لگے ہوئے تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے سالار اعظم (سالار امین جان خان۔۔ناقل) سے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ وقت پڑنے پر جان و مال کی پرواہ نہیں کریں گے اور قومی مقاصد کیلئے ہر طرح کی قربانی دیں گے ۔ یہ کوئی کرائے کی فوج نہیں تھی نہ ہی انہیں کوئی اجرت ملتی تھی۔ یہ لوگ اگر سختیاں جھیلنے کا عزم مصمم کرکے اسے عملی جامہ پہنا رہے تھے تو اس کیوجہ صرف یہ تھی کہ ان کے دل میں قوم کا غم تھا۔ اور جس دل میں قوم کا غم ہو وہاں خوف خدا کے سوا دوسرے کسی خوف کا وجود نہیں ہوتا۔ سالار کریم داد لکھتے ہیں کہ اپنے گاؤں کے رضا کاروں کے ہمراہ وہ بھی کس طرح بابڑہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے یہ سفر کشتی میں طے کیا تھا۔ لکھتے ہیں کہ بابڑہ میں کافی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے پر سالار امین جان خان نے چارسدہ کی طرف مارچ کا حکم دیا۔ فوج پہلے سے ہی مورچے سنبھال چکی تھی۔ اس جلوس میں صرف مرد ہی نہیں تھے خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم سینوں سے تھامے اپنے بھائیوں کے ہم رکاب تھی۔ یہ جلوس جیسے ہی بابڑہ کی مسجد کے قریب پہنچا تو سڑک کے بائیں کنارے سے مسلم لیگی مجاہدین نے فائرنگ شروع کردی ، جلوس کے شرکاء یہ سمجھے کہ شاید خوشی کی فائرنگ ہے ، سو جلوس چلتا رہا تاہم اس دوران اچانک لوگ گرنے لگے ، خون سے پوری سڑک لال ہوگئی ، مشہور خدائی خدمت گار اور شاعر فضل رحیم ساقی اپنی کتاب خدائی خدمت گار میں لکھتے ہیں کہ دراصل یہ مسجد کی چھت پر موجود فوجی جوانوں کو سگنل تھا کہ شروع ہوجاؤ چنانچہ مسجد کی چھت پر موجود سپاہیوں نے فائرنگ شروع کردی ۔دستی بموں کا بے دریغ استعمال ہونے لگا اور مشین گنیں تھرانے لگیں ، جلوس کے ہراول دستے سے بھی آگے جانے والے خدائی خدمتگار جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں اور بچوں کی تھی موقع پر ہی شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئی ، اس ظلم وتعدی میں موقع پر موجود پولیس نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا ، ان کے پاس بھی جو اسلحے ، گولہ وباردو کا ذخیرہ تھا وہ بھی ان نہتوں پر استعمال ہونے لگا ، ساقی صاحب لکھتے ہیں کہ فتح محمد سالار جو پہلے فوج میں تھے اور اب خدائی خدمتگاروں کے جرنیل تھے نے چیخ چیخ کر شرکا ء سے کہا کہ لیٹ جائیں ، بہت ساری خواتین جو اپنے بھائیوں ، بچوں کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے چھتوں پر کھڑی تھیں اور جلوس دیکھ رہی تھیں ان کو بھی گولیاں لگیں ، متعدد شہید ہوئیں ، اسفندیار ولی خان کی والدہ تاجو بی بی (گوہر تاج )جو اس وقت حاملہ تھیں بھی اس جلوس میں شامل تھیں اور وہ بھی زخمی ہوئیں ، آتش و آہن کی یہ بارش جاری تھی کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد قرآن مجید سروں پر اٹھائے گھروں سے باہر نکل آئیں ، ان کا خیال تھا کہ یہ تو انگریز نہیں مسلمان ہیں ، اس بزرگ وبرتر کتاب کا واسطہ مان لیں گے ، خواتین نے قرآن کریم کا واسطہ دے کر عافیت مانگی مگر گولی چلانے والوں کو صرف موت بانٹنے کا حکم دیا گیا تھا۔ مملکت خدادا کے مسلمانوں سپاہیوں نے کرہ ارض اور فرش پر موجود مقدس ترین کتاب کی پرواہ نہیں کی۔ قیامت کا سماں تھا ایک محشر برپا تھا۔ دھول مٹی بارود بن چکی تھی ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔سالار کریم داد کہتے ہیں کہ نستہ کے صحت خان گولی کھا کر زمین پر گر پڑے ان کا سر میں نے اپنی گود میں رکھا۔ چاروں طرف آگ برس رہی تھی لیکن کوئی خدائی خدمتگار اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ یہ گولیاں ان لوگوں پر چلائی جارہی تھیں جو انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ہر قسم کی قربانی دے چکے تھے اور گولیاں چلانے والے وہ تھے جنہوں نے انگریزوں کی حکمرانی کے قیام اور اس کے استحکام میں ہر طرح کے مفادات سمیٹے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ آزادی ملی تو اختیار ان لوگوں کو ملا جو انگریزوں کے کاسہ لیس تھے۔ جو غدارانِ وطن تھے آج حاکمان وطن تھے ۔ خواتین کو قرآن کریم سمیت شہید کردیا گیا تھا جیسے دشمن پر گولیاں برسائی جارہی ہوں اور مقصد فتح کرنا ہو۔ ایک اسلامی ملک میں عظیم قرآن کے اوراق فضاؤں میں اڑ رہے تھے لیکن پولیس اور فوج کے جوان اور مسلم لیگ کے غازی جو سارے مسلمان تھے اسے اپنی غیرت کیلئے کوئی تازیانہ نہیں سمجھ رہے تھے۔ ساڑھے چھ سو کے قریب لاشیں اٹھائی گئیں۔ زخمیوں کا شمار ممکن نہی نہیں تھا۔ یہ تھا ایک خدائی خدمت گار کا بیان اور آنکھوں دیکھا حال۔ سالار امین جان خان کہتے ہیں بلکہ لکھتے ہیں کہ اس جلوس کی باقاعدہ اجازت لی گئی تھی۔ لیکن جیسے ہی جلوس روانہ ہوا تو مطلع کیا گیا کہ جلوس پر دفعہ 144 کے تحت پابندی لگ گئی ہے اور یہ ممکن نہ تھا کہ جلوس نکلے بغیر ہی منتشر ہوجائے۔ عینی شاہدین کا یہ کہنا ہے کہ پولیس اور فوج کے بہادر اور شجیع جوانوں نے بہت ساری لاشیں اٹھانے نہیں دیں۔ اکثر کو قریبی دریا میں پھینک دیا گیا۔ زخمیوں کے بارے میں یہ حکمنامہ جاری ہوچکا تھا کہ ان کا علاج کسی سرکاری شفاخانے میں نہیں ہوگا۔فضل رحیم ساقی مرحوم و مغفور لکھتے ہیں کہ بابڑہ کا سانحہ 12اگست ہی کو ختم نہیں ہوا اس کے بعد بھی ہفتوں جاری رہا ، سب سے پہلے تو تحصیل چارسدہ کے سارے دیہات کو پچاس ہزار روپے جرمانہ کردیا گیا ، حکومت نے وجہ یہ بتائی کہ جرمانہ اس لئے لگایا جارہا ہے کہ فوج اور پولیس کا گولہ وبارود ضائع ہوا ہے ، یعنی جن گولیوں سے خدائی خدمتگاروں کو اپنی ہی سرزمین پر خاک وخون میں نہلایا گیا اس کی قیمت بھی وصول کر لی گئی ، ساقی صاحب لکھتے ہیں کہ جو لوگ متمول تھے انہوں نے تو جرمانہ ادا کردیا لیکن خدائی خدمتگاروں میں اکثریت غرباء کی تھی ، چنانچہ ان کے گھروں اور قیمتی اشیا ء کو نیلام کردیا گیا اور مسلم لیگ کے غازیوں کو کوڑیوں کے مول یہ سب کچھ مل گیا، پولیس اور سی آئی ڈی کی سرگرمیاں اس کے بعد بھی جاری رہیں ، معزز عمر رسیدہ زعمائے قوم کو بے لباس کر کے ان کے پورے جسم پر گند مل دیا جاتا اور بازاروں اور گھروں میں انہیں پھرایا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ ہیں ہندووں کے ایجنٹ اور اس وطن کے غدار، جب پولیس یہ تماشا کرتی تو وہ بھی ایک عجیب سا منظر ہوتا ، جب ان عمائدین قوم کو پولیس کے جوان اس حالت میں بازاروں میں لے کے جاتے تو لوگ آنکھیں بند کرکے دھاڑیں مار مار کر روتے ، آنسوؤں ہچکیوں کے طوفان آجاتے لیکن کچھ لوگ خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے وہ لوگ مسلم لیگ اور پولیس کے غازی تھے ، نہ پولیس کی تعداد خدائی خدمت گاروں سے زیادہ تھی نہ مسلم لیگیوں کی ، یہ بے سروسامان لوگ چاہتے تو ان کی تکہ بوٹی کر کے رکھ دیتے لیکن انہوں نے ایک مردبزرگ مسیح الافاغنہ سے عدم تشدد کا عہد کر رکھا تھا ، اور وہ اپنی جان دے سکتے تھے لیکن تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرسکتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ کوہاٹ کے ایک خدائی خدمتگار کو جب اس سلوک سے گزرنا پڑا تو اس نے اپنے عہد کی تو لاج رکھ لی لیکن برہنہ بازاروں میں پھرانے کی ہتک برداشت نہ کرسکا اور خود کو گولی مار دی ، ان لوگوں کا قصور کیا تھا یہ سارا معرکہ کیوں برپا ہوا اور بقول کسے پختونوں یا چارسدے کا کربلا کس وجہ سے وجود میں آیا؟ صرف اس لئے کہ ان لوگوں کا ایک مطالبہ تھا اور وہ یہ کہ باچا خان اور ان کے ساتھی گرفتار تھے اور یہ خدائی خدمت گار ان کی رہائی چاہتے تھے۔ کیا یہ مطالبہ اس درجے پر سنگین تھا کہ موت کا پروانہ ٹھہر جائے؟ ہمیں افسوس امر کا ہے کہ اس قدر بڑے سانحے پر ہماری سرکاری کتابیں خاموش ہیں۔ عدلیہ پر ایک افتاد آپڑی تو ججوں نے کرام ویل کی مثال دی کیا یہ انصاف کا تقاضا نہیں کہ 67 برس بعد ہی سہی پختونوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے کرام ویل کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو ایک دفعہ انگلستان میں ہوچکا ہے ۔ یا ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہو۔

Sunday 19 January 2014

مسیح الافاغنه باچاخان کی برسی کے موقع پر ان کے چند اقوال ۔۔۔۔۔زلان مومند



اقوالِ رہبرؒ 

گزشتہ صدی کئی حوالوں سے معتبر حیثیت رکھتی ہے۔اس صدی میں بہت ساری ایسی شخصیات گزری ہیں جن کی وجہ سے اہم ترین واقعات پچھلے سو برسوں کی یادگار بن گئے۔برِّ صغیر کی آزادی کی تحریک ایک ایسا واقعہ ٹھہر گئی جس کی پشت پر ایک سے زیادہ عظیم ہستیاں بطورِ عامل موجود رہیں۔جس خطہء زمین پرہم جی رہے ہیں وہاں ایک ایسی قدآور شخصیت نے تاریخ کا دھارا موڑا جس کی سادگی، بے ساختگی، عجز، پر ہیز گاری اور سماجی اصلاح کا بے نظیر جذبہ اس کے سیاسی افکار پر ہمیشہ غالب رہا ۔ایک ایسی قوم جس نے جنگ و جد ل کو بطورِ کلچر اپنا رکھا تھا اس قوم کو اس مردِ درویش نے عدم تشدد کا درس دیا ۔پھر تاریخ کے صفحات پر عجیب و غریب تصویریں ابھریں ۔وہ قوم جس میں برادر کشی کو جواز میسر تھااور جو تشدد اور اسلحے کو علم و ہنر کا درجہ دیتی تھی اس کوبیچ چوراہوں میں ظلمِ فرنگ کا سامنا کرنا پڑا۔شجاعت ، جرأت اور بے خوفی سے لبالب بھرے اس مٹی کے بیٹوں کو بے دردی سے انگریز سپاہی اور ان کے دیسی چاکر پیٹتے رہے لیکن اس باخدا مردِ درویش کے عدم تشدد کے فلسفے نے ان کا ہاتھ روک رکھا تھا۔بس ایسے ہی ہوتے ہیں خدا والے۔یہی وجہ تھی کہ فرنگی اپنے سرکاری کاغذات میں یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ
 Non violent Pathan is much dangerous than the violent Pathan.
انتہائی خوف اور بے کسی کے عالم میں ایک جابر بدیسی راج کا اس سے بہتر خراجِ تحسین اور کیا ہو سکتا ہے؟باچا خان ؒ کا مشن ایک ایسی ترکیب ہے جس کا استعمال آج کل نہایت عام ہے لیکن کسی سے پوچھا جائے کہ یہ مشن کیا تھا ؟تو شاید اس کے جواب میں کوئی دو ٹوک بات کسی کو نہ سوجھے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشن غیر واضح تھا ۔افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان کی تعلیمات بھی اسی طرح فراموش کر دی گئیں جیسے ان سے پہلے بہت سارے سماجی مصلحین کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالا گیا۔ذیل میں جو اقوالِ رہبرؒ دئیے جا رہے ہیں درحقیقت باچا خان کا مشن انہی پر مبنی ہے۔گویا یہ صرف اقوالِ رہبرؒ نہیں بلکہ رہبرِ اقوال بھی ہیں۔

* ہماری جنگ صبر کی جنگ ہے ۔ہم صبر سے کام لیں گے اور خود کو سپردِ خدا کریں گے،اپنے دلوں سے نفاق دور کریں گے،خود غرضی کو جڑ سے اکھاڑیں گے کیونکہ ہماری بربادی کی بنیادی وجوہات یہی ہیں۔

* ہر ایک گروہ میں بے اتفاقی کی پیدائش ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔
* اے میرے پختون بھائیو! خوف اور مایوسی کا شکار نہ ہونا!یہ خدا کی طرف سے ہماری آزمائش اور امتحان ہے۔پس بیداری کی ضرورت ہے۔اٹھیے اور مخلوقِ خد ا کی خدمت پر کمر بستہ ہو جائیے۔
* آزادی کا پودا نوجوانوں کی قربانیوں سے سینچا جاتا ہے۔یہ پودا جو ہم نے لگایا ہے ضرور پھلے اور پھولے گا کیونکہ ہمارے نوجوانوں کی قربانیاں بے نظیر ہیں۔
* میرا عقید ہ ہے کہ ایک قوم صر ف اسی وقت ترقی کر سکتی ہے جب اس کی عورتیں مردوں کے شانہ بہ شانہ گاڑی کے دو پہیوں کی طرح کام شروع کریں ۔
* وہ کام جو کھل کے نہ کیا جا سکے اور در پردہ ہو وہ انسان میں کمزوریاں اور خوف پیدا کرتا ہے۔
* اچھا قانون بری نیت سے بنے تو اس کا استعمال یقیناًبرا ہو گا۔
* جس قوم کی نظر میں اپنی زبان کی وقعت نہ رہے اس قوم کی اپنی وقعت نہیں رہتی اور جس قوم سے اپنی زبان کھو جائے وہ قوم خود کھو جاتی ہے۔
* صنف کی بنیاد پر کسی کو تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے ۔توقیر کی بنیاد صرف عمل ہے۔
*اگر آپ نے کسی بھی قوم کے مہذب ہونے کا اندازہ لگانا ہے تو یہ دیکھئے کہ اس قوم کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ اور سلوک کیسا ہے ، جن لوگوں کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ ہتک آمیز ہو وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں
* عدم تشدد ایک طاقت ہے جس کا ہتھیار تبلیغ ہے۔عدم تشدد ، ہمت، حمیت ، محبت اور جرأت پیدا کرتا ہے جبکہ تشدد لوگوں میں نفرت اور خوف کو جنم دیتا ہے۔
* جس قوم کی خواتین بیدار ہو جائیں اور ملکی آزادی کا عہد کر لیں اسے کوئی بھی غلام نہیں رکھ سکتا ۔
* انقلاب ایک سیلاب ہے جو خفتہ لوگوں کو بہا لے جاتا ہے۔
* ہمارا فرض دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلانا ہے۔ہم اس قوم اور حکومت کی مخالفت کریں گے جو مخلوقِ خدا پر ظلم ڈھاتی ہو چاہے ظالم ہمارا بھائی اور ہمارا ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو۔
* ہمیں چاہے کوئی کتنی ہی تکلیف دے ، ہم پر ظلم کرے، ہمارے ساتھ زیادتی کرے لیکن ہم انتقام نہیں لیں گے بلکہ صبر کریں گے اور ایسے فرد، قوم یا حکومت کو سمجھانے کی کوشش کریں گے۔
* ہماری جنگ عدم تشدد کی جنگ ہے اور اس راستے میں آنے والی تمام تکالیف اور مصائب ہمیں صبر سے جھیلنے ہوں گے۔
* غلامی سے بڑھ کر لعنتِ خداوندی اور کوئی نہیں۔
* جو قوم ایک طویل مدت تک غلامی کی شکار رہے اس قوم کا بالآخر خاتمہ ہو جاتا ہے۔
* سچا خدا ئی خدمت گار اسمبلی میں صرف مخلوقِ خدا کی خدمت کے جذبے کے تحت جاتا ہے۔
* ناکام ہونے کا غم انہیں لاحق ہوتا ہے جو اپنے اغراض کے لئے کام کرتے ہیں۔جو لوگ خدا کی راہ میں نکلتے ہیں اور خدا کے لئے کام کرتے ہیں انہیں ناکامی کا غم نہیں ہوتا۔
* جو اقوام باتیں کم اور عمل زیادہ کرتی ہیں وہی اپنی منزل پاتی ہیں۔
* سیادت قومی خدمت ہے اس لئے یہ قوم کی مرضی و منشا کے مطابق ہونی چاہئے۔اگر حکمرانی میں قوم کی مرضی و منشا نظر انداز ہو تو سیادت عزت کی بجائے ذلت کا باعث بن جاتی ہے۔
* تکلیف کے فیصلے کبھی بھی کثرتِ رائے سے نہیں ہو سکتے ۔
* جس قوم میں دلیری اور قربانی کا مادہ باقی نہیں رہتا وہ قوم ہمیشہ دوسری اقوام کی شجاعت میں اپنے خوش ہونے کے مواقع ڈھونڈتی رہتی ہے۔
* خدا کو خدمت کی ضرورت نہیں۔مخلوقِ خدا کی خدمت ہی دراصل خدمتِ خداوندی ہے۔جو کوئی بھی سچے دل سے برائے خدا قوم کی خدمت کرے اس کا راستہ کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔
* اس ملک پر عورتوں اور مردوں کا یکساں حق ہے۔
* ہمارا گھر تشدد کی وجہ سے برباد ہو چکا ہے۔آئیے اپنے اس تاراج گھر کو پھر سے آباد کریں۔

( ان تمام اقوال کا مآخذ باچاخانؒ کی خود نوشت سوانح حیات ’’میری زندگی اور جدوجہد ‘‘ہے۔)