حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Wednesday 24 September 2014

ذاتی نوحہ



سانحوں کی شدت، گہرائی یا اس کے نتیجے میں جنم لینے والے غم و الم کا کوئی پیمانہ مقرر ہی نہیں ، اسے فطرت کی انصاف پسندی کا نام دیجئے یا بجائے خود غم والم کی شدت کی منہ زوری ، غم ہر انسان پر الگ رنگ میں اثر انداز ہوتا ہے ،رقت بھی ایک عجیب شے ہے اس کے طاری ہونے پر اگر کوئی ہمدرد کاندھا نصیب نہ ہو تو نہ رونے سے تسلی ہوتی ہے اور نہ ایسی کوئی رقت اندمال غم کا باعث بنتی ہے ، جس غم کے باعث رقت فطری ہوتی ہے اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ یا تو رقت کو سمجھنے والے ہوں یا غم کو ، ورنہ ایسی کوئی بھی حالت ایک مشق ہی رہتی ہے ۔ ہمارے مرشدومحبوب جون ایلیا نے اسی عالم کرب میں کافی شدت سے استفسار کیا تھا 

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا 
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا ؟

واقعی اس سوال کا جواب ہاں کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں ، یہ چند سطریں دراصل اسی حقیقت کی بنیاد پر لکھی جارہی ہیں ، محترم رِضا ہمدانی مرحوم نے کہا تھا کہ 

وہ آنسو جو بہہ نہیں سکتے 
دل پر جا کر جم جاتے ہیں 

سو یہ وہی آنسو ہیں جنہیں پونچھنے والا کوئی نہیں تھا ، اور جو گزشتہ پندرھواڑے سے دل پر جا کر جم چکے ہیں ،محترم رِضا ہمدانی نے یہ نہیں کہا تھا کہ دل پر جمنے والے آنسو کیا قیامت ڈھاتے ہیں اور غم کی شدت کو کس درجہ پر لے جاتے ہیں لیکن اس کا اندازہ محولہ بالا حالات کا مارا کوئی بھی کر سکتا ہے سو اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا ، دلی صدمات کے عدم اظہار نے جو جو ناقابل تلافی نقصانات ہمیں پہنچائے ہیں ، اس میں مزید اضافہ امکانات کی فہرست سے خارج ہوچکا ہے ۔ آپ کی مرضی ہے ان سطروں کو کوئی بھی نام دیدیں ، لیکن فی الاصل یہ ایک ذاتی نوحہ ہے ۔

11ستمبر کی شام کو ایک ایسا ہی واقعہ ہوا،سخاوت علی سخی جو ایس اے سخی کے نام سے معروف تھے نہایت خاموشی سے چل دئے ، وہ کب پیدا ہوئے ، ان کی زندگی کیسی گزری ، انہوں نے کیا کیا ملازمتیں کیں ، کن کن لوگوں سے تعلق رکھا ، یہ سب میرے موضوعات نہیں ، میرا موضوع صرف یہ ہے کہ میں اپنے غم کا اظہار کروں اور لفظوں کے ذریعے اشک بہاؤں اور انہیں یاد کروں ۔ 

پشاور سے شائع ہونے والے روزنامہ آج میں ادارت کے فرائض میرے ذمے تھے ، سخی صاحب روزنامہ آج میں دو موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے تھے ، ایک اصلاح اردو اور دوسرا ہاکی کے اسرار و رموز و تاریخ ۔ ان سے میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن اخبار کے مالک جناب عبدالواحد یوسفی صاحب کی وساطت سے ان کی تحاریر پہنچتی رہتی تھیں ، ایک مرتبہ ایک صاحب آئے جن کے کلی طور پر سفید بال سلیقے سے سنورے ہوئے تھے ،قد درمیانہ ،آسمانی شلوارقمیص پر نیلا کوٹ ، چال و آواز بالکل لڑکوں جیسی ،طرفہ یہ کہ ایک دلنواز مسکراہٹ کلین شیو چہرے پر سجی ہوئی ، ان کی عمر کا اندازہ نہیں لگا سکا ، آتے ساتھ ہی انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور کہنے لگے ، سخی !! میں نے پوچھا ایس اے سخی ؟ایک قہقہه  لگا کر بولے ہاں بس ایسے سخی !! اور ساتھ ہی کاغذوں کا انبار میری میز پر رکھ دیا ، میں نے کاغذات پر ایک سرسری نظر دوڑائی تو سخت مایوسی ہوئی ، اس قدر بدنویسی کا مظاہر ہ زندگی میں نہیں دیکھا تھا ، میں نے کہا سخی صاحب یہ اتنی گندی لکھائی کس کی ہے ؟اپنی طرف اشارہ کرکے کہا اس اچھے انسان کی ، میں نے کہا سخی صاحب اتنی گندی اور ’’ان پڑھ‘‘ لکھائی کو ٹائپ کون کرے گا؟کہنے لگے اسی لئے تو میں آیا ہوں ، آپ لوگ اتنی غلطیاں ٹائپنگ کی کر دیتے ہیں کہ کالم کا ستیا ناس ہو جاتا ہے ، اب ایک کمپیوٹر آپریٹر میرے حوالے کردیں ، میں خود اس کے ساتھ بیٹھوں گا اس کی مدد کروں گا اور پروف بھی خود پڑھوں گا۔مجھے یہ بات معقول معلوم ہوئی ۔ سخی صاحب مضمون فائنل کرکے رخصت ہوگئے ، 2003تک ہماری زندگی کا محور و مرکز ایک ہستی تھی اور ہماری زندگی کے بس دو ہی کام تھے دفتر جانا یا ان کی خدمت میں حاضر رہنا ۔یعنی ہمارے والد۔ چنانچہ اس دن جب واپسی ہوئی تو یہ سارا ماجرا انہیں سنا یا۔ انہوں نے ایک انتباہی بیان جاری کیا اور بولے یہ سخی صرف لکھاری نہیں ، بلکہ میرا کلاس فیلو بھی رہ چکا ہے ، اور اس سے میرا نہایت ہی خصوصی تعلق تھا، اس کے بھائی ملک راحت علی خان انجام اور مشرق میں میرے ساتھی تھے ، اس سے نہایت احترام سے ملا کرو اور جب بھی آئے چائے یا قہوے کے بغیر اسے جانے نہیں دینا، سخت حیرت ہوئی ،میں نے کہا کہ وہ تو آپ سے عمر میں کافی کم لگتے ہیں ، بولے وہ شروع سے ہی ایسا ہے ، ہاکی کا بہت بڑا کھلاڑی بلکہ استاد ہے اس لئے فٹ ہے ، اور ہمارا بیڑا جیلوں اور ٹارچر سیلوں نے غرق کررکھا ہے ۔ 

ہمارے والد کی ذات ہمارے لئے محوری و مرکزی اہمیت رکھتی تھی اس لئے ان کے دوستوں کے لئے بھی ہمارے دل میں احترام فطری تھا۔ اگلی مرتبہ وہ آئے تو میں نے انہیں یہ ساری بات بتائی ، وہ کہنے لگے کہ مجھے پتہ تھا لیکن میں چاہتا تھا کہ قلندر خود تمہیں کہے ، سخی صاحب ہفتے میں تین چار بار آتے تھے ، ان سے تعلق کی نوعیت رفتہ رفتہ تبدیل ہونے لگی ، پہلے وہ ایک کالم نگار تھے ، پھر وہ میرے والد کے خاص دوست اور رفیق کار کے بھائی نکلے لیکن چند ماہ میں ہی وہ میرے دوست بن گئے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ سخی صاحب نے ماہ و سال کے حساب سے عمر کے تعین کے سارے فلسفوں کو شکست دے رکھی تھی ، خاص پشاور کے تعلق اور مادری زبان اردو ہونے کی وجہ سے مجلسی معطر ساز تھے ، اخبار کے نائب قاصد سے لے کر اخبار کے مالک تک ہر فرد کے ساتھ گھل مل کر ایسی فضا باندھنے کے ماہر تھے کہ ان کی قوت قلبی ( دَ زڑھ زور) کی داد دینی پڑتی تھی ، سخی صاحب کی کوئی اولاد نہیں تھی ، لیکن سچائی یہی ہے کہ وہ خود آخری عمر تک اپنی ہر عادت میں لڑکوں سے بڑھ کر لڑکے تھے ۔ جب مجلسی عطر سازی پر اتر آتے تو کوئی ان کی ٹکر کا نہیں ہوتا تھا۔ 

اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت ہی سریلی آواز بخشی تھی ، سہگل ، مناڈے اور کشور وٖغیرہ کے گائے ہوئے گیت ایسے گاتے تھے کہ داد دینی پڑتی تھی ، عمر کے آخری حصے میں باقاعدگی سے نوحوں اور مرثیوں سے سوز وگداز برپا کرنے کا وظیفہ اپنا لیا تھا، خود بھی نوحے و مرثیے لکھتے تھے ، ان کے اہل خانہ کے پاس شاید ریکارڈ ہو، روزنامہ آج کے دفتر میں جب نوحہ یا مرثیہ پڑھتے تھے تو رقت نچھاور کردیتے تھے ، 2004میں اسلام آباد سے اے وی ٹی خیبر شروع ہوا تو میں پشاور چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہوا، اسی دوران سخی صاحب اور روزنامہ آج کے درمیان اختلافات شروع ہوئے ، پھر انہوں نے روزنامہ آج سے رشتہ توڑ دیا، میں نے سخی صاحب سے پوچھا کہ وجہ کیا تھی ، بولے میں تمہیں نوحے سناتا تھا اور تم روتے تھے بس یہی وجہ تھی ، تم چلے گئے تو مجھے بھی جانا تھا، حالانکہ وجہ یہ نہیں تھی ، سخی صاحب نے ایکسپریس اور مشرق میں بھی لکھا لیکن وہاں نہ کوئی لاڈ اٹھانے والا تھا اور نہ سخی صاحب کے ساتھ مجلس کرنے والوں میں سے کوئی تھا، سو انہیں بادل نخواستہ یہ شوق ختم پڑا، لیکن وہ مسلسل لکھتے رہے ، ایک زمانے میں عارضی طورپر حیات آباد منتقل ہوئے تو میں ان کے گھر گیا ، ایک پلنگ کے نیچے دو بوریاں دکھائیں ، بولے میں اب بھی لکھتا ہوں اور سب کچھ ان بوریوں میں بند کردیتاہوں۔

سخی صاحب ایک اچھے لکھاری تھے ، ان کے خاص موضوعات وہ عام غلطیاں ہوتی تھیں جو ہم زبان کے حوالے سے روزمرہ بنیادوں پر کرتے رہتے ہیں اور جن کی اصلاح کا احساس بھی ہمیں نہیں ہوتا ، زبان کے حوالے سے ان کی حساسیت کافی زیادہ تھی ، ہاکی کے کھیل کے عروج و زوال تکانیک اور پشاور میں ہاکی کی تاریخ کے موضوعات پر کافی لکھتے رہے ، بلکہ پشاور پر بھی بے تحاشا لکھا، پشاور کے مشہور و بدنام کرداروں سے لے کر مقامات و باغات رسوم و رواج سب کچھ پر فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ان کے پاس تھیں جو وہ خوب سخاوت سے اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے تھے ۔ 

چار فروری دو ہزار تین کو جب میرے والد فوت ہوئے عین اسی دن سخی صاحب کے بھائی ملک راحت علی خان بھی راہی ملک بقا ہوئے لیکن دوسرے ہی دن وہ میرے گھر پہنچ کر مجھے دلاسہ دے رہے تھے ، ملک راحت صاحب پشاور کے بزرگ صحافیوں میں سے تھے ، اور آج کل کے صحافیوں کی طرح پھنے خان یا سقراط نہیں تھے بلکہ نہایت ہی منکسر المزاج اور غریب پرور آدمی تھے اور علمائے صحافت و ادب سے ایک خاص تعلق خاطر رکھتے تھے ، مشاہیر زمانہ مثلاً مولانا ظفر علی خان ، عبدالمجید سالک ، چراغ حسن حسرت وغیرہ سے باقاعدہ خط کتابت تھی ، سخی صاحب اور ملک صاحب دونوں ساری زندگی اکھٹے رہے ، ان کے لئے اپنے بھائی کی وفات کچھ کم سانحہ نہ تھا لیکن اپنے ذاتی غم(ذاتی غم ۔۔یہاں اس کے پشتو روزمرہ کے مطابق استعمال میں ابلاغ زیادہ ہے) کے باوجود وضعداری سے دستبردار نہ ہوسکے ۔ کافی دیر بیٹھے رہے اور پھر میرے کہنے پر واپس چلے گئے ۔ 

انتقال سے کچھ سال قبل وہ پشاور چھوڑ کر حیات آباد منتقل ہوگئے ، اگرچہ حیات آباد پشاور ہی میں ہے لیکن اس پر میرا اور سخی صاحب کا کامل اتفاق تھا کہ پشاور صرف وہ پشاور ہے جو فصیل شہر کے اندر ہے ۔ اور پشاور کی ثقافتی و معاشرتی قدروں کی گود صرف وہی علاقہ ہے جو دروازوں کے اندر ہے ،حیات آباد سے ایک مرتبہ اسی بنیاد پر واپس آگئے تھے کہ وہ پشاور نہیں ، بہرحال ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ، اپنی پیرانہ سالی کے باوجود وہ میری طرف آتے رہے میں ان کی طرف جاتا رہا ، لیکن اس دوران گرنے کی وجہ سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی ، میں ملنے گیا تو دیکھا سخی صاحب جو ہر وقت ہنسنے اور ہنسانے کے عالم میں ہوتے ہیں نمناک آنکھیں لئے ہوئے ہیں ، مجھے دیکھا تو دور سے ہی ایک چیخ ماری دیکھو زلان یہ حالت ہوگئی ہے میری ، چیخ سیدھی میرے دل کو چیر گئی لیکن خود پر قابو رکھا ، اور کہا کہ سخی صاحب آپ تو اب بھی بہت لوگوں سے اچھی حالت میں ہیں ،یہ گزشتہ عیدالفطر کی بات ہے ، اس کے بعد بھی دو یا تین دفعہ ان سے ملنے گیا ، انہیں دل کا عارضہ تھا لیکن تمباکو نوشی کی لت اس سے زیادہ تھی ۔ اور لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ اس بات کے ماننے پر تیار نہیں تھے کہ تمباکو نوشی ان کے لئے نقصان دہ ہے ۔ گھر میں دو دو ڈاکٹروں کی موجودگی کے باوجود انہیں میڈیکل سائنس پر کوئی اعتبار نہیں تھا، شاید اس میں پشاور کے ڈاکٹروں کا بھی کردار تھا اور ان کی اپنی نازک مزاجی کا بھی ۔ 
12 ستمبر 2014کو ٹویٹر پر سبھی دوست ڈاکٹر محمد تقی کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد دے رہے تھے ، میں نے بھی مبارک باد دے دی ، بس یہی میری غلطی تھی ، ڈاکٹر تقی صاحب سخی صاحب کے بھتیجے اور ملک راحت علی خان کے صاحبزادے ہیں ، انہوں نے مجھے میسیج کیا کہ نہایت ہی تکلیف دہ دن ہے ان کے لئے کیونکہ کل رات ہی سخی صاحب کا انتقال ہوا ہے ۔میں نے یہ میسیج پڑھا تو سخی صاحب کے گھر کا نمبر ملایا ، بات نہیں ہوپارہی تھی ، سخی صاحب کی بیوہ سے بات ہوئی ، شدت سے گلہ کرنا چاہتا تھا کہ مجھے کیوں نہیں بتا یا گیا پھر سوچا کہ وہ جو دلبر و دلدار تھا وہ نہیں رہا اب کسی اور سے کیا گلہ ، جو کام روزنامہ آج والوں نے میرے جانے کے بعد سخی صاحب کے ساتھ کیا تھا وہی کام سخی صاحب کے گھر والوں نے ان کی وفات پر میرے ساتھ کرکے حساب برابر کردیا تھا۔ ڈاکٹر تقی صاحب کی سالگرہ سے لے کر آج کے دن تک کا یہ سارا عرصہ سخی صاحب کے ساتھ گزارے گئے لمحات کو درد کی تصویریں بناتا رہا۔ آج تک شاید کسی کوسالگرہ کی مبارکباد کہنے پر اتنا بڑا صدمہ نہیں دیا گیا ، نہیں  بھولوں گا اب یہ تاریخ ۔کبھی نہیں!!!