حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Friday 3 June 2011

سلیم شہزاد ۔۔۔ اقرباءمیرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر


 
وہ جس کی آنکھ نے کل زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک میں نہ تھا وہ بچھڑنے والا ہے
 
پاکستان میں ایشیا ٹائمز کے بیورو چیف اور سینئر صحافی سلیم شہزاد کا قتل سال رواں میں شہید ہونے والے دیگر صحافیوں سے قدرے مختلف ہے ۔ اس قتل کے پس پردہ محرکات کی نشان دہی کرنے والے نہایت ہی وضاحت سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اس واقعہ کی ذمہ داری آئی ایس آئی یا فوج ہی سے وابستہ کسی اینٹلی جنس ادارے پر عائد ہوتی ہے اور اپنے اس الزام کے ثبوت کے لئے ان کے پاس دلائل کا ایک نہ ختم ہونے والا انبار موجود ہے 

اس حوالے سے حیران کن امر یہ ہے کہ جس ادارے پر الزام لگایا جارہا ہے اس کی جانب سے تعلقات عامہ کی ذمہ داری جن پر عائد ہوتی ہے وہ )ان سطور کے لکھے جانے تک )بالکل خاموش ہیں ، ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان میں کرتا دھرتا علی دیان نے تو یہ تک کہا کہ انہیں مقتول نے واقعے سے سال بھر پہلے آگاہ کردیا تھا کہ اگر اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ذمہ دار کون ہوگا ؟برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ویب سائٹ پر ایک مضمون نگار نے یہ بھی کہا ہے کہ علی دیان کو انہی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ وہ بہت جلد اپنے گھر پہنچ جائیں گے انہیں پہلے موبائل فراہم کیا جائے گا اور بعد ازاں رہا کر دیا جائے گا، یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ یہ اغوا شمالی یا جنوبی وزیرستان سے نہیں ہوا تھا ، نہ ہی ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان ، پشاور ، باڑہ یا پختونخوا کے کسی بھی ضلع سے سلیم شہزاد کو اغوا کیا گیا تھا بلکہ امر واقع یہ ہے کہ انہیں اسلام آباد سے اٹھایا گیا ، ان پر دو دن نجانے کہاں سخت ترین تشدد کیا گیا اور بعد میں انہیں سرائے عالمگیر کے قریب مردہ حالت میں پھینک دیا گیا ، مقامی پولیس نے مقتول کا پوسٹ مارٹم کرایا اور ایدھی والوں نے انہیں دفنا بھی دیا ، جس شخص نے سلیم شہزاد کو غسل دیا اور قبر میں اتارا اس نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوسکا کہ بالآخر پولیس مقتول کی تدفین میں اس درجہ عجلت پر بضد کیوں تھی ؟ 

سلیم شہزاد کے قتل سے قبل اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ ان کی شناخت نہ ہوسکے اس کا ایک طریقہ تو ان کے قتل کے انداز میں ڈھونڈا گیا اور اس دوسری حرکت یہ کی گئی کہ ان کی جیب سے شناختی کارڈ نکال کر ان کی گاڑی میں پھینک دیا گیا ، تاکہ فوری شناخت نہ ہونے کی صورت میں تدفین میں کوئی رکاوٹ نہ رہے ، 

اس قتل پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے دوروزہ سوگ کا اعلان کیا ہے اور کم و بیش ہر ضلعی و تحصیل صدر مقام پر اہل صحافت نے مظاہر ے بھی کئے ہیں ، لیکن چند سوالات و خدشات ایسے ہیں جو شہید سلیم شہزاد کے سوئم سے قبل ہی اس پیش گوئی کو نہایت ہی مستند بنیاد فراہم کرتے ہیں کہ ہر احتجاج دیوار سے سر ٹکرانے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوگا، اس کیس کو میڈیا جلد یا بدیر فراموش کردے گا اور نامزد ملزموں کے خلاف ایف آئی آر تک نہیں کاٹی جاسکے گی اور اگر ٹیسٹ ٹیوب سول سوسائٹی ( جو افتخار چودھری کی ملازمت کی بحالی کی تحریک کے فوراً بعد کوما میں چلی گئی تھی اور اب اس کے میڈیائی مشیر ہی رہ گئے ہیں جو صرف اخباری بیانات سے کام چلارہے ہیں) کی تھوڑی بہت دلچسپی رہی اور کسی سوموٹو ایکشن کے ذریعے کچھ ہلچل مچی تو مسنگ پرسنز کے مقدمے کی طرح اس کی بھی تاریخوں پر تاریخیں بدلتی رہیں گی اور مسئلہ 2013ءمیں کسی نئے چیف جسٹس کے سامنے ہوگا (بشرطیکہ کسی فل کورٹ اجلاس میں پارلیمینٹ سے عدلیہ یہ مطالبہ نہ کر بیٹھے کہ جناب چودھری صاحب کو تاحیات چیف جسٹس بنا دیا جائے) 

جب سلیم شہزاد کے قتل کی پہلی خبر جیو ٹی وی پر سامنے آئی تو جو حضرت ٹیلی فون کے ذریعے تفصیلات دے رہے تھے ان کو شاید پہلے سے سمجھا دیا گیا تھا کہ انہیں کہا کہنا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ اس قتل کے پس پشت محرکات میں ان کا صحافتی کردار یا کوئی مخصوص سٹوری تو نہیں تھی تو جناب رپورٹر صاحب کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا ، نیوز کاسٹر نے ان سے اگلا سوال یہ نہیں پوچھا کہ بظاہر ایسا کیوں نہیں لگتا ؟کیا سلیم شہزاد پراپرٹی ڈیلر بھی تھے یا ان کا تعلق کسی ایسے قبائلی یا دیہی علاقے سے تھا جہاں پر قتل مقاتلوں کی دشمنیاں پشت در پشت چلتی رہتی ہیں ۔ ظاہر ہے جب ایک صحافی اپنی گمشدگی اور قتل سے پہلے ان خطرات کا تذکرہ کرتا ہے جو اس کے صحافتی کردار کی وجہ سے اسے لاحق ہیں تو اس کی گمشدگی اور قتل کی کوئی اور وجہ ظاہری یا باطنی طور پر کیا ہوسکتی ہے ؟ 

ہیومن رائٹس واچ کے علی دیان نے بی بی سی کے مضمون نگار کو یہ بھی بتا یا تھا کہ دوہزار دس میں انہیں سلیم شہزاد نے ایک ای میل کے ذریعے بتا دیا تھا کہ آئی ایس آئی کے دفاتر میں نیوی کے دو افسروں نے انہیں بلا کر کہا کہ انہوں نے ایک دہشت گرد کو گرفتار کیا ہے اور اس کے قبضے سے بڑی تعداد میں مواد برامد ہو ا ہے جس میں ان لوگوں کے نام اور پتے بھی درج ہیں جن سے وہ روابط رکھے ہوئے تھے اور یہ کہ اگر ان ڈائریوں میں سلیم شہزاد کا نام ملا تو انہیں ضرور بتایا جائے گا ۔ سلیم شہزاد نے اپنی ای میل میں لکھا ہے کہ انہیں یہ بات ایک دھمکی لگی( یہ الگ بات کہ انہوں نے اس دھمکی کو پرکاہ کے برابر اہمیت بھی نہیں دی)

یہ حقیقت ہے کہ ان اداروں کا طریقہ  واردات کچھ ایسا ہی ہوتا ہے ، افغانستان پر امریکی حملے کے وقت پشاور میں آئی ایس آئی کے دفتر میں ایسی ہی ایک پیشی اور اپنے دفتر میں ملٹری اینٹلی جنس والوں کی پوچھ گچھ کا تجربہ مجھے بھی ہے ، انہوں نے اس وقت کے پولیس چیف اور چند دیگر کرپٹ پولیس افسروں کے خلاف کچھ تحریری مواد اور سی ڈیز دکھا کر مجھے یہ بتا یا تھا کہ ان لوگوں کی کرپشن کے یہ ثبوت میں نے انہیں بھجوائے ہیں ، میں نے انہیں کہا کہ اگر مجھے آپ لوگوں پر اتنا ہی اعتبار ہوتا تو آپ لوگوں کو یہاں آنے کی زحمت ہی کیوں ہوتی ؟ان کے اس اقدام کا مقصد صرف مجھے ان پولیس افسروں کے عتاب کا خوف دلا کر خاموش کرنے کا تھا اس زمانے میں حرف بحرف کے عنوان سے میں روز انہ کالم لکھتا تھا تو روزنامہ آج میں شائع ہوتا تھا ، لیکن وہ محترم حیدر جاوید سید کی بات ہم عادی مجرم ہیں

سو شہید سلیم شہزاد کو ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کی اصل وجہ بتانے کی پاداش میں یہ انتباہ اسی لئے جاری کیا گیا تھا اور یہ واحد موقع نہیں تھا ، ان کے کام کا تمام تر علاقہ چونکہ عسکریت ، طالبان ، القاعدہ اور سلامتی کے موضوعات سے جڑتا تھا اس لئے ان کی اکثر و بیشتر پیشیاں ہوتی رہتی تھیں ، لیکن پیشیوں ، تشدد ، معاشی مقاطعے ، جیل ، گمشدگیاں وغیرہ تو اس راہ میں عام ہیں ، جھیلنی پڑتی ہیں لیکن اس بات کا کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا تھا کہ دوہزار گیارہ میں نازی دور کے گسٹاپو کی یاد دلادی جائے گی اور ایک صحافی کے قتل کے حوالے سے وہ ادارے مورد الزام ٹھہریں گے جو ملکی سلامتی کی ذمہ داری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ، شہید سلیم شہزاد کے قتل کا واقعہ وقت کی گرد کی نذر ہوجائے گا لیکن وہ لوگ جو یہ سطریں پڑھ رہے ہیں انہیں کم از کم یہ بات ضرور سوچنی چاہئے کہ سلیم شہزاد کو کیوں قتل کیا گیا؟صحافت اور دوسرے پیشوں میں ایک بنیادی فرق ہے ، صحافت کلی طور پر معاشرے کی امانت ہوتی ہے ، جس شے کو اقوام متحدہ کا چارٹرحق آگہی يعنی Right to know قرار دیتا ہے اس حق کے حصول کے لئے صحافی ہی ہیں جو کروڑوں اربوں لوگوں کو آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ، پاکستان کے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ لوگ جو ان کے حق آگہی کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے ان کی جانوں کے ضیاع کے بعد جو فرائض عوام کے بنتے ہیں ان کی بجاآوری میں کیا اوامر مانع ہیں؟کیا عوام کا فرض نہیں بنتا کہ ایسے واقعات پر سراپا احتجاج بنیں، ظاہر ہے یہ کام سیاسی جماعتوں کی توسط سے ہوگا ، ٹیسٹ ٹیوب سول سوسائٹی تو کوما میں ہے ، استغاثہ جن کے خلاف ہے وہ اصل قوت نافذہ Authorityہیں، کیا سیاسی جماعتیں ایسے نکات کو تحریک کی شکل میں ڈھال کر غاصبوں سے عوام کا بلاشرکت غیرے حق اقتدار چھیننے کی سعی نہیں کرسکتیں..........چاہے ناکام ہی کیوں نہ ہو، مورخ کو کچھ تو اچھا لکھنے کا بھی موقع دینا چاہئے!!!!