حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Sunday 21 March 2010

کہسار باقی افغان باقی ۹



جناب سلیم راز پشتو عالمی کانفرنس کے چیئرمین ہونے کے علاوہ ایک منجھے ہوئے شاعر ادیب اور ہمارے خطے میں ترقی پسند ادب کی علامت ہیں ۔ پشتو عالمی کانفرنس کا تصور ان کے ذہن کی پیداوار ہے ۔ یہ غالباً اپریل 1986ءکی بات ہے جب کراچی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا گولڈن جوبلی اجلاس ہو رہا تھا اس اجلاس کے اختتام پر نامور ادیب و شاعر جناب فخر زمان اور محترم سلیم راز صاحب نے اسی طرز پر عالمی پشتو اور عالمی پنجابی کانفرنسز برپا کرنے کا عہد کیا ، ان کے ساتھیوں میں اس دور کے مایہ ناز لکھاری فارغ بخاری اور رِضا ہمدانی صاحبان بھی موجود تھے ۔
 
پنجابی عالمی کانفرنس کو انعقاد سے کوئی اس لئے نہیں روک سکا کہ پنجابی زبان کے لئے وسائل کی کوئی کمی نہیں پنجابیوں نے ایک قومی کاز کے تحت اس کانفرنس کے انعقادکے لئے کاوشیں کیں حالانکہ*ضیاع* کا دور تھا ۔ لیکن پنجاب کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس کانفرنس میں شرکت اور چندے بھی دئے -وسائل کی کسی کمی کا ذکر تک نہیں آیااور نومبر 1986ءمیں یہ کانفرنس کامیابی سے تین روز تک جاری رہی ۔

دوسری طرف پشتو عالمی کانفرنس کے انعقاد کی بازگشت سنائی دی لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہوسکا ۔ محترم سید میر مہدی شاہ باچاکی صدارت میں ایک اجلاس العنایات میں منعقد ہوا ۔العنایا ت کرنل عنایت اللہ ایڈووکیٹ مرحوم کا دولت خانہ تھا جو ہر زبان کے ادباءاور شعرا کا ہائیڈ پارک تھا ۔ اس اجلاس میں پشتو کے نامور شعراءاور ادباءبھی شامل تھے اوران سب حاضرین نے متفقہ طور پر محترم سلیم راز صاحب کو کانفرنس کا چیئرمین منتخب کر لیا اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ راز صاحب انجمن ترقی پسند مصنفین کے بھی صوبائی کنوینر تھے اور دوسری بات اور بڑی وجہ یہ تھی کہ اس خیال کے محرک بھی راز صاحب ہی تھے ۔
راز صاحب نے بہتیری کوشش کی کہ سال 1986ءہی میں اس کانفرنس کا انعقاد ہو مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے تاہم اگلے سال اپریل 1987ءمیں انہوں نے یہ انہونی کر دکھائی ۔ تمام تر سازشوں اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ پشاور کے تحصیل گور گٹھڑی ہال میں اس کانفرنس کو منعقد کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں امیر حمزہ خان شنواری مرحوم (جو بابائے غزل کہے جاتے ہیں ) بحیثیت صدر شامل تھے اور اس سے بھی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پختون /افغان قوم کے محسن اعظم فخر افغان باچاخان ؒ بھی شامل تھے ۔ باچاخان ؒ نے اس کانفرنس میں جو تقریر کی تھی وہ ان کی زندگی کی آخری تقریر ثابت ہوئی کیونکہ اس کانفرنس میں بھی انہوں نے شرکت نہایت بیماری کے عالم میں کی تھی اور اس کے بعد وہ اس قدر علیل ہوئے کہ ا ن کو طبی معائنوں کے لئے بیرون ملک لے جانا پڑا ۔
دوسری پشتو عالمی کانفر نس 2000ءمیں ہوئی جس کا افتتاح والد محترم پروفیسر قلندر مومند نے کیا جبکہ پروفیسر پریشان خٹک مہمان خصوصی تھے ۔ اب تیسری عالمی پشتو کانفرنس یہی تھی جس کا ذکر اس سے پچھلے کالم سے جاری ہے ۔ 

ہمیں اس بات کا اندازہ اس سے بھی تھا کہ افغانستان ریجنل سٹڈیز سنیٹر کے ڈائریکٹر جنرل محترم عبدالغفور لیوال نے ایک ریڈیو پروگرام میں خود اس کانفرنس کو پشاور میں ہونے والی دو کانفرنسوں کا تسلسل قرار دے کر تیسری کانفرنس کہا تھا ۔ اب جو اس کانفرنس کا انعقاد ہورہا تھا تو ہمیں معلوم ہوا کہ سلیم راز صاحب نے نہ صرف اس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے بلکہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کابل میں اس کانفرنس سے اپنی برا ت کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ کابل آنے سے قبل اس کانفرنس کے حوالے سے جس طرح کی سرگرمیاں جاری تھیں ان سے ہم یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ کسی بدمزگی کا امکان بہر حال پیدا ہوگا اور ہوا بھی یہی ۔ محترم سلیم راز کا مو قف ہے کہ انہیں اس کانفرنس کے مدعوئین کے ضمن میں اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ جبکہ اس کانفرنس کا انعقاد کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر خوشحال روہی ( جو معروف ادیب صدیق روہی مرحوم کے فرزند ارجمند ہیں ) نے انہی سے ابتدائی گفتگو کی تھی ۔ 


سلیم راز صاحب کا کہنا ہے کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کانفرنس کے انتظامات کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کی سطح پر کمیٹیا ں بنائی جاتیں (ظاہر ہے غیر سرکاری اور وہ بھی ادباءشعرا ءکی ) اور اسے ایجنڈے سے لے کر مدعوئین تک اور انتظامات تک کے حوالے سے ایک انٹرنیشنل افیئر بنانے کی سعی کرنی چاہئے تھی - لیکن افغانستان میں اس کانفرنس کے انتظامات کو کچھ ایسے طریقے سے برتا گیا کہ اس کی بین الاقوامی حیثیت کو اس سے گزند پہنچا ۔ سلیم راز صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس کانفرنس کے مدعوئین کی ایک فہرست افغان دوستوں کو بھجوائی تو انہوں نے کہا کہ یہ فہرست اپنی طوالت کی بنیاد پر قابل ِ قبول نہیں اور صرف پانچ افراد کو مدعو کیا جاسکتا ہے حالانکہ یہ کانفرنس بین الاقوامی تھی اور اس میں ہمارے صوبے کے 24اضلاع اور بلوچستان کے چند ضلعوں سے کل ملا کر 39اہلیانِ قلم شامل تھے ۔

یہ عجیب وغریب سی ہی بات تھی جس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ۔ ہمارے دوست اسداللہ دانش جو شاید ڈاکٹر خوشحا ل روہی یا برادرم عبدالغفور لیوال کی طرف سے رابطہ افسر مقرر کئے گئے تھے ان کے پاس بھی اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا بلکہ وہ تو خود کو اس سارے قضئیے ہی سے لاتعلق قرار دیتے رہے تھے ۔ کابل میں جناب سلیم راز صاحب کی جانب سے اس بائیکاٹ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ۔ لوگو ں نے کوئی بات تو برسرریکارڈ یا آن دی ریکارڈ نہیں کہی لیکن محرم راز لوگوں نے جو کچھ ہم تک پہنچایا اس سے یہی معلوم ہو اکہ راز صاحب کی پریس کانفرنس سے دوست ناراض ہی تھے۔ یہ الگ بات کہ اعلیٰ سطح پر ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ۔

ہمارے ڈاکٹر مروت صاحب نے کانفرنس میں وزیر اعلیٰ امیر حید ر خان ہوتی کا پیغام پڑھا ،انہوں نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی کہ صلح جوئی ان کی فطرت میں شامل ہے وہ آج تک کسی متنازعہ امرکے اریب قریب  نظرہی نہیں آئے ۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انہیں کسی بات پر غصہ ہی نہیں آتا ‘ اگر چہ ہم نے ان کے ساتھ جتنا وقت گزارا ہے اس میں کئی مرتبہ ایسے مقامات آئے ہیں لیکن ان کے خیال میں مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں اس لئے وہ کسی ایسی ویسی بات پر چیں بجبیں بالکل نہیں ہوتے اور اگر کوئی شعوری کوشش بھی کرے تو زیادہ سے زیادہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ۔ لیکن اس معاملے کا کیا کیا جائے کہ عالمی پشتو کانفرنس صرف سلیم راز صاحب کا برین چائلڈ ہی نہیں وہ اس کانفر نس کے چیئرمین بھی ہیں اگر ایسا موقعہ مروت صاحب کی زندگی میں پیش آیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ بھی طیش میں آجائیں
( جاری هے )

No comments:

Post a Comment