حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Sunday 21 March 2010

کہسار باقی افغان باقی -- آخری حصہ

پشتو عالمی کانفرنس کے مدعوئین میں ہمارے ساتھی ڈاکٹر محمد زبیر حسرت بھی تھے ، پہلے صوابی والے لاہور کے ایک سرکاری کالج میں پڑھاتے تھے اب خیر سے ٹیکسٹ بک بورڈ میں پشتو کے ماہر مضمون ہیں۔ ویسے ہونا انہیں ممبر چاہئے تھا لیکن مس ریڈنگ اور مس کیلکیولیشن ہر جگہ ہوتی رہتی ہے ۔ ان سے رات گئے تک کابل انٹر کانٹی نینٹل کی لابی میں گفتگو ہوتی رہی ۔ ادبی غیبتوں کا ایک سلسلہ تھا جو ختم ہونے والا نہیں تھا ۔ہم کسی باریک نکتے پر انہماک سے تبادلہ خیال کر رہے تھے کہ اتنے میں معروف افسانہ نگار طاہر آفریدی صاحب آگئے ،کہنے لگے یہیں کہیں ان سے ادویات کھو گئی ہیں ۔ ہم نے بہتیرا تلاش کیا لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ میں نے پوچھا طاہر صاحب کون سی ادویات تھیں انہوں نے جواب دیا کہ بلڈ پریشر کی ۔ میں نے کہا کہ بلند فشار کا عارضہ تو ہمیں بھی ہے اگر میری ادویات سے آپ آج رات کام چلا سکتے ہیں تو کل اپنے لئے منگو الیں ۔ میں نے ڈاکٹر حسرت سے کہا کہ آپ بھی ساتھ آئیں تاکہ بقیة السلف کی خدمت کی سعادت آپ کو بھی حاصل ہو ۔ سو کمرے میں پہنچ کر دوائی ایک ٹشو پیپر میں لپیٹی اور پھر لفٹ میں سوار ہو کر نیچے پہنچ گئے ۔ پھر بزرگ سے اجازت لی اور اپنے اپنے کمروں میں بند ہوگئے ۔

رات کو کسی پہر بے خوابی سے تنگ آکر جو نیچے لابی پہنچا تو حیران رہ گیا ۔ ایک شادی ہو رہی تھی ۔بچے بوڑھے خواتین جمع تھے کوئی آرہا تھا کوئی جا رہا تھا ۔ لابی میں موجود ہر ذی نفس ایک مجسمہ جمال تھا ( سوائے ہمارے)پس ہم لابی ہی میں ایک صوفے پر نیم دراز ہوگئے اور نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگے ۔ اتنے میں دولہا اور دلہن آئے ۔ دولہا ایک انگریزی ٹو پیس میں ملبوس تھا جبکہ دلہن اپنے دولہے کی بغل میں ہاتھ دئے ایک پیارا سا گلاب کا پھول ہاتھ میں تھامے ایک عجیب و غریب حد تک نزاکت سے قدم اٹھاتی آرہی تھی ۔ کوئی گھونگھٹ نہیں تھا، کوئی لیپا پوتی نہیں تھی، سب سے بڑھ کر کوئی گوٹے کناری والی بھاری بھرکم کمخواب و اطلس ، جامے دار و کامے دار ٹائپ کی کوئی شے نہیں تھی اور ناہی کوئی زیورتھا۔ایک شدید قسم کی سادگی تھی اور اس پر چھائی ننھی منی کامنی سی کانچ کی گڑیا جیسی مورت کی دل آویز مسکراہٹ ۔انگریزوں کے نمونے کا ویڈنگ ڈریس تھایعنی برائڈل گاون تھا اس کے پیچھے لٹکنے والا حصہ جسے ٹرین کہا جاتا ہے، مختصر سا تھا لیکن ساتھ ساتھ گھسٹتا جا رہا تھا ۔

جن قارئین کواب بھی سمجھ نہیں آئی انہیں لیڈی ڈیانا کی شادی کا منظر ذہنوں میں تازہ کرنا ہوگا ۔ جوشاہی خدمت گار لیڈی ڈیانا کے برائڈل گاون کا پچھلا حصہ نہایت احترام سے پکڑے ان کے پیچھے پیچھے آرہے تھے، وہی حصہ ٹرین کہلاتا ہے ۔ اب بھی اگر سمجھ نہیں آئی تو انٹرنیٹ دیکھا جا سکتا ہے ۔

باہر نکلا تو ایک رولز رائس بھی کھڑی تھی جس میں دلہا دلہن آئے تھے ۔ میں اس درجہ کے تمول پر حیران تھا ۔ دوچار چیزیں تو مجھے اچھی لگیں اول تو یہ کہ انٹر کانٹی نینٹل میں شادی کرنے والے جوڑے کو بہر حال یہ استطاعت نصیب تھی کہ خوب لیپا پوتی کرکے اپنے قدرتی چہرے کو ملمع کاری میں دفن کردیتے لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ پشاور میں تو لڑکے بھی آج کل فیشل کرواتے ہیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ دلہن اوردولہا دونوں زیورات اچھی خاصی مقدار میں خرید سکتے تھے لیکن ایسے کسی تکلف سے کام نہیں لیا گیا تھا ۔شاید ایک نیکلس پر ہی اس حسینہ  نازک اندام نے گزارا کر رکھا تھا ۔یہ بات تو ہمیں بعد میں معلوم ہوئی کہ افغانستان (بلکہ کابل کہئے)میں برائڈل گاون کرایہ پر لئے جاتے ہیں ۔ افغان ہوشیار لوگ ہیں جانتے ہیں کہ ایک ہی مرتبہ پہنا جائے گا سو اس لباس پر زیادہ خرچنے کی بجائے عقل سے کام لیتے ہیں ۔یہاں تو ریس لگی رہتی ہے بات لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر بھی تسلی نہیں ہوپاتی ۔اسی طرح رولز رائس گاڑی ہم نے فلموں ہی میں دیکھی ہے کسی شادی میں تو کجا سڑک پر ہمیں ویسے بھی یہاں کبھی نظر نہیں آئی حالانکہ ہم نے بڑے بڑے متمول لوگوں کی شادیاں دیکھی ہیں ۔وہ گاڑی بھی کرایہ پر حاصل کی گئ تھی ۔

اس نظارے سے فارغ ہوئے تو رات صبح کی بانہوں میں بانہیں ڈالتی نظر آئی ۔ اس لئے بادل نخواستہ ہمیں سونا پڑا یا سونے کی اداکاری کرنی پڑی ۔

صبح واپس جانے کی تیاری کرنی تھی سو ایک ایک چیز کو چھان پھٹک کر بار بار دیکھا کہ اس کمرے میں تو اپنی کوئی نشانی چھوڑ کر نہیں جارہے ۔ سارا سامان لپیٹ کر اپنی ہینڈ کیری میں رکھا ۔پھر دوبارہ نکا ل کر چیک کیا کہ ہوٹل کی نشانیاں کہیں ساتھ نہ لے جائیں ۔ ایسی صورت حال میں اکثر و بیشترہمارے ساتھ ڈرامے ہوتے رہتے ہیں ۔ اپنی کسی شے کے چھوڑے جانے کا خوف ایسا سوار ہوتا ہے کہ ہم ہوٹل کی اشیا ءلپیٹ لے جاتے ہیں( ظاہر ہے غیر ارادی طور پر) لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس سامان میں ایسی کوئی بھی شے نہیں تھی جو ہماری ذاتی نہ ہو۔

باہر نکلے تو ڈاکٹر مروت صاحب وزیر اعلیٰ کا پیغام پڑھ کر تشریف لا چکے تھے ان سے پوچھا کہ ہیوادمل صاحب کی گاڑی کب آئے گی ؟کہنے لگے اب تک آجانی چاہئے تھی ایک بج گیا لیکن گاڑی نہیں آئی ۔ ہمارے ٹرسٹ کے ساتھی سید عثمان سنجش ( جنہوں نے ہمیں میکرویان میں اپنے گھر میں شاندارچائے پلائی تھی ) بضدتھے کہ وہ نہیں آئیں گے اور ہم فلائٹ کھو بیٹھیں گے۔ مجھ پر جھنجھلاہٹ طاری ہو چکی تھی، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہوٹل والوں نے ہم مہمانوں سے پچاس ڈالر کے قریب رقم کا تقاضا کر دیا تھا جو مروت صاحب نے ادا کئے اور دوسری بات یہ تھی کہ ہمارے ٹکٹ پر لکھے گئے ٹائم کی طرف گھڑیوں کی دونوں سوئیوں کی رفتار خاصی تیز نظر آرہی تھی ۔ہم نے اس درجے پر شور مچایا کہ مروت صاحب کو ہمارے بلکہ سنجش صاحب کے ساتھ جانا ہی پڑا لیکن ہوٹل کی آخری چیک پوسٹ پر دولتی گاڑی (اس کا مطلب حکومتی گاڑی ہے ) نے ہمیں آلیا ۔

گھڑی دیکھی تو فلائٹ میں پونا گھنٹہ تھا ۔ہمارے ڈرائیور نے کہا کہ بے غم باش ہم نے میدان ہوائی ( ائر پورٹ ) فون کر دیا ہے جہاز آپ کے بغیر نہیں اڑے گا ۔ ہم سمجھے مذاق اڑا رہا ہے، جہاز نے تو اڑ جانا ہے ۔ لیکن ائر پورٹ پہنچے تو جهاز کو موجود پایا ، سوجہاز کے قریب ہی ایک جگہ کھڑے کر دئے گئے دو منٹ میں ہمارے پاسپورٹ خروج کی مہروں سے لتھڑے ہوئے ہمیں تھما دئے گئے اور ایک گاڑی میں جہاز پہنچا دئے گئے کسی نے ہماری تلاشی نہیں لی ۔ عجیب سی بات تھی ،جہاز میں بیٹھے تو ایک خوش پوش بزرگ جنہوں نے جہاز کے عملے جیسا حلیہ بنا رکھا تھا آئے اور کہنے لگے آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم وقت پرپہنچا کریں آپ کی وجہ سے جہاز لیٹ ہو گیا ہے ۔ہم نے ایسے سر ہلایا جیسے روزانہ دو مرتبہ کابل سے پشاور آتے ہیں‘جہاز کی سیٹ سے پشت لگائے ہم یہی سوچ رہے تھے کہ 45منٹ بعد ہم وی وی آئی پیز کی بجائے 17کروڑ لوگوں میں سے ایک بن جائیں گے ۔
ختم شد

No comments:

Post a Comment