حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Monday 11 November 2013

منور حسن کے بیان کا تنازعہ اور آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز

                   جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے متنازعہ بیان سے یہ بات مزید پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے کہ پاکستانی معاشرے کو تقسیم کرنے اور مذہب کی من چاہی تشریح کرنے میں مذہبی جماعتیں کس انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں ، اسی قسم کا بیان مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے بھی سامنے آیا تھا لیکن انہوں نے احتیاط برتتے ہوئے ننگی تاروں کو چھونے سے احتراز برتا تھا ، یا یوں کہئے کہ جناب سلیم صافی نے ان پر ایک احسان کرتے ہوئے ان سے یہ سوال نہیں پوچھا تھا کہ فوجی جوانوں کے طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے کو آپ شہادت سمجھتے ہیں یا نہیں ۔
                   جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام دونوں پاکستان میں بسنے والے سخت گیر مذہبی گروہوں کی نمائندہ مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں ، ان دونوں کے قائدین کے شرعی معاملات کی سیاسی تشریحات نے کھلبلی مچا رکھی ہے تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں ، مذہبی سیاسی جماعتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ معاشرے کو مقدسات کی آڑ میں ایسی توڑ پھوڑ کا شکار کردیا جائے کہ اسے کسی بھی طرح دوبارہ نہ جوڑا جاسکے ، لیکن یہ جو نام نہاد لبرل اور سیکولر طبقہ ہے اس کی جرأت رندانہ کے بھی کیا ہی کہنے اور الیکٹرانک میڈیا کی تو خیر بات ہی نہ کیجئے کہ ان کے بارے میں بھی یہ سوچ عام ہو رہی ہے کہ ان کے ڈانڈے بھی کہیں اور سے ہلائے جاتے ہیں ، یہی دیکھ لیں کہ جناب منور حسن نے اپنے ہی ملک کے فوجی جوانوں کے حوالے سے ایک بات کہی اور یہ محولہ دونوں طبقے(روشن خیال سیکولر/لبرل اور میڈیا) آئی ایس پی آر کی جانب سے مذمتی پریس ریلیز کا انتظار کر رہے تھے ، ان کے نزدیک اس بات کی اہمیت ہی اس وقت پیدا ہوئی جب خود فوج نے اس کا نوٹس لیا اور یوں ان کو اپنی روشن خیالی اور فوج کی جانب سے دی گئی قربانیوں کے تقدس کا خیال آیا ، سو یہی وجہ ٹھہری کہ پاکستان کے تمام نیوز چینلوں پر کل اور آج ( ان سطور کے لکھنے تک) یہ بات شہ سرخیوں میں شامل ہوئی اور اس پر براہ راست پروگراموں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ جو نجانے کب تک جاری رہے گا ۔ 
                 فوج کی پریس ریلیز میں مولانا مودودی کی خدمات کا اعتراف اور ان کے لئے سنہری الفاظ کا استعمال بھی محل نظر بلکہ مہمل سی بات ہے ، آئی ایس پی آر ایک ایسا نشریاتی رابطہ ہے جس سے پاکستان کے عوام کو باالخصوص اور دنیا کے دیگر ملکوں کو یہاں کی فوجی قیادت کی عقل و دانش سمجھنے میں مدد ملتی ہے ، پریس ریلیز کے اس حصے سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ فوج الشمس ، البدر ، شانتی کمیٹیوں اور رضاکاروں کی چیرہ دستیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ، وہ چیرہ دستیاں جو بنگلہ دیش (اس وقت کے نام نہاد مشرقی پاکستان ) میں حریت پسندمسلمانوں اور ہندووں سے روا رکھی گئی ، اور جنگی جرائم کی تاریخ میں اسے ہولوکاسٹ کے بعد بدترین تشدد سمجھنا چاہئے تھا ، اور ظاہر ہے اس وقت جب انسانیت کے خلاف جماعت اسلامی ان جرائم کا ارتکاب کررہی تھی تو اس کے امیر مولانا مودودی ہی تھے جو اس سارے عمل کے نگران تھے ، اس سے یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ پاکستان کے فوج نے بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما غلام اعظم کو پاکستان میں پناہ دینے کے فعل قبیح کو بھی ابھی تک ایسا امر نہیں سمجھا جس پر اسے ندامت ہو۔
                    پریس ریلیز کے اس حصے کو غیر ضروری اور سیاق و سباق سے بالکل ہی الگ سمجھا جانا چاہئے تھا ، موجودہ حال میں تو اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ فوج کو منور حسن کے حالیہ خیالات سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ اس کے ماضی کا نہایت ہی قریبی ساتھی بلکہ حلیف اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا ہے ۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کا عمل نہایت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن اس سے یہ بات بہر حال مسلّم ہوجاتی ہے کہ اصلاح پر آمادگی کا جوہر موجود ہے ، منور حسن کے بیان کے پسِ پشت محرکات تو سب کو معلوم ہیں ، پاکستان کے عوام اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں اور خود پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے بھی اس امر سے آگاہ ہیں کہ القاعدہ اور دیگر کالعدم تنظیموں کے اہم رہنماؤں کی گرفتاریاں کہاں سے ہوتی رہی ہیں ، سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کا ماسٹر مائنڈ کہاں سے پکڑا گیا تھا، اور یہ جو عالمی ایک کڑی مذہبی تنظیموں کی ہے اس میں جماعت اسلامی کا کردار کیا ہے ، افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اس ملک کی اعلیٰ عدالتیں عتیقہ اوڈھو کے سامان سے دو بوتل شراب کی برامدگی کا ازخود نوٹس لینے کو ہر دم اتاولی رہتی ہیں لیکن ریاستی اداروں کے اندر بے چینی پھیلانے اور ہزاروں معصوموں کے لواحقین کے دلوں پر چھری پھیرنے والوں کے ضمن میں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے حوالے سے جنگی جرائم کے جو مقدمات قائم ہوئے اور جن پر فیصلے بھی آئے وہ بھی ہماری اعلیٰ عدلیہ کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں ، ان حالیہ بیانات کے بعد تو الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کو خود اس بات کا نوٹس لینا چاہئے تھا ، منور حسن صاحب نے تو فوج کے بیان کے بعد بھی اپنے خیالات پر مصر رہنے کا اعلان کر دیا ہے ، ان سطور کے لکھنے تک نیوز چینلوں پر جو پٹیاں چل رہی تھیں وہ اس بات کا برملا اظہار کر رہی تھیں کہ جماعت اسلامی والے اس معاشرے میں رہنے والوں کو کس سمت میں لے کر چلنا چاہتے ہیں ۔
                   ہمیں تو اس بات کا بھی افسوس ہے کہ پاکستان کے مذہبی رہنماؤں سے زیادہ عقل ودانش کا مظاہرہ طالبان کی مجلس شوریٰ کرتی رہتی ہے ، ان کی جانب سے حال ہی میں فضل اللہ کو تحریک طالبان کا امیر بنانے کا فیصلہ نہایت ہی سیاسی بصیرت کا حامل ہے ، ایک تو اس فیصلے کے بعد پاکستان کے افغانستان سے تعلقات مزید بگڑ جائیں گے کہ نئے امیر کا مسکن افغانستان ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان کے خلاف آپریشن نہیں ہوسکے گا ، پاکستان کی فوج افغانستان جاکر آپریشن کرنے سے تو رہی ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے خود کو اس بازاری دانش کے اثرات سے محفوظ رکھا ہے جس میں پاکستان کے مذہبی رہنما مبتلا ہیں اور جس کی طرف گزشتہ دنوں میں انہوں نے خود اشارہ بھی کردیاتھا کہ نیٹو سپلائی کے معاملے پر عمران خان بازاری بیانات سے گریز کریں ۔ 
                         پاکستان حالت جنگ میں ہے ، کوئی بھی ایسا حصہ ملک کا نہیں جسے مامون کہا جاسکے، ہمارے شہر ، قصبے اور گاؤں سب کے سب سنگین بدامنی کا شکار ہیں ،ریاست کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے فوج کے جوان بیرکوں میں نہیں بلکہ قبائلی علاقوں میں ہیں ، جہاں وہ القاعدہ ، طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں سے برسر پیکار ہیں ، ان حالات میں سید منور حسن کا یہ بیان اور اس پر مصر رہنے کا اعلان بالکل ایسا ہی طرز عمل ہے جیسا بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی نے ان کی تحریک آزادی میں ادا کیا تھا، وہاں تو ان پر پابندی بھی لگ گئی ان کی سیاسی سرگرمیاں بھی کالعدم ٹھہر ا دی گئیں لیکن یہاں ان کے بانی کو فوج اب بھی ہیرو ہی سمجھتی ہے ، اور کیوں نہ سمجھے پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں ایک ایسا شخص بھی پارلیمانی سیاست میں حصہ لے سکتا ہے جس نے دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکے تھے ، جنرل نیازی کسی اور ملک میں ہوتا تو واپسی پر خود کشی کرلیتا ، قید کر لیا جاتا یا عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بنتا لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ، کچھ دنوں بعد کسی کو یہ باتیں یاد بھی نہیں رہیں گی 

Friday 1 November 2013

ایک کہانی


قریش خٹک بنیادی طور پر ایک صحافی ہیں ‘بڑا عرصہ پشاور میں رہے ہیں ‘صحافتی سیاست میں اچھے خاصے متحرک تھے لیکن اب وہ این جی اوز کو پیارے ہو چکے ہیں ‘ظاہر ہے خاندان میں وسعت ضروریات میں وسعت لے کر نمودار ہوتی ہے اور پھر دل ودماغ کی قوتِ فیصلہ سازی میں معدے جیسا عضوِ کثیف بھی شامل ہوجاتاہے تو ایسے میں صحافت جیسے پیشے کو بطور پیشہ اپنانا مشکل ہوجاتا ہے ‘ہاں البتہ ایک شوق یا عادتِ مرغوب کی حیثیت سے اس کی موجودگی گراں نہیں گزرتی ‘ویسے بھی ایک لکھاری تبھی لکھنا بند کرتا ہے جب وہ سانس لینا بند کر دے ‘ورنہ اُصولی طور پر وہ اس وقت بھی لکھ رہا ہوتا ہے جب کچھ بھی نہیں لکھ رہا ہوتا۔ایک ای میل میں رفیقِ شفیق قریش خٹک نے طبع زاد ایک کہانی بزبانِ افرنگ لکھی ہے ۔کہانی اس قدر متعلق ہے کہ اس کا ترجمہ کئے بغیر موجودہ مہمل حالات کو کوئی معنے نہیں پہنائے جاسکتے۔ خوف خلقِ خدا کے باعث اس میں تھوڑی ترمیم کرنی پڑے گی تاہم کوشش کی جائے گی کہ اس سے اصل معنے قتل نہ ہوں ۔قریش خٹک لکھتے ہیں کہ یہ کہانی انہوں نے اپنی بچی کے لئے لکھی ہے حالانکہ میرا خیال ہے کہ یہ کہانی سب کے لئے ہے۔کہانی ملاحظہ ہو
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بدمعاش شہزادے نے ایک بندر پال رکھا تھا جو اسی شہزادے کی مانند شریر و بد طینت تھا۔اس شریر و شر انگیز بندر کے پالنے کی وجہ یہ تھی کہ بدمعاش شہزادہ اپنے دیگر ہم منصبوں کا جینا دو بھر کرنا چاہتا تھا اور اس بندر کی چالاکیوں اور شرارتوں سے واقعی اس بدمعاش شہزادے کی دلی مرادپوری ہوتی رہتی تھی ۔کوئی اس شریر بند ر کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا۔شہنشاہ معظم بھی شہزادے اور بندرکی حرکتوں سے محظوظ ہوتے رہتے تھے اور اس قدر ان کو شہزادے اور بندر کی ادائیں بھائیں کہ شہنشاہ معظم نے شہزادے کو باقاعدہ الگ سے ایک اچھی خاصی رقم دینی شروع کردی تاکہ حظ اُٹھانے کی شدت میں اضافہ ہوتارہے۔اپنے بندر کی شرارتوں پر مفخّر شہزادہ شہنشاہ کے اس التفات کے باعث اچھا خاصابہک گیا بلکہ زا ئد الاعتمادی کا شکا رہو گیاچناں چہ شہزادے نے فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ خود شہنشاہ معظم کو تختۂ آزار بنایا جائے سو اس نے بندر کو حکم دیا کہ قصرِ شہنشاہی کوہدف بناؤ۔بندر نے حکم کی تعمیل بحسن و خوبی انجام دی ‘شہنشاہ کا قیمتی گل دان توڑ دیا ‘ان کے توشہ خانے میں ایک ہڑبونگ برپا کر دی اور ایسی اتھل پتھل مچا دی کہ الحفیظ و الامان !شہنشاہ معظم نے دربار سے دیوان خانے آکر جو یہ تباہی دیکھی تو غصے سے لال پیلے ہو گئے ‘منہ سے جھاگ بہنے لگی اور دھاڑتے ہوئے بندر کے فی الفور قتل کا شاہی حکم جاری کر دیا۔شہزادے کو قطعاًحالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔تاہم جب بات بہت بڑھ گئی اور شہنشاہ نے ہر قسم کا وظیفہ موقوف کرنے کی دھمکی دے دی تو شہزادے نے بندر کو گھنے جنگل میں فوری طور پر روپوش ہونے کا مشورہ دیا ۔بندر جنگل چلا گیا‘شہزادے نے شہنشاہ کو لکھوا بھیجا کہ بندر گھنے جنگلوں میں روپوش ہو گیا ہے اور اس علاقے میں بندر کو اس لئے تلاش نہیں کیا جا سکتا کہ وہاں اس کی عملداری کمزور ہے ‘اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ گھنے جنگلوں میں بندر کی تلاش کا مشکل کام سر انجام دے سکے ‘ اس پر شہنشاہ نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دئے اور اپنی فوجیں بھی بھجوا دیں اور شہزادے کو حکم دیا کہ ان افواج کی سرکردگی میں فوری طور پر گھنے جنگلوں میں بندر کی تلاش شروع کی جائے اور ہر حال میں اس کا خاتمہ یقینی بنایا جائے ۔چاروناچار شہزادے کو بادلِ نخواستہ بندر کی تلاش میں شہنشاہ کی فوجوں کے ساتھ گھنے جنگلوں کا سفر اختیار کرنا پڑا ‘فوج بندر تلاش کرنے میں بالآخر کام یاب ہو گئی ‘انہیں بندر ایک اونچے درخت پر بیٹھا مل ہی گیا ۔انہوں نے فوری طور پر شہزادے کو خبر کر دی شہزادہ نے جب دیکھا کہ فوجیں بندر کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو سخت دل گرفتہ ہوا تاہم دل شکستہ نہیں ہوا ‘شہنشاہ کے عساکر کے اعلیٰ افسر نے بندر کو گولی مار نے کا حکم دیا لیکن شہزادے نے اسے حکمت عملی کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ یہ مناسب فیصلہ نہیں ‘بہتر یہ ہوگا کہ پہلے درخت کو کاٹ دیا جائے ۔ادھر شہنشاہ کو شہزادے نے مراسلہ بھجوا دیا کہ مبارک ہو !شریر بندر کا اتاپتا مل گیا ہے اور وہ جس درخت پر بیٹھا ہے اس کے کاٹنے کا انتظام ہو رہا ہے لہٰذا ان حالات کے پیش نظر وسائل کی مزیدفراہمی پر غور کیا جائے یہ اور اسی قسم کی دیگر باتو ں سے ایک اچھاخاصا دفتر بنا کر شہنشاہ کو تواتر سے بھجوایا جانے لگا ادھر بندر ایک درخت سے دوسرے درخت پرپھلانگتا رہا ۔شہنشاہ کی فوج نے درختوں کو کاٹ کاٹ کر پورے جنگل کا حلیہ بگاڑ دیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پورے جنگل کو گنجا ہی کر دیااس صورتِ حال میں جنگل سے نایاب پرندے نقل مکانی کرنے لگے ‘جانووروں کو شہنشاہ کی فوج ذبح کر کے خوراک کی کمی پوری کرتی رہی ‘شہزادے کی سفارش پر نقد رقوم اور دیگر وسائل فراہم ہوتے رہے ‘ہوتے ہوتے اس اثنا میں آٹھ برس بیت گئے ۔اب شہنشاہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا ۔اس نے ایک آخری خط شہزادے کو لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر جلد ہی بندر کا خاتمہ نہ کیا گیا تو شہنشاہ کو خود آنا پڑے گا ۔یہ دھمکی بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی سو شہنشاہِ معظم خود عازم جنگل ہوئے جنگل پہنچنے پر انہوں نے افواج کی قیادت خود سنبھالی اور بندر کے گرد گھیرا تنگ کردیا اور ساتھ میں شہزادے سے اس رقم کی تفصیل اور حساب مانگا جو بندر کے خلاف اس مہم پر خزانۂ شاہی سے صرف ہوئی تھی ‘شہنشاہ کی خوشنودی کا ایک آخری حربہ شہزادے کو یہ سوجھا کہ اس نے پورے جنگل میں آگ لگوا دی ‘جنگل کی آگ پورے علاقے میں پھیل گئی ‘دھویں کے بادل دور دور سے نظر آنے لگے ‘ایک دھواں تھا جس نے بینائی کو مفلوج کر دیا ‘اور یہ دھواں جب رخصت ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ دور پہاڑ کی چوٹی پر شریر بندر شہزادے کے کاندھے پر بیٹھا خوخیا رہا تھااور شہزادہ بندرسے اٹھکھیلیوں میں مصروف تھا‘لوگوں نے جب بندر کو شہزادے کے کاندھے پر سوار دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے اس پر شہزادے نے ایک فلک شگاف چیخ میں کہا کہ اسے یہ بندر ہر کسی سے پیارا ہے اور وہ کبھی بھی اس بندر کو کسی کے ہاتھوں ختم ہونے نہیں دے گا۔شہزادے نے یہ کہا اور پہاڑ کی دوسری جانب اتر گیا‘‘۔
کہانی اگرچہ یہاں پر ختم کر دی گئی ہے مگر اصل کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے ‘یعنی اس جنگل کے نذرِآتش ہونے کے نقصانات کی روداد۔ویسے اس کہانی کا نتیجہ ہی اصل کہانی ہے اور اس کا انحصار کہانی کے قاری پر ہے کہ وہ اخذ کیا کرتا ہے ؟