حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Tuesday 12 August 2014

سانحۂ بابڑہ۔ یہ خون خاک نشیناں تھا؟

یادگار شہدائے بابڑہ چارسدہ

سانحۂ بابڑہ۔ یہ خون خاک نشیناں تھا؟

ہمارے قومی وجود کے زخم ایسے ہیں اور اتنے ہیں کہ نہ ہی ان کی شدت پوری وضاحت سے بیان کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان کا شمار ممکن ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اند مال اور مداوے کے مطالبات ہماری فہرست میں ابھی شامل نہیں ہوئے۔ جو جو زیادتیاں ہوئی ہیں ان کا ذکر کرنا بھی اس لئے دشوار ہے کہ اس کیلئے بھی ایک عمر چاہئے اور جس رفتار سے المیے واقع ہورہے ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ ایسی کوئی المیہ شماری مستند ٹھہر سکے ۔ آج 12 اگست کا دن ہے اس دن کی سیاہی کو بیان کرنے کیلئے ابھی الفاظ ایجاد ہی نہیں ہوئے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایسے حروف ہی نہیں ہیں جو ایسے الفاظ کی ترتیب میں معاونت کریں جو اس تاریک دن کی سیاہی کا مکمل ابلاغ کرسکیں۔ ہم اس بابت کیا کہیں ایک چشم دید گواہ کی آپ بیتی سن لیجئے۔ 
سالار کریم داد خان اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں۔
12 اگست 1948ء کو علی الصبح ہی لوگ بابڑہ پہنچنا شروع ہوگئے تھے جو لوگ دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے وہ ایک روز قبل ہی پہنچ گئے تھے قرب و جوار کے دیہات سے بھی خدائی خدمت گاروں کی ایک بڑی تعداد اس لئے صبح سویرے آرہی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ شاید انہیں بابڑہ پہنچنے ہی نہ دیا جائے۔ اس دن بہت سارے لوگوں کو فوج اور پولیس والوں نے دریا میں پھینک دیا تھا۔ لیکن دریا میں پھینکنے والے بھی تیر تیر کر ایک راستے اور دوسرے راستے سے بابڑہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ پکڑ دھکڑ بڑی شدت سے شروع تھی لیکن پختونوں کے جذبے کے سامنے ہر جبر و ستم خس و خاشاک ثابت ہورہا تھا۔ خدائی خدمت گار ٹولیوں کی صورت بہم پہنچ رہے تھے ۔ بابڑہ کی جامع مسجد کی چھت پر فوجی اور ساتھ ہی دوسری طرف مسلم لیگی اسلحہ بدست تیار کھڑے تھے پو لیس کے ’’شیر دل ‘‘ جوان بھی ایک کثیر تعداد میں موقع پر موجود تھے ، انتظار جاری تھا ، ان سب اسلحہ برداروں کا غیظ و غضب بلا جواز بالکل نہیں تھا دراصل انہیں ایک نہایت ہی جانکاہ صدمہ پہنچا تھا اور وہ فرنگیوں کا یہاں سے جانا تھا سو یہ تمام اسلحہ بدست خدائی خدمتگاروں سے اپنے اصل آقاؤں یعنی فرنگیوں کی اس ہتک کا بدلہ لینے کو سخت اتاولے ہورہے تھے جو جو خدائی خدمت گاروں نے ان کو یہاں سے بھگا کر ان کے ماتھے پر ثبت کردی تھی۔ فوج نے رات ہی سے سارے انتظامات کررکھے تھے راستے سارے بند تھے۔ خیالی کا پل ‘ قاضی خیلوں والا پل مردان کی سمت سے آنے والا راستہ غرضیکہ ایسا کوئی راستہ ہی نہیں تھا کہ اسے اختیار کرکے بابڑہ پہنچا جائے۔ لوگ تیرتے ہوئے کشتیوں میں ٹولیوں میں بابڑہ پہنچنے کی کاوشوں میں پوری تندہی سے لگے ہوئے تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے سالار اعظم (سالار امین جان خان۔۔ناقل) سے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ وقت پڑنے پر جان و مال کی پرواہ نہیں کریں گے اور قومی مقاصد کیلئے ہر طرح کی قربانی دیں گے ۔ یہ کوئی کرائے کی فوج نہیں تھی نہ ہی انہیں کوئی اجرت ملتی تھی۔ یہ لوگ اگر سختیاں جھیلنے کا عزم مصمم کرکے اسے عملی جامہ پہنا رہے تھے تو اس کیوجہ صرف یہ تھی کہ ان کے دل میں قوم کا غم تھا۔ اور جس دل میں قوم کا غم ہو وہاں خوف خدا کے سوا دوسرے کسی خوف کا وجود نہیں ہوتا۔ سالار کریم داد لکھتے ہیں کہ اپنے گاؤں کے رضا کاروں کے ہمراہ وہ بھی کس طرح بابڑہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے یہ سفر کشتی میں طے کیا تھا۔ لکھتے ہیں کہ بابڑہ میں کافی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے پر سالار امین جان خان نے چارسدہ کی طرف مارچ کا حکم دیا۔ فوج پہلے سے ہی مورچے سنبھال چکی تھی۔ اس جلوس میں صرف مرد ہی نہیں تھے خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم سینوں سے تھامے اپنے بھائیوں کے ہم رکاب تھی۔ یہ جلوس جیسے ہی بابڑہ کی مسجد کے قریب پہنچا تو سڑک کے بائیں کنارے سے مسلم لیگی مجاہدین نے فائرنگ شروع کردی ، جلوس کے شرکاء یہ سمجھے کہ شاید خوشی کی فائرنگ ہے ، سو جلوس چلتا رہا تاہم اس دوران اچانک لوگ گرنے لگے ، خون سے پوری سڑک لال ہوگئی ، مشہور خدائی خدمت گار اور شاعر فضل رحیم ساقی اپنی کتاب خدائی خدمت گار میں لکھتے ہیں کہ دراصل یہ مسجد کی چھت پر موجود فوجی جوانوں کو سگنل تھا کہ شروع ہوجاؤ چنانچہ مسجد کی چھت پر موجود سپاہیوں نے فائرنگ شروع کردی ۔دستی بموں کا بے دریغ استعمال ہونے لگا اور مشین گنیں تھرانے لگیں ، جلوس کے ہراول دستے سے بھی آگے جانے والے خدائی خدمتگار جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں اور بچوں کی تھی موقع پر ہی شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئی ، اس ظلم وتعدی میں موقع پر موجود پولیس نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا ، ان کے پاس بھی جو اسلحے ، گولہ وباردو کا ذخیرہ تھا وہ بھی ان نہتوں پر استعمال ہونے لگا ، ساقی صاحب لکھتے ہیں کہ فتح محمد سالار جو پہلے فوج میں تھے اور اب خدائی خدمتگاروں کے جرنیل تھے نے چیخ چیخ کر شرکا ء سے کہا کہ لیٹ جائیں ، بہت ساری خواتین جو اپنے بھائیوں ، بچوں کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے چھتوں پر کھڑی تھیں اور جلوس دیکھ رہی تھیں ان کو بھی گولیاں لگیں ، متعدد شہید ہوئیں ، اسفندیار ولی خان کی والدہ تاجو بی بی (گوہر تاج )جو اس وقت حاملہ تھیں بھی اس جلوس میں شامل تھیں اور وہ بھی زخمی ہوئیں ، آتش و آہن کی یہ بارش جاری تھی کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد قرآن مجید سروں پر اٹھائے گھروں سے باہر نکل آئیں ، ان کا خیال تھا کہ یہ تو انگریز نہیں مسلمان ہیں ، اس بزرگ وبرتر کتاب کا واسطہ مان لیں گے ، خواتین نے قرآن کریم کا واسطہ دے کر عافیت مانگی مگر گولی چلانے والوں کو صرف موت بانٹنے کا حکم دیا گیا تھا۔ مملکت خدادا کے مسلمانوں سپاہیوں نے کرہ ارض اور فرش پر موجود مقدس ترین کتاب کی پرواہ نہیں کی۔ قیامت کا سماں تھا ایک محشر برپا تھا۔ دھول مٹی بارود بن چکی تھی ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔سالار کریم داد کہتے ہیں کہ نستہ کے صحت خان گولی کھا کر زمین پر گر پڑے ان کا سر میں نے اپنی گود میں رکھا۔ چاروں طرف آگ برس رہی تھی لیکن کوئی خدائی خدمتگار اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ یہ گولیاں ان لوگوں پر چلائی جارہی تھیں جو انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ہر قسم کی قربانی دے چکے تھے اور گولیاں چلانے والے وہ تھے جنہوں نے انگریزوں کی حکمرانی کے قیام اور اس کے استحکام میں ہر طرح کے مفادات سمیٹے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ آزادی ملی تو اختیار ان لوگوں کو ملا جو انگریزوں کے کاسہ لیس تھے۔ جو غدارانِ وطن تھے آج حاکمان وطن تھے ۔ خواتین کو قرآن کریم سمیت شہید کردیا گیا تھا جیسے دشمن پر گولیاں برسائی جارہی ہوں اور مقصد فتح کرنا ہو۔ ایک اسلامی ملک میں عظیم قرآن کے اوراق فضاؤں میں اڑ رہے تھے لیکن پولیس اور فوج کے جوان اور مسلم لیگ کے غازی جو سارے مسلمان تھے اسے اپنی غیرت کیلئے کوئی تازیانہ نہیں سمجھ رہے تھے۔ ساڑھے چھ سو کے قریب لاشیں اٹھائی گئیں۔ زخمیوں کا شمار ممکن نہی نہیں تھا۔ یہ تھا ایک خدائی خدمت گار کا بیان اور آنکھوں دیکھا حال۔ سالار امین جان خان کہتے ہیں بلکہ لکھتے ہیں کہ اس جلوس کی باقاعدہ اجازت لی گئی تھی۔ لیکن جیسے ہی جلوس روانہ ہوا تو مطلع کیا گیا کہ جلوس پر دفعہ 144 کے تحت پابندی لگ گئی ہے اور یہ ممکن نہ تھا کہ جلوس نکلے بغیر ہی منتشر ہوجائے۔ عینی شاہدین کا یہ کہنا ہے کہ پولیس اور فوج کے بہادر اور شجیع جوانوں نے بہت ساری لاشیں اٹھانے نہیں دیں۔ اکثر کو قریبی دریا میں پھینک دیا گیا۔ زخمیوں کے بارے میں یہ حکمنامہ جاری ہوچکا تھا کہ ان کا علاج کسی سرکاری شفاخانے میں نہیں ہوگا۔فضل رحیم ساقی مرحوم و مغفور لکھتے ہیں کہ بابڑہ کا سانحہ 12اگست ہی کو ختم نہیں ہوا اس کے بعد بھی ہفتوں جاری رہا ، سب سے پہلے تو تحصیل چارسدہ کے سارے دیہات کو پچاس ہزار روپے جرمانہ کردیا گیا ، حکومت نے وجہ یہ بتائی کہ جرمانہ اس لئے لگایا جارہا ہے کہ فوج اور پولیس کا گولہ وبارود ضائع ہوا ہے ، یعنی جن گولیوں سے خدائی خدمتگاروں کو اپنی ہی سرزمین پر خاک وخون میں نہلایا گیا اس کی قیمت بھی وصول کر لی گئی ، ساقی صاحب لکھتے ہیں کہ جو لوگ متمول تھے انہوں نے تو جرمانہ ادا کردیا لیکن خدائی خدمتگاروں میں اکثریت غرباء کی تھی ، چنانچہ ان کے گھروں اور قیمتی اشیا ء کو نیلام کردیا گیا اور مسلم لیگ کے غازیوں کو کوڑیوں کے مول یہ سب کچھ مل گیا، پولیس اور سی آئی ڈی کی سرگرمیاں اس کے بعد بھی جاری رہیں ، معزز عمر رسیدہ زعمائے قوم کو بے لباس کر کے ان کے پورے جسم پر گند مل دیا جاتا اور بازاروں اور گھروں میں انہیں پھرایا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ ہیں ہندووں کے ایجنٹ اور اس وطن کے غدار، جب پولیس یہ تماشا کرتی تو وہ بھی ایک عجیب سا منظر ہوتا ، جب ان عمائدین قوم کو پولیس کے جوان اس حالت میں بازاروں میں لے کے جاتے تو لوگ آنکھیں بند کرکے دھاڑیں مار مار کر روتے ، آنسوؤں ہچکیوں کے طوفان آجاتے لیکن کچھ لوگ خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے وہ لوگ مسلم لیگ اور پولیس کے غازی تھے ، نہ پولیس کی تعداد خدائی خدمت گاروں سے زیادہ تھی نہ مسلم لیگیوں کی ، یہ بے سروسامان لوگ چاہتے تو ان کی تکہ بوٹی کر کے رکھ دیتے لیکن انہوں نے ایک مردبزرگ مسیح الافاغنہ سے عدم تشدد کا عہد کر رکھا تھا ، اور وہ اپنی جان دے سکتے تھے لیکن تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرسکتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ کوہاٹ کے ایک خدائی خدمتگار کو جب اس سلوک سے گزرنا پڑا تو اس نے اپنے عہد کی تو لاج رکھ لی لیکن برہنہ بازاروں میں پھرانے کی ہتک برداشت نہ کرسکا اور خود کو گولی مار دی ، ان لوگوں کا قصور کیا تھا یہ سارا معرکہ کیوں برپا ہوا اور بقول کسے پختونوں یا چارسدے کا کربلا کس وجہ سے وجود میں آیا؟ صرف اس لئے کہ ان لوگوں کا ایک مطالبہ تھا اور وہ یہ کہ باچا خان اور ان کے ساتھی گرفتار تھے اور یہ خدائی خدمت گار ان کی رہائی چاہتے تھے۔ کیا یہ مطالبہ اس درجے پر سنگین تھا کہ موت کا پروانہ ٹھہر جائے؟ ہمیں افسوس امر کا ہے کہ اس قدر بڑے سانحے پر ہماری سرکاری کتابیں خاموش ہیں۔ عدلیہ پر ایک افتاد آپڑی تو ججوں نے کرام ویل کی مثال دی کیا یہ انصاف کا تقاضا نہیں کہ 67 برس بعد ہی سہی پختونوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے کرام ویل کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو ایک دفعہ انگلستان میں ہوچکا ہے ۔ یا ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہو۔