حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Monday 12 December 2011

امارشونر بنگلہ


16 دسمبر کی تاریخ ہر سال آتی ہے اور پڑھنے و دیکھنے کا ایک مختلف النوع مواد چھوڑ دیتی ہے ۔ اکثریت کی رائے اب بھی بنگلہ بندھو جناب شیخ مجیب الرحمن شہید کو غدار کہنے پر ہی منتج ہوتی ہے اور دیانت داری سے کوئی بھی اس بات کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتا کہ بنگلہ دیش بنانے میں شیخ مجیب الرحمن  شہیدسے زیادہ عمل دخل اس اشرافیہ کا ہے جس نے 1947ءسے 1970ءکے انتخابات تک اس المیے کو پال پوس کر اس درجہ تک جوان اور پھل آور بنا دیا تھا کہ انتخابات میں واضح اکثریت کے حصول کے باوجود عوامی لیگ کو انتقال اقتدار سے احتراز کسی مغربی پاکستانی کو ( عمومی سطح پر بھی ) بے انصافی ہی نظر نہیں آتی تھی ۔ المیہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چئیرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر پیپلز پارٹی نے شیخ مجیب کو پھانسی دو کے نعرے لگانے شروع کردئے اور پاکستان کی اکثریت کے قائد کو قیادت کے حق سے محروم کر کے ایک غدار ،وطن فروش اور بھارتی ایجنٹ کے روپ میں پیش کرنا شروع کر دیا ۔ 1970ءکا انتخاب صرف پیپلز پارٹی نہیں ہاری تھی بلکہ پیپلزپارٹی کی شکست کی صورت فوج اور طبقہ اشرافیہ کو بھی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی ۔ صورت حال ہو بہو وہی بن گئی تھی جو 14اگست 1947ءکو ہمارے صوبے کی تھی ۔ یہاں مسئلہ یہ واقع ہوچکا تھا کہ خدائی خدمت گاروں اور کانگریس کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کی آئینی قانونی و اکثریتی حکومت مسلم لیگ کی مرکزی حکومت کی آنکھ کا کانٹا بن چکی تھی ،سو مرکزی حکومت (جس کے سربراہ ظاہر ہے کوئی اور نہ تھے بلکہ وہ ذات اس عہدہ اعلیٰ پر متمکن تھی جن کے اقوال اور افعال پاکستان کے لئے مشعل راہ ٹھہرنے والے تھے )کے حکم پر 21اگست 1947ءکو جبراً اس حکومت کی چھٹی کروا دی گئی اور خان قیوم کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا ۔ زیادتی اتنی کی گئی کہ نصاب سے کیا تاریخ سے بھی یہ بات خارج کردی گئی کہ قیام پاکستان کے وقت اس صوبے کے وزیراعلیٰ کون تھے ؟اور آج بھی آپ کو پاکستانی ضرورتوں کے مطابق لکھی گئی تاریخ کی جتنی کتابیں نظر آئیں گی اس میں اس صوبے کی وزرات علیا میں سرفہرست نام ڈاکٹر خان صاحب کی بجائے خان قیوم کا ہوگا ۔پختونوں کی بدقسمتی کہئے کہ ہمارا جغرافیہ ہمیشہ سے ہماری سیاست کے آڑے آتا رہا ۔ مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ قدرت نے ایسی کوئی ستم ظریفی نہیں کی ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ مشرقی بازو کے پاکستانیوں نے ہمیشہ (1971ءتک) مغربی پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانیت کا ثبوت دیا ۔ مسلم لیگ ق ( یہ وہ قاف لیگ نہیں جو ان دی لائن آف فائر کے مصنف کی مرضی پر ہائر کی گئی)کے سربراہ ملک قاسم نے راقم الحروف کو ایک انٹرویو میں بتا یا تھا کہ پاکستان کا قیام دراصل مشرقی پاکستان کی قربانیوں کا ثمر ہے ۔ بات تو بالکل درست اور بجا ہے ۔ دیکھ لیں کہ مشرقی پاکستان کے سوا سندھ ، پنجاب ، بلوچستان اور سب سے بڑھ کر اس خالص مسلم آبادی کے صوبے یعنی پختونخوامیں تقسیم کے وقت اور اس سے قبل مسلم لیگ کی تنظیم ہی کیا تھی ؟اور اگر تنظیم تھی تو اس تنظیم کا عوام سے رشتہ کتنا تھا ؟یہ صرف مشرقی پاکستان ہی تھا جس نے مسلم لیگ کو اپنے دامن میں پناہ دے رکھی تھی اور اس میں کسی کو کوئی شک بھی نہیں ہونا چاہئے ۔ مسلم لیگ کی تمام تحاریک کا گڑھ بنگال کا وہ حصہ ہی تو تھا جس میں مسلمان اکثریت میں بستے تھے ۔ مسلم لیگ کی حکومتیں بھی وہاں بنتی رہتی تھیں ۔ مسلم لیگ کی بلکہ بنیاد بھی ڈھاکہ ہی میں رکھی گئی اور اس کی پرورش بھی بنگالی نوابوں کی رہین منت ہے ۔ اب ایسے لوگوں کا جنہوں نے پاکستان اور مسلم لیگ بنانے میں تن من دھن کی پرواہ نہیں کی ان لوگوں کا 26مارچ1971ءاور 16دسمبر 1971ءتک پہنچنا ایک حادثہ تو نہیں کہلایا جاسکتا ۔ یہ تو دراصل انہی لوگوں کی متعصب ذہنیت تھی جنہوں نے قیام پاکستان کو بھی بنگالیوں کی سازش قرار دیا تھا ۔ جب کوہلو کو پاکستان کی فوجی حکومت نے کچھ برس قبل فتح کیا تو شہید نواب محمد اکبر بگٹی کے مخالف اعظم میراحمدان بگٹی کو ڈیرہ بگٹی لانے کے مناظر خصوصی طور پر پورے پاکستان کو دکھائے جارہے تھے ۔ بی بی سی کے لکھاری کاشف قمر بھی کراچی سے آنے والے صحافیوں کے ہمراہ تھے ۔ انہوں نے بعد میں لکھا تھا کہ ایک اعلیٰ عہدے پر تعینات شاہین جرنیل نے ”ذہن سازی “ کے لئے صحافیوں کو بتا یا کہ 1905ءمیں بنگال کی تقسیم کے ساتھ ہی بنگالی مسلمانوں کو یہ خیال آیا کہ ان کا ایک الگ ملک ہونا چاہئے ۔ چنانچہ 1906ءمیں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ دکھاوے کے لئے اس کا نام آل انڈیا مسلم لیگ رکھا گیا ۔حالانکہ ابتدا میں اس پر بنگال کے مسلمان نوابوں کا قبضہ تھا لیکن بعد میں اترپردیش اور وسطی ہندوستان کے مسلم رہنماوں کو اس کی قیادت ظاہری طور پر سپرد کی گئی کیونکہ بنگالی تنہااس ”سازش “ کو کامیاب نہیں بنا سکتے تھے ۔1930ءمیں جب ڈاکٹر سر محمد اقبال نے پاکستان کے خدوخال بیان کئے تو بنگالی رہنماوں نے اس کی مخالفت کی 1938ءمیں اقبال کی موت سے بنگلہ دیشی  سازش کو سمجھنے والے واحد مسلم رہنما بھی نہ رہے 22مارچ کو بنگال ہی کے اے کے فضل حق نے اسی سازش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایک قرارداد پیش کی جس میں مختلف آزاد ریاستوں کا تصور تھا جسے کوئی نہ سمجھ سکا اور اس کی منظوری مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں دے دی گئی بعد میں 1946ءکے دسمبر میں جناح صاحب بھی اس سازش کو بھانپ گئے اسی وجہ سے دہلی کے سالانہ اجلاس میں مختلف آزاد ریاستوں کے بجائے لفظ پاکستان کا اندراج اس قرار داد میں کر دیا گیا ۔ پھر حسین شہید سہروردی نے جناح صاحب کے کان بھرے اور انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں یہ اعلان کر دیا کہ Urdu and Urdu will be the only National Language of Pakistanیعنی اردو اور صرف اردو ہی پاکستان کی واحد قومی زبان ہوگی جس پر یونیورسٹی میں ہنگامے بھی ہوئے ۔ اندازہ لگائیں کہ شاہینوں کے نزدیک قیام پاکستان اور تخلیق ِ مسلم لیگ دونوں بنگالی سازش ٹھہرچکے ہیں ۔ یہ بات نئی نہیں بنگالیوں کا وجود ہی پاکستان میں مس فٹ تھا ایک تو ان کا قد پانچ فٹ پانچ انچ کے اوسط پر رکا ہوا تھا ان کی زبان ایسی تھی جسے وہی سمجھتے تھے (اور اتنا کچھ سمجھتے تھے کہ اسی زبان کے لئے انہیں ایک نئی ریاست کی جدوجہد کرنی پڑی)ان کا رنگ بھی کچھ زیادہ گہرا تھا ۔ یہ بھی دنیا کی تاریخ کا ایک انوکھا ہی واقعہ تھا کہ ملک کی اکثریت نے اپنے ہی ملک کی اقلیت سے آزادی حاصل کی ۔ اور باقی ماندہ پاکستان کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن نے جو رپورٹ اس سانحے کے بعد جاری کی اس پر عمل درامد سے احتراز کیا اس کی اشاعت کو بھی وسیع تر ملک مفاد میں نقصان دہ قرار دیا گیا ۔
آج 16دسمبر ہے ۔ لیکن تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اس دن سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی جارہی ۔ جب میاں نواز شریف صاحب اصولی سیاست کا علم تازہ تازہ تھام کر سچائیوں کا اظہار کر رہے تھے تو اس زمانے میں کسی صوبے میں ان کی حکومت نہیں بنی تھی بلکہ انتخابات بھی نہیں ہوئے تھے اور بدنام ِ زمانہ ایمرجنسی بھی نہیں لگی تھی 18اگست 2007ءکے تمام اخبارات میں ان کا ایک بیان ناقابل فراموش حیثیت اختیار کر گیا تھا ( کم از کم ہمارے لئے ) انہوں نے کہا تھا کہ بھارت میں 134فوجی جرنیل ہیں لیکن سیاسی امور پر کسی ایک جنرل کا اخباری بیان شائع نہیں ہوتا ہمارے ہاں چالیس کے قریب جرنیل ہیں اور ساٹھ برسوں سے حکمرانی انہی کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن ہوا کیا ۔ جب کور کمانڈروں نے بالاجتماع کیری لوگر بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو میاں نواز شریف کی اصولی سیاست نے ان کی کوئی رہنمائی نہیں کی انہوں نے کیری لوگر بل کی مخالفت کا بیڑہ اٹھا لیا اور فوج کی جانب سے اس ردعمل کو دلیل اعظم کے طور پر بیان کرنا شروع کردیا ۔ ابھی کل پرسوں ہی ان کا ایک دوسرا قول زریں بھی اخبارات کی زینت بنا ہے کہ عوام کے مسائل حل نہ ہونا جمہوریت کی ناکامی ہے ۔ اس طرز عمل کو کیا کہا جاسکتا ہے ۔ ہمارے پاس الفاظ نہیں وہ حکومت کی مخالفت میں جمہوریت پر تبریٰ بھیجنے سے بھی باز نہیں آرہے ۔ حالانکہ میثاق ِ جمہوریت کے بعد ان کے اس طرح کے بیانات اور رویوں کی گنجائش ہی نہیں بنتی ۔رویے اب بھی وہی ہیں جو اس سے قبل تھے 1971ءسے 2009ءتک کی مدت میں پاکستان میں بہت ساری تبدیلیاں آئی ہیں لیکن مقتدر حلقوں کے تیور اور روےے نہیں بدلے ۔ کوہلو کے پہاڑوں میں حکومتی رٹ قائم کرنے کی فکر سے مقتدر ہ کی راتوں کی نیند غائب ہوگئی تھی لیکن خیبر ایجنسی میں ایسے حالات کسی کو نظر نہیں آرہے ۔ ڈیر ہ اسمٰعیل خان کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے وہاں دن دیہاڑے سرگرمیاں رک جاتی ہیں لیکن کسی کو فکر نہیں ۔ کرم ایجنسی میں بھی حالا ت کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ محرم الحرام نے  انتظامیہ  کا خون خشک کردیا تھا ۔ یہاں تک کہ اس ملک کے معاملات کا عالم یہ ہے کہ خود کش حملوں کے خلاف ا تفاق رائے کے حصول کے لئے حکومت سرگرداں نظر آتی ہے اور حکومت میں موجود مذہبی سیاسی جماعت کے رہنماوں کا تعاون بھی حکومت کو نصیب نہیں ہوتا۔ مہنگائی اور کرپشن کے ساتھ ساتھ اشیائے ضروریہ کا بحران علیحدہ تفصیل کا متقاضی ہے ۔ امن و امان کے محاذ پر ہماری ناکامی ہر لحاظ سے مسلم ہے ۔ جنگی ترانوں اور ٹی وی کے ٹریٹ شدہ فوٹیج کے سوا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا کوئی مواد ہی نہیں ۔ جن لوگوں کو گرفتار کرنے پر حکومت نیٹ ورکس کے کمر توڑنے کے اعلانات کرتی رہتی ہے وہ اتنے غیر موثر لوگ ہیں کہ اب بھی حملے ہو رہے ہیں ۔ بجلی اور سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف کوئی احتجاج کرتا ہے تو اس پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں ۔ آنسو گیس پھینکی جاتی ہے ۔ اس کے مقابل بنگلہ دیش کا چھوٹا سے ایک ملک جس نے پاکستان کے بہت بعد پاکستان ہی سے آزادی حاصل کی مختلف شعبوں میں ترقی کی مثال کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔ ڈھاکہ جنوبی ایشیا ءکا واحد دارالحکومت ہے جہاں پینے کے پانی کا کوئی مسئلہ نہیں ۔ ورلڈ بینک کی کتابوں میں بنگلہ دیش کو تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک قرار دیا گیا ہے ۔ تین سال قبل جب ہم ڈھاکہ میں تھے تو اس وقت ہمیں یہ معلوم ہو ا کہ وہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کس درجہ پر کم ہیں ۔ پاکستان کی کرنسی میں تین ہزار روپوں سے وہاں ایک باعزت زندگی بسر کی جاسکتی ہے ۔ سادگی ہے اور سہولتوں کی فراوانی ہے ۔ ایک سردی کا موسم ڈھاکہ میں نہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے میں سردی ہوتی ہے وہ مہینہ وہاں پر لہو گرمانے کا باعث بنا تھا ۔ جو لوگ مشرقی پاکستان کی آزادی کو سقوط کہتے ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ کیسا سقوط تھا جس نے ہم سے بعد آزادی حاصل کرنے والوں کو ایسی ترقی عطاکردی کہ اسے مثال کی حیثیت دی جارہی ہے اور یہ خودغرضی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم اس دن خود احتسابی کے عمل کو زندہ رکھنے کی بجائے بنگالیوں کی مذمت ہی کرتے رہتے ۔ ایم کیو ایم کو ہم سیاسی جماعت نہیں سمجھتے لیکن اس کے سربراہ الطاف حسین نے جو کہا تھا اس سے ہم اتفاق ضرور کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس دن کو یوم سقوط ِ ڈھاکہ نہیں کہنا چاہئے اور نہ ہی اس دن کو اس طرح منانا چاہئے بلکہ اس دن کا تقاضا یہ ہے کہ اہل پاکستان کو یہ دن یوم ندامت کے طور پر منانا چاہئے ۔ ہمارا ذاتی صدمہ تو یہ ہے کہ امارشونربنگلہ (میرے محبوب بنگال) کے بچھڑنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست حالت نزع میں پہنچ گئی ۔ آج بھی کسی ایسے موضوع پر کھل کر بات نہیں ہوسکتی جو رواداری ،ترقی پسندی اور روشن خیالی کی تشریح کرے ۔ اور بنگالیوں کو نکال باہر کرنے کے بعد ہماری روشن خیالی اور جمہوریت پسندی معتبر بھی کہاں ٹھہر سکتی ہے ۔