حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Tuesday 21 May 2013


عوامی نیشنل پارٹی کی شکست ۔چند معروضات
زلان مومند
 

مسیح الافاغنہ باچاخانؒ کے ایک پیرو کار کی حیثیت سے عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی شکست کو روزمرہ کی دیگر ناکامیوں اور ناآسودہ خواہشات کے سلسلے کی ایک کڑی کہنا نہایت ہی دشوار ہے ، اگرچہ ایک نہایت ہی قلیل ، غیر نمائندہ مگر مؤثر پختون قوم پرستوں کی ایک تعداد عوامی نیشنل پارٹی سمیت کسی بھی پختون قوم پرست سیاسی جماعت کی انتخابی عمل میں شرکت کو غداری اور پختونوں کی غلامی یا سیاسی حقوق سے محرومی کے سلسلے کو دوام دینے کی کوشش سمجھتی ہے لیکن اس بات پر بہر حال بحث کی گنجائش موجود ہے اور متبادلات کی عدم دستیابی کو اس ساری بحث میں مرکزی نکتے کی حیثیت بھی حاصل رہے گی تاهم سر دست موضوع انتخابی عمل میں شرکت یا عدم شرکت نہیں بلکہ ان عوامل کا جائزہ لینا ہے جن کی وجہ سے اے این پی کو انتخابات میں ایک ایسی شکست ہوئی جس نے اے این پی کے ہر کارکن کو بطور خاص اور پختون قوم پرستوں کے ہر گروہ کو دلی رنج سے دوچا ر کیا ، پہلی بات یہ ہے کہ صوبہ پختونخوا میں تحریک انصاف کو حاصل ہونے والا مینڈیٹ سو فیصد حقیقی نہیں ، انتخابی بے ضابطگیوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے کہ اس صوبے میں انتخابات کی شفافیت رائے دہندگان کی سوفیصد سے بھی زیادہ شمولیت کی دلیل سے ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے ۔انتخابی عمل کی شفافیت جاننے کے لئے فافن نامی ادارے نے جو رپورٹ اوائل میں دی تھی اس کی شہادت کے لئے کسی برهان کی ضرورت قطعی نہیں ، این اے ون کی نشست پر ایک پولنگ سٹیشن کے پریزائیڈنگ افسر نے اس حوالے سے خود ہمیں بتایا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ نتائج دینے کے روایتی طریق کار کی تبدیلی بھی ایک ایسی شکایت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،پولنگ ایجنٹس کو تصدیق شدہ انتخابی نتائج دینا پریزائیڈنگ افسر کی ذمہ داری اور مسلمہ انتخابی اصول ہے لیکن بعض"حکمتوں" کے پیش نظر تصدیق شدہ نتائج دینے سے صاف انکار کیا گیا ، پاکستان کی تاریخ میں اس انتخابات کی شفافیت اس حوالے سے بھی متنازعہ رہے گی کہ ان انتخابات میں کئی حلقو ں میں رات کو جیتنے والے امیدوار صبح ہار گئے تھے ، لیکن ان تمام امور کے باوجود اے این پی کی قیادت نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا ، اور ان کے حکومت سازی کے حق کے خلاف جے یو آئی (ف) کی کاوشوں کو غیر جمہوری عمل قرار دیا ، انتخابات میں تحریک انصاف کے اس درجہ پر کامیابی شکوک و شبہات سے خالی نہیں ، جن علاقوں میں تحریک انصاف نے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتیں وہاں پر تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا خاصہ یعنی عمران خان کا جلسہ شاذ ہی منعقد ہوا، انہ ہی ان علاقوں میں سیٹلائٹ ٹی وی چینلز دیکھنے کی سہولت تھی جن میں نماز پڑھتے ہوئے عمران خان کی پاکبازی کے اشتہارات چلائے جاسکتے ۔گویا تحریک انصاف کا پیغام نجانے کس انجانے طریقے سے وہاں پہنچا ؟اس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ۔ین اے ون جہاں سے وہ خود کھڑے تھے وہاں پر انہوں نے جس قسم کی اکثریت لی وہ شبہات کو تقویت دیتی ہے ، باخبر لوگ جانتے ہیں کہ صوبہ پختونخوا دراصل پاکستان کے طبقۂ اشرافیہ کی انتخابی لیبارٹری ہے ، یہاں سو فیصد آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ،ویسے بھی پختونخوا اور بلوچستان کے انتخابی نتائج کو ایک نظر دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں اپنی قیادت چننے کا اختیار صرف سندھ اور پنجاب کے عوام کو ہی حاصل ہے ، انتخابی عمل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے باوجود بھی عوامی نیشنل پارٹی کے ہارنے کے عوامل بہر حال موجود ہیں اور جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، ان انتخابات میں ایک تو وہ سیاسی جماعتیں عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں جو گزشتہ پانچ سال سے حزب اختلاف میں تھیں ، پاکستان کی حزب اختلاف کی تمام جماعتیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں اس درجہ بالغ فکری کی حامل نہیں رہیں کہ وہ حکومت کے کسی اچھے کام کی تعریف کریں ، اخبارات میں یہ تجزئے بھی شائع ہوئے کہ اے این پی کو ناقص کارکردگی اور کرپشن کی سزا ملی ، یا یہ کہ پانچ برسوں میں اے این پی کسی قسم کی بہتر انتظامی صلاحیتیں نہ دکھا سکی ، کاش انتخابی نتائج کے سوا بھی اس تجزئے کا کوئی ثبوت ہوتا ، اگرچہ بدانتظامی ، کرپشن اور عدم کارکردگی ایک نہایت ہی عام الزام ہے لیکن اس کا اطلاق ہارنے والی سیاسی جماعتوں پر ہی کیا جاتا ہے ، پنجاب میں اربوں روپے تندوروں میں جھونکنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی معاشی بدانتظامی اور سٹیٹ بینک سے اوور ڈرافٹ لینے کی داستانیں اب کسی کو بھی یاد نہیں ، کیونکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سپریم کورٹ کا کہنا یہ ہے کہ ہر کامیاب فوجی بغاوت کو انقلاب سمجھا جائے ، سو یہاں کے تجزیہ کار اور جغادری نقادبھی اسی اصول کی پیروی کو ضروری سمجھتے ہیں اور عقل و دانش کے بانس پر چڑھ کر صرف انہی سیاسی جماعتوں کو کرپٹ ، بدانتظام اور ناقص کارکردگی کی حامل سمجھتے ہیں جو انتخابات میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ، اگر مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں پنجاب میں سب کچھ مثالی رہا ، دوسری اہم بات جسے اے این پی کی انتخابی کارکردگی کے جائزے کے دوران فراموش نہیں کرنا چاہئے یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے ورکروں اور لیڈروں کو انتخابات لڑنے کے وہی مواقع میسر نہیں تھے جو جیتنے والی سیاسی جماعتوں کو بہر حال میسر تھے ، اور جن کے لئے این آر او جاری کردیا گیا تھا ، طالبان کی جانب سے اے این پی کے جلسوں میں بم دھماکے ٹارگٹ کلنگ اور دھمکیوں کے واقعات کی تعداد اتنی ہے کہ اسے صرف 31کے عدد میں بیان کرنا انصاف نہیں ، یہ حقیقت ہے کہ اے این پی کے تمام فعال کارکنوں یا ان کے رشتہ داروں کو کسی نہ کسی طرح خوف و دہشت کا نشانہ بنایا گیا ، قبل ازانتخابات اس قسم کی دھاندلی کو اے این پی کی انتخابی شکست میں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف ، جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کے قائدین پختونوں کی سرزمین پر دھڑلے سے جلسے منعقد کرتے رہے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کی صف دوم کی قیادت کو بھی یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ہمارے نہایت ہی سینئر ترین تجزیہ کار اپنی گرانقدر تحاریر میں یہ بات بھی لکھتے رہے کہ اے این پی کو امریکہ کی طرف جھکاؤ کے باعث یہ دن دیکھنا پڑا ، اے این پی کے شکست کے دلائل میں سے یہ ایک کاری دلیل کے طور پر میڈیا کے مختلف ذرائع میں بیان کی گئی ، لیکن ایک مرتبہ بھی ان پالیسیوں کی وضاحت نہیں کی گئی جو امریکہ کی طرف جھکاؤ کا اظہار کرتی رہیں ، ہاں البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اے این پی نے امریکہ کے خلاف اعلان جہاد نہیں کیا تھا ، اگر اس سے اتفاق کر لیا جائے تو یہ سوال لازماً پوچھنا چاہئے کہ امریکہ کے خلاف اعلان جہاد کس سیاسی جماعت نے کیا تھا؟نائن الیون کے بعد جو بین الاقوامی سیاسی ماحول بنا ہے اس میں اس لفظ کا استعمال تو ان مذہبی جماعتوں نے بھی ترک کردیا ہے جو پاکستان کی تمام تر خرابیوں کی ذمہ دار امریکی حکومتوں کو سمجھتی رہی ہیں ، اگر طالبان کے خلاف سوات کے آپریشن کو امریکہ کی طرف جھکاؤ سمجھا گیا تو اس کا براہ راست الزام پاکستان کی افواج پر کیوں عائد نہیں کیا جاتا ؟ابھی حال ہی میں برسلز میں پاکستان ، افغانستان اور امریکہ کی اصل قیادت کے اکٹھ کے بعد بھی کسی تجزیہ کار نے امریکی پالیسیوں کی طرف جھکاؤ کی اصل ذمہ دار کی نشاندہی نہیں کی ، اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ایک صوبے کی سیاسی جماعت کب اس درجہ بااختیار بنی ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنا الگ ہی مؤقف رکھے بھی اور پھر اسے نافذ بھی کرے ، یہاں تو پارلیمنٹ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ آزاد’’  خارجہ پالیسی کی دہائیاں دے رہی ہے ، یہی نہیں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف جیسی جماعتیں بھی خارجہ پالیسی کی ‘‘آزادی’’  کی ‘‘جدوجہد’’ کر رہی ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی ٹھوس نکتہ سامنے رکھنے میں ناکام رہی ہیں کہ آخر خارجہ پالیسی کو قید یا غلام کس نے بنایا ہے ؟امریکی پالیسیوں کی طرف جھکاؤ کا الزام یا منطق اگر کسی بھی طور صحیح مان لیا جائے تو یہ بات تو طے ہے ہی کہ 2014ء کا سال اس خطے میں امریکہ کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے کیا وہ 2014ء میں اپنی ‘‘حلیف’’  سیاسی جماعت کو ملکی فیصلوں سے اس قدر لا تعلق رکھنے کی غلطی کر سکتا ہے ؟اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں اس کے اثر ورسوخ کا ہر تجزیہ کار گواہ ہے ۔ان حالات میں اگر کوئی رائے اے این پی کی شکست کے حوالے سے بنتی ہے تو وہ یہی ہے کہ جو لوگ ناز و نعم کے پالے تھے اور جن کی سرپرستی حقیقی مقتدر قوتیں کر رہی تھیں اور جنہوں نے پختون سرزمین کو آتش و آہن کا غسل دیا ان کے حقیقی مخالفین یعنی اے این پی کو سزادی جائے ، ڈبل گیم کھیلنے والے اس بات کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ اے این پی نے اس صوبے اور خصوصاً افغانستان کے حوالے سے ان کے تمام ارادوں کو تاخت و تاراج کر کے رکھ دیاتھا ، یہی نہیں بلکہ ان بدمستوں کو بھی نکیل ڈال دی تھی جو پنجاب میں تباہ کاریوں کی خاطر محفوظ راستہ مانگ رہے تھے ،گو یا اے این پی کو شکست تحریک انصاف نے نہیں دی بلکہ‘‘نامعلوم افراد’’  نے دی ہے ، اس میں بھی ایک نکتہ بہرحال لائق توجہ ہے کہ ان نتائج کے مرتب کنندگان اس امر سے واقف تھے کہ وہ یہ صوبہ کلی طور پر پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ (ن) ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کی جھولی میں نہیں ڈال سکتے ،نه هی مستقبل ایسا کوئی امکان رکهتا هے کیونکہ ان ساری جماعتوں کا ووٹ بینک معلوم افراد کا ہے نامعلوم کا کسی طور نہیں ، یہ صوبہ تکنیکی طور پر تحریک انصاف کی جھولی میں گرا ہے ایسے ایسے اضلاع سے تحریک انصاف کو ہزاروں کی تعداد میں ووٹ پڑے ہیں جہاں تحریک انصاف کی تنظیم تک کا وجود نہیں ، بہرحال ضمنی انتخابات سے یہ بات بطریق احسن واضح ہو جائے گی کہ اس مینڈیٹ میں صناعت کتنی برتی گئی ہے حاصل کلام  یہ ہے کہ اے این پی کی شکست اور تحریک انصاف کی فتح میں نوجوانوں کے ووٹ سے زیادہ ‘‘جوانوں’’ کے اثر ورسوخ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ، اور ہمیں معروف صحافی سہیل وڑائچ کے اس تبصرے سے کلی طور پر اتفاق ہے کہ یہ انتخابات مستقبل کے کسی بھی حوالے کے لئے غیر متعلق ٹھہریں گے اس استثنیٰ کے ساتھ کے ان انتخابات کے بعد پنجاب کا دروازہ تحریک انصاف پر ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا۔