حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Monday 11 November 2013

منور حسن کے بیان کا تنازعہ اور آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز

                   جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے متنازعہ بیان سے یہ بات مزید پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے کہ پاکستانی معاشرے کو تقسیم کرنے اور مذہب کی من چاہی تشریح کرنے میں مذہبی جماعتیں کس انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں ، اسی قسم کا بیان مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے بھی سامنے آیا تھا لیکن انہوں نے احتیاط برتتے ہوئے ننگی تاروں کو چھونے سے احتراز برتا تھا ، یا یوں کہئے کہ جناب سلیم صافی نے ان پر ایک احسان کرتے ہوئے ان سے یہ سوال نہیں پوچھا تھا کہ فوجی جوانوں کے طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے کو آپ شہادت سمجھتے ہیں یا نہیں ۔
                   جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام دونوں پاکستان میں بسنے والے سخت گیر مذہبی گروہوں کی نمائندہ مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں ، ان دونوں کے قائدین کے شرعی معاملات کی سیاسی تشریحات نے کھلبلی مچا رکھی ہے تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں ، مذہبی سیاسی جماعتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ معاشرے کو مقدسات کی آڑ میں ایسی توڑ پھوڑ کا شکار کردیا جائے کہ اسے کسی بھی طرح دوبارہ نہ جوڑا جاسکے ، لیکن یہ جو نام نہاد لبرل اور سیکولر طبقہ ہے اس کی جرأت رندانہ کے بھی کیا ہی کہنے اور الیکٹرانک میڈیا کی تو خیر بات ہی نہ کیجئے کہ ان کے بارے میں بھی یہ سوچ عام ہو رہی ہے کہ ان کے ڈانڈے بھی کہیں اور سے ہلائے جاتے ہیں ، یہی دیکھ لیں کہ جناب منور حسن نے اپنے ہی ملک کے فوجی جوانوں کے حوالے سے ایک بات کہی اور یہ محولہ دونوں طبقے(روشن خیال سیکولر/لبرل اور میڈیا) آئی ایس پی آر کی جانب سے مذمتی پریس ریلیز کا انتظار کر رہے تھے ، ان کے نزدیک اس بات کی اہمیت ہی اس وقت پیدا ہوئی جب خود فوج نے اس کا نوٹس لیا اور یوں ان کو اپنی روشن خیالی اور فوج کی جانب سے دی گئی قربانیوں کے تقدس کا خیال آیا ، سو یہی وجہ ٹھہری کہ پاکستان کے تمام نیوز چینلوں پر کل اور آج ( ان سطور کے لکھنے تک) یہ بات شہ سرخیوں میں شامل ہوئی اور اس پر براہ راست پروگراموں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ جو نجانے کب تک جاری رہے گا ۔ 
                 فوج کی پریس ریلیز میں مولانا مودودی کی خدمات کا اعتراف اور ان کے لئے سنہری الفاظ کا استعمال بھی محل نظر بلکہ مہمل سی بات ہے ، آئی ایس پی آر ایک ایسا نشریاتی رابطہ ہے جس سے پاکستان کے عوام کو باالخصوص اور دنیا کے دیگر ملکوں کو یہاں کی فوجی قیادت کی عقل و دانش سمجھنے میں مدد ملتی ہے ، پریس ریلیز کے اس حصے سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ فوج الشمس ، البدر ، شانتی کمیٹیوں اور رضاکاروں کی چیرہ دستیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ، وہ چیرہ دستیاں جو بنگلہ دیش (اس وقت کے نام نہاد مشرقی پاکستان ) میں حریت پسندمسلمانوں اور ہندووں سے روا رکھی گئی ، اور جنگی جرائم کی تاریخ میں اسے ہولوکاسٹ کے بعد بدترین تشدد سمجھنا چاہئے تھا ، اور ظاہر ہے اس وقت جب انسانیت کے خلاف جماعت اسلامی ان جرائم کا ارتکاب کررہی تھی تو اس کے امیر مولانا مودودی ہی تھے جو اس سارے عمل کے نگران تھے ، اس سے یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ پاکستان کے فوج نے بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما غلام اعظم کو پاکستان میں پناہ دینے کے فعل قبیح کو بھی ابھی تک ایسا امر نہیں سمجھا جس پر اسے ندامت ہو۔
                    پریس ریلیز کے اس حصے کو غیر ضروری اور سیاق و سباق سے بالکل ہی الگ سمجھا جانا چاہئے تھا ، موجودہ حال میں تو اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ فوج کو منور حسن کے حالیہ خیالات سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ اس کے ماضی کا نہایت ہی قریبی ساتھی بلکہ حلیف اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا ہے ۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کا عمل نہایت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن اس سے یہ بات بہر حال مسلّم ہوجاتی ہے کہ اصلاح پر آمادگی کا جوہر موجود ہے ، منور حسن کے بیان کے پسِ پشت محرکات تو سب کو معلوم ہیں ، پاکستان کے عوام اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں اور خود پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے بھی اس امر سے آگاہ ہیں کہ القاعدہ اور دیگر کالعدم تنظیموں کے اہم رہنماؤں کی گرفتاریاں کہاں سے ہوتی رہی ہیں ، سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کا ماسٹر مائنڈ کہاں سے پکڑا گیا تھا، اور یہ جو عالمی ایک کڑی مذہبی تنظیموں کی ہے اس میں جماعت اسلامی کا کردار کیا ہے ، افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اس ملک کی اعلیٰ عدالتیں عتیقہ اوڈھو کے سامان سے دو بوتل شراب کی برامدگی کا ازخود نوٹس لینے کو ہر دم اتاولی رہتی ہیں لیکن ریاستی اداروں کے اندر بے چینی پھیلانے اور ہزاروں معصوموں کے لواحقین کے دلوں پر چھری پھیرنے والوں کے ضمن میں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے حوالے سے جنگی جرائم کے جو مقدمات قائم ہوئے اور جن پر فیصلے بھی آئے وہ بھی ہماری اعلیٰ عدلیہ کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں ، ان حالیہ بیانات کے بعد تو الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ کو خود اس بات کا نوٹس لینا چاہئے تھا ، منور حسن صاحب نے تو فوج کے بیان کے بعد بھی اپنے خیالات پر مصر رہنے کا اعلان کر دیا ہے ، ان سطور کے لکھنے تک نیوز چینلوں پر جو پٹیاں چل رہی تھیں وہ اس بات کا برملا اظہار کر رہی تھیں کہ جماعت اسلامی والے اس معاشرے میں رہنے والوں کو کس سمت میں لے کر چلنا چاہتے ہیں ۔
                   ہمیں تو اس بات کا بھی افسوس ہے کہ پاکستان کے مذہبی رہنماؤں سے زیادہ عقل ودانش کا مظاہرہ طالبان کی مجلس شوریٰ کرتی رہتی ہے ، ان کی جانب سے حال ہی میں فضل اللہ کو تحریک طالبان کا امیر بنانے کا فیصلہ نہایت ہی سیاسی بصیرت کا حامل ہے ، ایک تو اس فیصلے کے بعد پاکستان کے افغانستان سے تعلقات مزید بگڑ جائیں گے کہ نئے امیر کا مسکن افغانستان ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان کے خلاف آپریشن نہیں ہوسکے گا ، پاکستان کی فوج افغانستان جاکر آپریشن کرنے سے تو رہی ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے خود کو اس بازاری دانش کے اثرات سے محفوظ رکھا ہے جس میں پاکستان کے مذہبی رہنما مبتلا ہیں اور جس کی طرف گزشتہ دنوں میں انہوں نے خود اشارہ بھی کردیاتھا کہ نیٹو سپلائی کے معاملے پر عمران خان بازاری بیانات سے گریز کریں ۔ 
                         پاکستان حالت جنگ میں ہے ، کوئی بھی ایسا حصہ ملک کا نہیں جسے مامون کہا جاسکے، ہمارے شہر ، قصبے اور گاؤں سب کے سب سنگین بدامنی کا شکار ہیں ،ریاست کی سلامتی کے ذمہ دار ادارے فوج کے جوان بیرکوں میں نہیں بلکہ قبائلی علاقوں میں ہیں ، جہاں وہ القاعدہ ، طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں سے برسر پیکار ہیں ، ان حالات میں سید منور حسن کا یہ بیان اور اس پر مصر رہنے کا اعلان بالکل ایسا ہی طرز عمل ہے جیسا بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی نے ان کی تحریک آزادی میں ادا کیا تھا، وہاں تو ان پر پابندی بھی لگ گئی ان کی سیاسی سرگرمیاں بھی کالعدم ٹھہر ا دی گئیں لیکن یہاں ان کے بانی کو فوج اب بھی ہیرو ہی سمجھتی ہے ، اور کیوں نہ سمجھے پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں ایک ایسا شخص بھی پارلیمانی سیاست میں حصہ لے سکتا ہے جس نے دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکے تھے ، جنرل نیازی کسی اور ملک میں ہوتا تو واپسی پر خود کشی کرلیتا ، قید کر لیا جاتا یا عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بنتا لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ، کچھ دنوں بعد کسی کو یہ باتیں یاد بھی نہیں رہیں گی 

Friday 1 November 2013

ایک کہانی


قریش خٹک بنیادی طور پر ایک صحافی ہیں ‘بڑا عرصہ پشاور میں رہے ہیں ‘صحافتی سیاست میں اچھے خاصے متحرک تھے لیکن اب وہ این جی اوز کو پیارے ہو چکے ہیں ‘ظاہر ہے خاندان میں وسعت ضروریات میں وسعت لے کر نمودار ہوتی ہے اور پھر دل ودماغ کی قوتِ فیصلہ سازی میں معدے جیسا عضوِ کثیف بھی شامل ہوجاتاہے تو ایسے میں صحافت جیسے پیشے کو بطور پیشہ اپنانا مشکل ہوجاتا ہے ‘ہاں البتہ ایک شوق یا عادتِ مرغوب کی حیثیت سے اس کی موجودگی گراں نہیں گزرتی ‘ویسے بھی ایک لکھاری تبھی لکھنا بند کرتا ہے جب وہ سانس لینا بند کر دے ‘ورنہ اُصولی طور پر وہ اس وقت بھی لکھ رہا ہوتا ہے جب کچھ بھی نہیں لکھ رہا ہوتا۔ایک ای میل میں رفیقِ شفیق قریش خٹک نے طبع زاد ایک کہانی بزبانِ افرنگ لکھی ہے ۔کہانی اس قدر متعلق ہے کہ اس کا ترجمہ کئے بغیر موجودہ مہمل حالات کو کوئی معنے نہیں پہنائے جاسکتے۔ خوف خلقِ خدا کے باعث اس میں تھوڑی ترمیم کرنی پڑے گی تاہم کوشش کی جائے گی کہ اس سے اصل معنے قتل نہ ہوں ۔قریش خٹک لکھتے ہیں کہ یہ کہانی انہوں نے اپنی بچی کے لئے لکھی ہے حالانکہ میرا خیال ہے کہ یہ کہانی سب کے لئے ہے۔کہانی ملاحظہ ہو
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بدمعاش شہزادے نے ایک بندر پال رکھا تھا جو اسی شہزادے کی مانند شریر و بد طینت تھا۔اس شریر و شر انگیز بندر کے پالنے کی وجہ یہ تھی کہ بدمعاش شہزادہ اپنے دیگر ہم منصبوں کا جینا دو بھر کرنا چاہتا تھا اور اس بندر کی چالاکیوں اور شرارتوں سے واقعی اس بدمعاش شہزادے کی دلی مرادپوری ہوتی رہتی تھی ۔کوئی اس شریر بند ر کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا۔شہنشاہ معظم بھی شہزادے اور بندرکی حرکتوں سے محظوظ ہوتے رہتے تھے اور اس قدر ان کو شہزادے اور بندر کی ادائیں بھائیں کہ شہنشاہ معظم نے شہزادے کو باقاعدہ الگ سے ایک اچھی خاصی رقم دینی شروع کردی تاکہ حظ اُٹھانے کی شدت میں اضافہ ہوتارہے۔اپنے بندر کی شرارتوں پر مفخّر شہزادہ شہنشاہ کے اس التفات کے باعث اچھا خاصابہک گیا بلکہ زا ئد الاعتمادی کا شکا رہو گیاچناں چہ شہزادے نے فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ خود شہنشاہ معظم کو تختۂ آزار بنایا جائے سو اس نے بندر کو حکم دیا کہ قصرِ شہنشاہی کوہدف بناؤ۔بندر نے حکم کی تعمیل بحسن و خوبی انجام دی ‘شہنشاہ کا قیمتی گل دان توڑ دیا ‘ان کے توشہ خانے میں ایک ہڑبونگ برپا کر دی اور ایسی اتھل پتھل مچا دی کہ الحفیظ و الامان !شہنشاہ معظم نے دربار سے دیوان خانے آکر جو یہ تباہی دیکھی تو غصے سے لال پیلے ہو گئے ‘منہ سے جھاگ بہنے لگی اور دھاڑتے ہوئے بندر کے فی الفور قتل کا شاہی حکم جاری کر دیا۔شہزادے کو قطعاًحالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔تاہم جب بات بہت بڑھ گئی اور شہنشاہ نے ہر قسم کا وظیفہ موقوف کرنے کی دھمکی دے دی تو شہزادے نے بندر کو گھنے جنگل میں فوری طور پر روپوش ہونے کا مشورہ دیا ۔بندر جنگل چلا گیا‘شہزادے نے شہنشاہ کو لکھوا بھیجا کہ بندر گھنے جنگلوں میں روپوش ہو گیا ہے اور اس علاقے میں بندر کو اس لئے تلاش نہیں کیا جا سکتا کہ وہاں اس کی عملداری کمزور ہے ‘اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ گھنے جنگلوں میں بندر کی تلاش کا مشکل کام سر انجام دے سکے ‘ اس پر شہنشاہ نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دئے اور اپنی فوجیں بھی بھجوا دیں اور شہزادے کو حکم دیا کہ ان افواج کی سرکردگی میں فوری طور پر گھنے جنگلوں میں بندر کی تلاش شروع کی جائے اور ہر حال میں اس کا خاتمہ یقینی بنایا جائے ۔چاروناچار شہزادے کو بادلِ نخواستہ بندر کی تلاش میں شہنشاہ کی فوجوں کے ساتھ گھنے جنگلوں کا سفر اختیار کرنا پڑا ‘فوج بندر تلاش کرنے میں بالآخر کام یاب ہو گئی ‘انہیں بندر ایک اونچے درخت پر بیٹھا مل ہی گیا ۔انہوں نے فوری طور پر شہزادے کو خبر کر دی شہزادہ نے جب دیکھا کہ فوجیں بندر کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو سخت دل گرفتہ ہوا تاہم دل شکستہ نہیں ہوا ‘شہنشاہ کے عساکر کے اعلیٰ افسر نے بندر کو گولی مار نے کا حکم دیا لیکن شہزادے نے اسے حکمت عملی کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ یہ مناسب فیصلہ نہیں ‘بہتر یہ ہوگا کہ پہلے درخت کو کاٹ دیا جائے ۔ادھر شہنشاہ کو شہزادے نے مراسلہ بھجوا دیا کہ مبارک ہو !شریر بندر کا اتاپتا مل گیا ہے اور وہ جس درخت پر بیٹھا ہے اس کے کاٹنے کا انتظام ہو رہا ہے لہٰذا ان حالات کے پیش نظر وسائل کی مزیدفراہمی پر غور کیا جائے یہ اور اسی قسم کی دیگر باتو ں سے ایک اچھاخاصا دفتر بنا کر شہنشاہ کو تواتر سے بھجوایا جانے لگا ادھر بندر ایک درخت سے دوسرے درخت پرپھلانگتا رہا ۔شہنشاہ کی فوج نے درختوں کو کاٹ کاٹ کر پورے جنگل کا حلیہ بگاڑ دیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پورے جنگل کو گنجا ہی کر دیااس صورتِ حال میں جنگل سے نایاب پرندے نقل مکانی کرنے لگے ‘جانووروں کو شہنشاہ کی فوج ذبح کر کے خوراک کی کمی پوری کرتی رہی ‘شہزادے کی سفارش پر نقد رقوم اور دیگر وسائل فراہم ہوتے رہے ‘ہوتے ہوتے اس اثنا میں آٹھ برس بیت گئے ۔اب شہنشاہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا ۔اس نے ایک آخری خط شہزادے کو لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر جلد ہی بندر کا خاتمہ نہ کیا گیا تو شہنشاہ کو خود آنا پڑے گا ۔یہ دھمکی بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی سو شہنشاہِ معظم خود عازم جنگل ہوئے جنگل پہنچنے پر انہوں نے افواج کی قیادت خود سنبھالی اور بندر کے گرد گھیرا تنگ کردیا اور ساتھ میں شہزادے سے اس رقم کی تفصیل اور حساب مانگا جو بندر کے خلاف اس مہم پر خزانۂ شاہی سے صرف ہوئی تھی ‘شہنشاہ کی خوشنودی کا ایک آخری حربہ شہزادے کو یہ سوجھا کہ اس نے پورے جنگل میں آگ لگوا دی ‘جنگل کی آگ پورے علاقے میں پھیل گئی ‘دھویں کے بادل دور دور سے نظر آنے لگے ‘ایک دھواں تھا جس نے بینائی کو مفلوج کر دیا ‘اور یہ دھواں جب رخصت ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ دور پہاڑ کی چوٹی پر شریر بندر شہزادے کے کاندھے پر بیٹھا خوخیا رہا تھااور شہزادہ بندرسے اٹھکھیلیوں میں مصروف تھا‘لوگوں نے جب بندر کو شہزادے کے کاندھے پر سوار دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے اس پر شہزادے نے ایک فلک شگاف چیخ میں کہا کہ اسے یہ بندر ہر کسی سے پیارا ہے اور وہ کبھی بھی اس بندر کو کسی کے ہاتھوں ختم ہونے نہیں دے گا۔شہزادے نے یہ کہا اور پہاڑ کی دوسری جانب اتر گیا‘‘۔
کہانی اگرچہ یہاں پر ختم کر دی گئی ہے مگر اصل کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے ‘یعنی اس جنگل کے نذرِآتش ہونے کے نقصانات کی روداد۔ویسے اس کہانی کا نتیجہ ہی اصل کہانی ہے اور اس کا انحصار کہانی کے قاری پر ہے کہ وہ اخذ کیا کرتا ہے ؟

Tuesday 29 October 2013

میڈیا کی برکات۔ اور کچھ بیاں اپنا

                 یہ اس وقت کی بات ہے جب آج سے قریباً ایک عشرہ قبل بسلسلۂ روزگار ہمیں ایک ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہونا پڑا، غریب الدیاری اور خواری(مؤخر الذکر لفظ پشتو اور فارسی دونوں کا سمجھا جائے) کی ایک الگ ہی کہانی ہے اسے پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں ، اس وقت ہماری زبان کا کوئی چینل ہی نہیں تھا ( ابھی حال ہی میں ایک دوسرا چینل کھلا ہے لیکن اس چینل کے آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے کوئی نظر ہی نہیں آتا) اس پر چینل کے مالک کی شدید خواہش تھی کہ اس چینل میں حالات حاضرہ اور نیوز کا بھی شعبہ ہونا چاہئے ، چناں چہ ایک مسئلہ ہمیں درپیش تھا اور وہ یہ کہ ہم نے سب کچھ شروع کرنا تھا اور وہ بھی زیرو سے-
               چینل کے مالک نے ہمیں ایک میٹنگ کے لئے بلوایا ، ایک دوسرے تجربہ کار صحافی جنہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا اور ہمارے چینل کے ڈائریکٹر نیوز تھے وہ بھی موجود تھے، انہوں نے ہم دونوں کے سامنے ایک سوال رکھا کہ پالیسی کیا ہونی چاہئے ؟ہم نے اپنے ڈائریکٹر کی طویل تقریر سنی ، بڑے علمی اور تہذیبی نکات کا عمیق جائزہ انہوں نے نہایت ہی سادہ انداز میں چینل کے مالک کے سامنے رکھ دیا، ان کی باری ختم ہوئی تو محترم مالک نے ہم سے استفسار کیا  ہمارے پاس دلائل و براہین کا وہ قاموس تو نہیں تھا جو ہمارے ڈائریکٹر کے پاس تھا البتہ ہم نے خود مالک سے یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ پالیسی کی ضرورت ہی کیا ہے ؟کیا اس حوالے سے انہیں سرکاری طور پر کوئی ہدایت موصول ہوئی ہے یا وہ خود کسی خاص قسم کی سوچ اس چینل کے ذریعے پروان چڑھانا چاہتے ہیں ؟ہمارے اکھٹے ان سوالات مع تأثرات پر انہیں حیرت ہوئی اور کہنے لگے کہ ابلاغ کے ہر ذریعے کی کوئی پالیسی ہوتی ہے ، ہم نے کہا کہ ایسا سابقہ سویت یونین کے زمانے میں ہوا کرتا تھا ، آزادئ اظہار کے سب سے بڑے وکیل امریکہ اور اس کے حلیفوں نے مختلف حیلوں اور بعض ممالک میں قوانین کے ذریعے ابلاغ کے آزاد ذرائع کا ناطقہ بند کر رکھا تھا ، اور جو اخبارات و جرائد سویت یونین کی طرف معمولی جھکاؤ کا بھی اظہار کردیتے تھے انہیں پراپیگنڈا مشین قرار دیا جاتا تھا ، اور پھر سرکاری مراعات یافتہ میڈیا اس اخبار یا جریدے کا کوئی ایسا نقشہ کھینچتے کہ معلوم ہوتا کہ یہ کوئی شیطانی منصوبہ ہے یا رسالے اخبار وغیرہ کا ایڈیٹر گوئبلز کا کزن ہے ، ان معروضات کا اثر خاطر خواہ ہوا ، پوچھنے لگے کہ پھر کیا کیا جائے ، ہم نے گزارش کی کہ پالیسی کی ضرورت ہی نہیں ، ہم نے سچ ہی کو فروغ دینا ہے ، عوامی مفادات کا خیال رکھنا ہے اور کھرے کھوٹے کی تمیز بتانی ہے اس کے لئے کسی پالیسی کی ضرورت نہیں ، انسان اس درجہ پرترقی کر چکا ہے کہ اب برے بھلے کی تمیز کرنے کے لئے سقراط کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہی ، بچہ بچہ سمجھتا ہے کہ فلاں کام کے پس پشت کیا عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں ، چناں چہ یہ طے پایا کہ کوئی پالیسی ہی نہیں ہوگی ، جو بھی ہوگا خلوص نیت سے ہوگا اور عوامی مفاد کو ہر مفاد پر مقدم رکھا جائے گا-
             سچائی بھی یہی ہے ، سویت یونین کے خاتمے کے سو نقصانات ایک طرف اور یہ فائدہ دوسری طرف کہ اس عظیم تحلیل ریاست نے آزادئ اظہار کی راہ ہموار کر دی ، ہمارے پرانے رفقائے کار ، سرکاری ملازمین اور حکومتی میڈیائی ذرائع سے منسلک صحافت کاروں کے نزدیک اس بات کی اہمیت مشکوک ہو یا ان کے نزدیک پالیسی کا وجود ازبس ضروری ٹھہر سکتا ہے لیکن اب دنیا 1991ء سے بہت آگے نکل چکی ہے ،ذرائع ابلاغ کا ایک کردار متعین ہوچکا ہے اور ان کے کردار کے اثرات بد کی وجہ سے اس تعین کی سمت واضح نہیں ہوپا رہی گویا یہ نو دریافت کرداری تعین بھی مسلسل ارتقا کے مراحل سے گزر رہا ہے ، ابلاغ کا ہر ذریعہ مختلف تجربوں کے ذریعے غلطیوں سے سیکھ رہا ہے ۔ہمارے خیال میں ابلاغ کے کسی بھی سوتے کی کوئی پالیسی نہیں ہونی چاہئے سوائے ایک پالیسی کے اور وہ ہے ملازمین کے تقرر کی ، ان کی اہلیت کے معیار کی ، اور ان کے علم و دانش اور آگہی کی ۔
               یہی دیکھ لیں کہ آج کل ہر نیوز چینل شیخ رشید کو نہایت ہی پرائم اوقات میں دل کی بھڑاس نکالنے کا بھرپور موقع فراہم کرر ہے ہیں اور جناب شیخ بھی ایسے طرز عمل کا مظاہر ہ کر رہے ہیں کہ جیسے ان کے پاس پاکستان کے تمام مسائل کا حل موجود ہے ، اور یہ کہ پاکستان کے ہر مسئلے کا جتنی باریک بینی سے انہوں نے مطالعہ کر رکھا ہے اس قدر علم یہاں کے اداروں اور جامعات کے پاس بھی نہیں ، گویا ہر نوعیت کی سیاسی دانش شیخ رشید کے گھر کی لونڈی ہے ، سوائے ایک طلعت حسین کے جنہوں نے اپنے ایک پروگرام میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اس ملک کی ذہنی پستی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ بڑے بڑے سیاسی دماغوں کی بجائے تمام چینل شیخ رشید کو دن رات سر پر اٹھائے پھرتے ہیں 
             الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے چند سال پیشتر اس رائے کا اظہار ہم نے کیا تھا ہمارے ہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ صحافت کا شوبزنس ہے اسے ٹی وی جرنلزم نہیں کہا جاسکتا ، یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ٹی وی چینلوں نے راتوں رات مشہور صحافیوں کو جنم دیدیا ہے ، جن لوگوں نے اپنی زندگی میں کسی جلوس کی رپورٹنگ نہیں کسی پریس کانفرنس میں نہیں بیٹھے وہ لوگ اچانک نجانے کہاں سے پیراشوٹ کے ذریعے نیوز چینلوں پر سیاست دانوں سے سیاست کی باریک بینیوں پر سوالات پوچھتے رہتے ہیں اور وہ ابھی اس قسم کے اول فول کے ابکائی اور متلی کی سی کیفیت ہوجاتی ہے ، اس پر بھی مستزاد یہ کہ نیوز ریڈروں کو اینکرز بنا دیا گیا ہے ، نہ انہیں کسی سیاسی پارٹی کی تاریخ کا پتہ ہوتا ہے نہ ملکی سیاست کی تاریخ کی سمجھ ہوتی ہے نہ ہی ملکی آئین و قوانین سے کسی قسم کی واقفیت لیکن بھلا ہو پی آر بینک کا جس نے پاکستان میں اس قدر برانچیں کھول رکھیں ہیں کہ ہر قسم کے لوگ نیوز ریڈر سے اینکر ، اینکر سے دانشور اور اب فلاسفر بنتے جارہے ہیں ،ٹی وی پر آ موجود ہونے والے ایسے ماہرین سوات کا کیا ذکر کریں جو سوات کو ساوات کہتے نہیں تھکتے ، ہر چینل کے حالات حاضرہ کے پروگرام کرنے والوں کے پاس ایسے ’’دانشوروں‘‘ کا ایک فہرست ہوتی ہے جنہیں سحری سے لے تہجد تک کے سارے وقت میں کسی بھی وقت بلایا جا سکتا ہے ، اور ان ماہرین کی مصروفیات میں کوئی خلل بھی واقع نہیں ہوتا ۔
            ایک حضرت ہیں جو ڈاکٹر کہلاتے ہیں لیکن اتنا چیختے ہیں اتنا چیختے ہیں کہ ان کی دماغی صحت پر شک ہو جاتا ہے ، صنف نازک کے حسن و جمال اور پیکر کے شیدائیوں نے ایسی خواتین اینکرز کو بھی اس میدان میں لا بٹھایا ہے جن کا نہ تو صحافت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس ملک کے عمومی مسائل کا ان پر کوئی اثر مرتب ہوتا ہے ، یہ بات الیکٹرانک میڈیا تک محدود نہیں ، اخبارات کے صفحات کیا زیادہ ہوئے ان کا پیٹ بھرنا اور بھی مشکل ہوگیا ، جو لوگ پروف ریڈر تھے وہ اداریہ نویس و کالم نویس بن گئے چلئے کسی طور ایک مقام پر اس دلیل کا استحکام متاثر ہوسکتا ہے ، لیکن ہومیوپیتھک ڈاکٹروں ، بیمہ ایجنٹوں اور حکیموں کے ساتھ ساتھ ایسے ہی پیشوں سے وابستہ لوگ بھی اب کالم نویسی کا شغل فرمانے لگے ، پہلے زمانے میں اخبارات کے ادارتی صفحے پر ایک آدھ کالم ہوتا تھا لیکن آج کل ایسی الٹی گنگا بہنے لگی ہے کہ جس نے دس سطریں کھینچیں بس وہ تصویر کے ساتھ جناب مدیران کرام کالم کی صورت شائع کر دیتے ہیں ، پھر سکولوں سے وابستہ اساتذۂ کرام کی ایک وافر تعداد بھی اس کار خیر میں مصروف ہے ، ان کا مطمح نظر یہ ہوتا ہے کہ جیسے تیسے ہیڈ ماسٹر کو اپنی اخباری سرگرمی سے کنٹرول کیا جاسکے ، ایسے حالات میں اچھا بھلا انسان بھی حسن نثار جتنا مایوس ہو سکتا ہے ۔ان میڈیائی دانشوروں کی بصیرت افروزیوں کی داستان ختم نہیں ہوئی ۔ یا ر زندہ صحبت باقی !! 

Thursday 10 October 2013

ضمیر کا بوجھ اور اعظم ہوتی

ہمیں اس بات سے کلی اتفاق ہے کہ واقفان حال کے نزدیک اس تحریر کا عنوان ہی شتر گربگی (Oxymoron) کی مثال ہے لیکن اسی عنوان کا انتخاب اس لئے لازم تھا کہ اعظم ہوتی کے نزدیک وہ یہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ ضمیر کے بوجھ کی وجہ سے کر رہے ۔ مرزا اسداللہ خاں غالب کو کسی ایسی ہی صورت حال سے قبل حالِ دل پر ہنسی آتی تھی لیکن بعدازاں وہ صاف لفظوں میں فرما گئے کہ انہیں اب کسی بات پر ہنسی نہیں آتی ۔

 ہمارے ہاں کسی زمانے میں اخبار نویس بڑے باخبر ہوتے تھے اور ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انہیں سب کچھ پتہ ہوتا ہے لیکن شاید اب ایسا نہیں ، ان تمام باتوں سے قطع نظر جو اعظم ہوتی نے ایک تسلسل میں کی ہیں کسی صحافی نے ان سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ، وہ گزشتہ کتنے ماہ سے اپنے عظیم والدؒ خان لالا امیر محمد خان کا مدفن ومرکز چھوڑ کر پشاور میں بطور ایک مہاجر رہائش پذیر ہیں،اور وہ کون سے عوامل تھے کہ وہ نہ صرف یہ کہ مردان میں خدائی خدمت گاروں کی اولادوں کو چھوڑ کر آئے بلکہ مردان میں خدائی خدمت گاری کے مرکز خان لالا کا گھر اور حجرہ بھی چھوڑ کر پشاور میں آبسے ؟

پھر انہوں نے جن خیالات کا اظہار اسفندیار ولی خان کی شخصیت کے حوالے سے کیا اس کے اس پہلو کو وہ بالکل فراموش کرگئے کہ دراصل انہوں نے اپنی درید ہ دہنی کا ہدف خان عبدالولی خان کی ذات کو بنا یا ہے ، ایک نا سمجھ اور اس قصے سے ناواقف آدمی تو یہی سمجھے گا کہ رہبر تحریک نہ صرف کہ درپردہ سازشوں کی مجاز اتھارٹی تھے بلکہ کرپشن اور حکومت سے عطیات وصول کرنے جیسے اہم معاملے پر خامو ش رہ کر نامعلوم مصلحت کا شکار ہوئے ، اور وہ بھی صرف اس لئے کہ اعظم ہوتی کی خوشنودی انہیں حاصل رہے ،اور اعظم ہوتی کے نامزد کردہ مرکزی صدر کی صدارت کا بھرم رہے-

 خوش قسمتی ہے کہ رہبر تحریک کی سیاسی زندگی ایک کھلی کتاب ہے اور انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی خود نوشت لکھ کر اعظم ہوتی کے بہت سارے سوالات کا پیشگی جواب دیدیا تھا،اس بات سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ ہمیں کسی کے ضمیر کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ، شاید یہ اختیار کسی کے پاس نہیں ، لیکن ضمیر کے فیصلوں کے منصۂ شہود پر آنے کے بعد ہر فیصلہ ایک طبعی شکل اختیار کرتا ہے یا اس طبعی شکل کے وجود میں آنے کی راہ ہموار کرتا ہے ، سو ایسا کوئی بھی فیصلہ نقد ونظر کے میزان پر پرکھا جاسکتا ہے - 

ضمیر کے بوجھ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے بقول اعظم ہوتی ان کے پاس تین راستے تھے ، ان تین راستوں کی وضاحت انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یوں کی تھی کہ اولاً ان کے پاس راستہ یہ تھا کہ وہ پارٹی کے اعلیٰ اختیاراتی فورم پر بات کرتے ، دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ ساز باز یا جوڑ توڑ کرتے اور 2005کے اواخر میں جیسا بیگم نسیم ولی خان صاحبہ کے ساتھ ہوا اسی قسم کے کسی ماڈل پر کام کرتے اور تیسرا راستہ یہ تھا کہ وہ پریس کانفرنس کرتے اور جو بیان انہوں نے اس پریس کانفرنس سے چند روز پیشتر دیا تھا اس کا دفاع کرتے -

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تیسرے راستے کا انتخاب کیا ، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اول الذکر دونوں راستے انہوں نے کیوں نہیں چنے ، یہ نہ بتانے کی وجہ بڑی بیّن اور واضح ہے - عوامی نیشنل پارٹی کے ہر اعلیٰ اختیاراتی فورم پر وہ اسفندیار ولی خان کی قیادت کو ناگزیر قرار دیتے رہے تھے ، حتیٰ کہ آخری مرکزی مشاورتی اجلاس جس میں انہوں نے شرکت کی تھی اس میں بھی انہوں نے اسفندیار ولی خان کی قیادت کو پارٹی کے لئے از بس ضروری قرار دیا تھا ، لیکن اگر انہیں یہ یاد نہ ہو تو انہیں یہ توضرور یاد ہوگا کہ اسفندیار ولی خان نے اس مرتبہ پارٹی کی قیادت کرنے سے معذرت ظاہر کردی تھی ، یہ ان دنوں کی بات ہے جب اے این پی برسر اقتدار تھی اور چار سال کی آئینی مدت کے خاتمے پر پارٹی اپنے طریق کار کے مطابق ممبر سازی کے مرحلے سے گزر رہی تھی ، مرکزی کونسل کے اجلاس نے متفقہ طور پر اسفندیار ولی خان کی معذرت مسترد کردی تھی اور انہیں یہ کہا تھا کہ وہ بہر حال پارٹی کی قیادت جاری رکھیں گے ، یہی وہ موقع تھا جب اعظم ہوتی نے اسفندیارولی خان کی قیادت کی ناگزیر حیثیت کی مزید تشریح کی تھی -

 30نومبر 2011کو جب پارٹی کے مرکزی انتخابات کا انعقاد وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہورہا تھا تو اس وقت بھی اسفندیارولی خان کا نام اعظم ہوتی نے یوں تجویز کیا تھا’’میں محمد اعظم خان ہوتی پارٹی کی مرکزی کونسل کے رکن کی حیثیت سے اسفندیارولی خان کا نام پارٹی کی صدارت کے لئے تجویز کرتا ہوں‘‘۔ جس کی تائید سینیٹر عبدالنبی بنگش صاحب نے کی -

 یہ تو خیر دو سال پرانی بات ہے اور ضمیر کا حافظہ شاید ان دنوں فالج کی نذر تھا لیکن چار جون 2013ء کو پشاور میں منعقدہ صوبائی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ان کے خیالات اسفندیار ولی خان کے بارے میں سر مو تبدیل نہیں ہوئے تھے- 

انہوں نے ساز باز ، جوڑ توڑ یا سازش کے آپشن کے عدم استعمال کی وجہ نہیں بتائی ، وہ بھی کوئی قابل بیان وجہ نہیں تھی کیونکہ انہوں نے اپنے جن دو قریبی رفقاء سے بات چیت کی انہوں نے ان کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی ، البتہ تیسرا آپشن استعمال کرنے کا ان کے پاس ہمیشہ موقع تھا-

 اپنی پریس کانفرنس میں اعظم ہوتی نے ایک بات یہ بھی کہی تھی کہ وہ 1970ء کی دہائی سے رہبرتحریک خان عبدالولی خان کے بہت قریب رہے ہیں ، حالانکہ واقعاتی صداقتیں اس سے مطابقت نہیں رکھتیں ، ایک تو 70کی دہائی پاکستان کی سیاست کے حوالے سے نہایت ہی طوفانی قسم کی تھی ، بنگلہ دیش کی آزادی ، آئین کی ترتیب اور اس کے بعد حیدرآباد سازش کیس ایسے مراحل تھے جن میں نیپ کی ہائی کمان میں کسی نے بھی اعظم ہوتی کا نام نہیں سنا تھا ، پارٹی کی کسی بھی میٹنگ میں اعظم ہوتی کی رہبرتحریک کے ساتھ کوئی تصویر تک نہیں ، واضح رہے کہ حیدرآباد سازش کیس کے خاتمے پر رہبرتحریک رہائی کے بعد لندن چلے گئے تھے ، یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ 1970کی دہائی میں اعظم ہوتی کی عمر صرف 24سال تھی ، اور 70ہی کی دہائی میں وہ سانحہ لیاقت باغ کے بعد کابل چلے گئے تھے  وہ 1946میں پیدا ہوئے ہیں ، اور اسفندیار ولی خان سے ان کی عمر تیس چالیس سال زیادہ نہیں بلکہ دو سال اور چند ماہ ہی زیادہ ہے ، اسفندیار ولی خان فروری 1949میں پیدا ہوئے -

ہم یہ بھی نہیں کہیں گے کہ ’’کہ آمدی و کہ پیر شدی‘‘ لیکن اگر اعظم ہوتی کا استدلال یہ ہے کہ وہ اور ان کے والد اس تحریک کے ساتھ رہے ہیں تو اس سے زیادہ دعویٰ اسفندیار ولی خان کا ہے جو یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تحریک شروع تو ان کے گھر انے سے ہی ہوئی ہے ، خان لالا امیر محمد خان ؒ کی عظمت و جدوجہد میں کوئی شک نہیں ، ان کی ذات اس پورے معاملے سے بالا ہے ، لیکن چونکہ اعظم ہوتی نے ان کا ذکر کیا تھا اس لئے مجبوراً ان کا نام بھی آیا، جس زمانے میں بزرگوارم محترم اجمل خٹک مرحوم کو پرویز مشرف کی ذات میں کسی روشنی کی جھلک نظر آئی تھی اور نتیجتاً انہیں اے این پی سے جانا پڑ گیا تو وہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے اسی( 80)سال خدائی خدمت گاری کو دئے ، جس کا انہیں یہ صلہ دیا گیا ، رہبر تحریک خان عبدالولی خانؒ سے جب کسی نے یہ استفسار کیا تو انہوں نے پوچھا تھا کہ اسی سال تو ان کی عمر نہیں اپنی پیدائش سے بیس سال قبل وہ نجانے کہاں خدائی خدمتگاری کرتے رہے ، اب وقت کے الٹ پھیر نے اس سوال کو نئی زندگی عطا کر دی ہے ، اعظم ہوتی اسفندیار ولی خان سے دو ایک برس عمر میں زیادہ ہیں ، ان کی سیاسی جدوجہد کی کتاب کے سارے ورقے خالی ہیں لیکن تأثر ایسا دے رہے ہیں کہ وہ 1910ء میں آزاد سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے یا فضل محمود مخفی صاحب ان سے رشتہ تلمذ رکھتے تھے

70کی دہائی میں وہ افغانستان چلے گئے تھے ، جنرل ضیاع کےمارشل لا میں واپس آئے تو بھی رہبر جیل میں تھے بعد میں رہبر لندن چلے گئے ، در اصل اعظم ہوتی کی سیاسی زندگی کا آغاز 1988ء کے عام انتخابات کے ساتھ ہوا تھا ، 1990ء میں جب وہ رکن قومی اسمبلی بنے اور وزیر ہوئے تو ان کا اثر ورسوخ پیدا ہوا ، باقی کی زندگی کا وہ حوالہ نہ دیں کہ اس دوران کوئی ایسا سیاسی عہدہ ان کے پاس نہیں رہا جو پالیسی سازی پر اثر انداز ہو ، ان کا اثر ورسوخ کا منبع بیگم نسیم ولی خان کی ذات ہی تھیں اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں - 

اعظم ہوتی نے اپنی پریس کانفرنس میں اسفندیار ولی خان کے لئے کوئی ایسا نازیبا کلمہ استعمال نہیں کیا تھا بلکہ یہ تک کہا تھا کہ وہ شریف النفس انسان ہیں لیکن جب انہیں پارٹی سے فارغ کردیا گیا تو اس کے بعد خیبر نیوز پر انہوں نے اسفندیار ولی خان پر نہ صرف یہ کہ الزامات لگائے بلکہ رہبرتحریک خان عبدالولی خانؒ کے حوالے سے انہوں نےجو کچھ اسفندیار ولی خان کی بابت کہا وہ بلواسطہ رہبرتحریک کے خلاف چارج شیٹ تھی ، اسے اعظم ہوتی کی بدقسمتی پر محمول نہیں کیا جاسکتا کہ وہ رہبرتحریک کے حوالے سے جو گواہ بھی پیش کرتے ہیں وہ طبعی طور پر یا سیاسی طور موت سے ہمکنار ہوچکا ہوتا ہے ، ان کے زندہ گواہ بیگم نسیم ولی خان اور فرید طوفان ہیں ، جو اسفندیار ولی خان کے خلاف گواہی دیں یا نہ دیں ان کا فیصلہ پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے -

 اعظم ہوتی نے یہ بھی کہا کہ اسفندیار ولی خان کے حوالے سے رہبر تحریک خان عبدالولی خان کا کہنا تھا کہ وہ منافق ہیں ، جھوٹے ہیں اور بزدل ہیں ، اس دعوے کی تصدیق واقعاتی صداقتوں سے کتنی ہوتی ہے اس کے بارے میں وہ اسی پروگرام میں کہتے ہیں کہ پہلی دو باتوں کو چھوڑ دیں لیکن بزدل تو وہ ہیں ہی کہ ولی باغ میں دھماکے کے بعد وہ فوری طور پر ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اسلام آباد چلے گئے۔

 ہم ان پہلی دو باتوں کو بھی نہیں چھوڑتے ، ان کے حوالے سے بھی بعض امور کا انہیں جواب دینا چاہئے - جس منافقت کا الزام انہوں نے اسفندیار ولی خان پر لگا یا ہے اس کا کوئی ثبوت تو انہوں نے نہیں دیا البتہ چوبیس سال تک اسفندیار ولی خان کو صدر بنائے رکھنے اور دل سے انہیں صدر نہ ماننے کی روش کو کیا نام دیا جائے وہ خود ہی بتا دیں - 

جھوٹ بولنا بہت بڑی روحانی بیماری ہے ، اس بیماری کے کردار پر بہت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جھوٹے کی محبوبیت نہیں رہتی ، جھوٹ کھلتے رہتے ہیں شخصیت کا طلسم جاتا رہتا ہے - اسفندیار ولی خان پر یہ دوسری تہمت باندھنے سے قبل اس نکتے پر غور کرنا لازم ہے کہ جن خدائی خدمتگاروں کی اولادوں کو آج اچانک بیداری کا اذن اعظم ہوتی کی جانب سے مل رہا ہے ان میں وہ خود کتنے مقبول ہیں ،اور خود ان کا کردار کتنے لوگوں(خدائی خدمتگاروں اور ان کی اولادوں کو چھوڑئیے) کے لئے مشعل راہ اور چراغ ہدایت ہے؟ 

ہیلی کاپٹر میں اڑ کر اسلام آباد جانے کو پھبتی بنا کر بار بار اسی پر تان توڑنے کو تقریر بازی کہئے یا شعبدہ بازی لیکن کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ اے این پی کی مشاورتی کمیٹی مرکزی کمیٹی مرکزی مجلس عاملہ صوبائی مجلس عاملہ کتنے ہی فورم ہیں جنہوں نے اسفندیار ولی خان کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنی سرگرمیاں محدود کرلیں، اور یہ کہ ان کے لئے موجودہ حالات کے تناظر میں پہلے جیسی سیاسی سرگرمی جاری رکھنا قرین مصلحت نہیں ، چلئے اسے بھی ایک طرف رکھتے ہیں جس دن اعظم ہوتی پریس کانفرنس کر نے پشاور پریس کلب پہنچے اور صدر کے کمرے میں تشریف فرما تھے تو کیا انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ جس روزخودکش دھماکہ ہوا تو اسفندیارولی خان کو انہوں نے ہی یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ جناب آصف علی زرداری کی دعوت قبول کرتے ہوئے اہل خانہ سمیت اسلام آباد چلے جائیں ؟ کیا اس بات سے انکار کرنا ان کے لئے ممکن ہے جو انہوں نے درجنوں صحافیوں کے روبرو کہی ؟اور کیا اس بات کو بطور حجت تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس لئے بزدل ہیں کہ وہ اسلام آباد چلے گئے ؟اس اصول کی تشریح کے لئے انہیں دلیل منطق سیاست تجزیہ اور نجانے کیا کیا متعلق وغیر متعلق اشیاء جن کے نام انہوں نے گنوائے کوئی ایک بھی میسر ہے؟

انہیں تو اصولی طور پر اس واقعے کا ذکر تک نہیں کر نا چاہئے تھا کیونکہ وہ خود اس بات کی وضاحت نہیں کرسکتے کہ مردان سے وہ بغیر ہیلی کاپٹر کے اڑ کر پشاور کیسے پہنچے ، وہاں تو کوئی دھماکہ بھی نہیں ہوا تھا ، اور نہ ہی انہیں کسی نے بلایا تھا!

 انہوں نے یہ بات بھی کہی کہ بیگم نسیم ولی خان پر قاتلانہ حملہ اسفندیار ولی خان نے کروایا تھا اور یہ کہ یہ بات اسفندیار ولی خان نے رہبرتحریک اور سنگین ولی خان اور خود ان کے سامنے بھاری دل سے تسلیم کی تھی ( نوٹ کیجئے کہ ان کے گواہوں کی فہرست میں ایک تو وہ خود مدعی ہیں باقی وفات پاچکے ہیں) لیکن اس حوالے سے بھی چند نکات جواب طلب ہیں کہ اگر ایسا ہوا تھا تو بیگم نسیم ولی خان جو بین السطور بات کرنے میں ملکہ رکھتی ہیں اپنی پارٹی سے بیدخلی کے بعد ضرور اشاروں اور کنایوں میں یہ بات کہہ دیتیں لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہو ا ، یہ تہمت ہی نہیں گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے-

ان سطور کے لکھنے کے دوران اس بات کا خیال مجھے آیا کہ اس واقعے کی صداقت کے بارے میں بیگم نسیم ولی خان سے خود بھی پوچھا جا سکتا ہے ، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے اس واقعے سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ، کچھ دیر بعد ان کا فون آیا ، انہوں نے پہلے تو اس واقعے کے حوالے سے اپنے پہلے بیان کی تردید کی ،اور کہا کہ ایسا مردان میں ہوا تھا اور اس موقع پر سنگین ولی خان ، اعظم ہوتی اور رہبرتحریک کے ساتھ وہ خود بھی موجود تھیں ( اعظم ہوتی نے ان کی موجودگی کا ذکر نہیں کیا ) میں نے پھر پوچھا کہ کیا واقعی اسفندیار ولی خان بطور ایک مجرم اقبالی بیان دے رہے تھے اور سنگین ولی خان نے ان پر چارج شیٹ لگائی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں ، اور مجھ سے پوچھا کہ’’ تمہی کہو کیا یہ ممکن ہے؟اسفندیار خان اس موقع پر نہیں تھے‘‘۔اتنے میں پیچھے سے آوازسنائی دی کہ اسفندیار خان موجود تھے ، پھر بی بی کو بھی اس کی تائید کرنی پڑی-

بہرحال یہ ایسا چھوٹا واقعہ نہیں تھا ، رہبر تحریک خان عبدالولی خان کی بیگم نسیم ولی خان کے بارے میں حساسیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، ان کے حوالے سے رہبر تحریک نے اپنی خود نوشت کی دوسری جلد میں ان کے سیاسی قدکاٹھ اور سمجھ بوجھ کی جو تعریف کی ہے اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ رہبر کے نزدیک محترمہ بیگم نسیم ولی خان کی کیا حیثیت تھی ، خان عبدالولی خانؒ ایسی کسی حرکت کو معاف نہ کرتے ، چہ جائیکہ بطور انعام مبینہ اقبالی مجرم کو پارٹی کا مرکزی صدر بنا دیتے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسفندیار ولی خان نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے خان عبدالولی خان کو علاج کے لئے دئے گئے پچاس لاکھ روپے ہتھیا لئے ، اور رہبر تحریک نے بطور گلہ یہ بات اعظم ہوتی سے کہی کہ آپ ایک ایسے شخص کو پارٹی کا صدر بنانا چاہتے ہیں جو رہبر کو فروخت کرنے میں تأمل سے کام نہیں لیتا قوم فروشی میں تو وہ کوئی تاخیر نہیں کرے گا - 

اعظم ہوتی کا یہ الزام خان عبدالولی خان کی ذات پر ایسی تہمت ہے جس کی مذمت بطریق احسن کرنے کے لئے اردو میں الفاظ نہیں اور پشتو میں جو کچھ لکھنے کی آرزو ہے تہذیب اس کی اجازت نہیں دیتی ، رہبرتحریکؒ نے پاکستانی سیاست کے اس غلیظ جوہڑ میں ایسی پاک زندگی گزاری ہے کہ ایک چھینٹ بھی ان کے دامن پر نہیں ، اسی لئے ان کے مخالفین بھی انہیں زندہ ولی قرار دیتے تھے - عطیات ، عہدے اور مراعات قبول کرنا ہوتے تو کوئی مارا ماری ہی نہ ہوتی ، رہبر آرام سے پاکستان کے وزیراعظم 1960ء کے عشرے میں بن چکے ہوتے ، جنرل ضیاع کے عہد میں بھی وزیر اعظم ہوتے لیکن یہ ’’شان ولایت‘‘ کے خلاف باتیں ہیں - رہبر اپنے نام پر لئے جانے والے پیسوں پر خاموش رہ ہی نہیں سکتے تھے- اعظم ہوتی کے اس الزام سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ رہبر کے بالکل بھی قریب نہیں رہے - 

خان عبدالولی خانؒ دیانت داری اور کرداری عظمت پر جان نچھاور کرنے والی ہستی تھیں ، "باچاخان او خدائی خدمتگاری" جلد دوم صفحہ 442سے شروع کیجئے اور پڑھئے کہ مولانا بھاشانی کے حوالے سے جب ذوالفقار علی بھٹو نے خان عبدالولی خان کو یہ بتایا کہ وہ ایوب اور فاطمہ جناح کے الیکشن میں صدر ایوب سے پیسے کھاتے رہے تھے تو انہوں نے ایک لمحہ تاخیر کئے بغیر شمالی بنگال کے گاؤں پنج بی بی کا رخ کیا اور اپنے ساتھ ارباب سکندر خان خلیل شہید اور محمود علی قصوری کو بھی لے گئے ، اور انہیں بھٹو کے روبرو ہونے کا کہا جس پر مولانا بھاشانی نے ان کے پیر پکڑ لئے لیکن رہبر نے اس چھوٹی حرکت پر انہیں معاف نہیں کیا ، وہ جب مولانا بھاشانی جیسی شخصیت کو معاف کرنے پر تیار نہیں تھے تو اسفندیار ولی خان سے انہوں نے اس لئے کچھ تعرض نہیں کیا کہ وہ ان کے بیٹے تھے؟َیہ الزام رہبر پر ہے یا اسفندیار ولی خان پر ؟

اعظم ہوتی یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ 1994ء کی بات ہے- اسفندیار ولی خان 1999میں پہلی مرتبہ پارٹی کے صدر بنے تھے یعنی پانچ سال بعد بھی ان دو دردناک واقعات کے باوجود اسفندیار ولی خان کی صدارت کڑوے گھونٹ کی طرح قبول کر لی گئی اور یہ کڑوا گھونٹ صرف اعظم ہوتی کے کہنے پر رہبر تحریک نے بادل نخواستہ حلق سے اتارا ؟اب اس بات پر کون یقین کرسکتا ہے ، کہ اس کڑوے گھونٹ کے بعد 2003ء میں دوبارہ رہبر تحریک کو کڑوا گھونٹ پینا پڑ گیا جب اسفندیار ولی خان دوسری مدت کے لئے پارٹی کے صدر بنے -

خان عبدالولی خانؒ کے ناقدین و پیروکار دونوں اس بات کی گواہی دینے کے لئے تیار ہیں کہ انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ان کی تمام سیاست کی بنیاد ہی اس بات پر تھی کہ انہیں موت قبول تھی لیکن جھکنا ان کی کتاب میں نہیں تھا لیکن افسوس کہ اعظم ہوتی نے اسفندیار ولی خان کے خلاف اپنے تعصب کے اظہار میں نہایت ہی بودی گندی اور ناقابل اعتبار باتیں کہیں- 

ہم نے کئی خدائی خدمت گاروں کی یہ عادت نوٹ کی ہے کہ وہ جب باچاخانؒ کے ساتھ اپنے تعلق کی گہرائی بیان کرتے تھے تو اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کو یکجا کر کے کہتے کہ میں اور باچا خانؒ ایسے جار ہے تھے ، اعظم ہوتی کو تو خدائی خدمتگاری کا کوئی موقع نصیب نہیں ہوا کہ وہ اپنے والد کی وفات کے وقت فقط گیارہ سال کے تھے اور یہ 1957ء کی بات ہے تاہم رہبر تحریک کے ساتھ اپنی قربت انہوں نے کچھ اسی انداز میں بیان کی اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ دو فیصلے ایسے تھے کہ جن میں وہ شامل نہیں تھے ، پہلا فیصلہ مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کے خاتمے کا تھا اور دوسرا فیصلہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد کی پریس کانفرنس کا تھا، کہتے ہیں کہ پہلے فیصلے کے وقت وہ تاخیر سے پہنچے تھے اور دوسرے کا تو انہیں پتہ ہی نہیں تھا - 

اب اس صریح دروغ گوئی کاکیا نام رکھا جائے ؟ان کے خیال میں لوگوں کی یاداشت اتنی کمزور ہے وہ بھول گئے کہ اعظم ہوتی اس اتحاد کے خاتمے کے خلاف تھے ، انہوں نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا لیکن ان کی رائے کو مستر د کردیا گیا تھا ، وہ اتحاد کے خاتمے کے بعد بھی وزارت کے مزے لوٹنے روزانہ دفتر جاتے تھے اس بات کا انکشاف اخبارات میں ہوا اور پارٹی نے ان کی سر زنش کی تو انہوں نے کھمبا نوچتے ہوئے کھسیانے کو ترجیح دی - 

دوسرا فیصلہ یعنی رہبرتحریک کی نائن الیون کے بعد کی پریس کانفرنس کے حوالے سے بھی انہوں نے حد درجہ دروغ گوئی سے کام لیا۔ چارجون 2013 کو پشاور میں منعقدہ پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ اس پریس کانفرنس سے قبل رہبر نے ان سے مشورہ کیا تھا اور ان کے مشورے کو شایان شان طور پر مستر د کردیا گیا تھا، گویا ان کی ایسی کوئی قربت رہبر تحریکؒ کے ساتھ نہیں تھی جس کی بنیاد پر ان کی باتوں کو سچ مان لیا جائے ۔ نواز شریف کے ساتھ ان کی قربت یا نیاز مندی کا احوال بھی واقفانِ حال کو معلوم ہے ، نواز شریف کی اس فون کال کا ذکر ضروری ہے جب انہوں نے 1997ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد رہبرتحریک کو فون کرکے کہا تھاکہ اعظم ہوتی کے سوا کسی کوبھی آپ وزیر بنوا دیں۔ وہ تو اعظم ہوتی کو اپنی کابینہ میں شامل کرنے کے روادار نہیں تھے ، نیازمندی اور قربت کہاں سے آگئی ؟

اسفندیار ولی خان کے بارے میں ولی باغ کے اردگرد ایک قصہ مشہور ہے ۔ کہتے ہیں کہ رہبر تحریک نے اپنی زندگی میں ولی باغ کی تقسیم کر دی تھی اور اس میں اسفندیار ولی خان کا حصہ ناقابل یقین حد تک کم رکھا ، اس پر ایک بیٹے کا اپنے والد سے گلہ فطری ہے چنانچہ اسفندیار ولی خان نے رہبرتحریک سے اس بے نوازی کی وجہ پوچھی تو خان عبدالولی خانؒ نے نہایت ہی تاریخ ساز جواب دیا اور کہا’’میرے بیٹے یہ زمینیں جائیدادیں عارضی چیزیں ہیں ، تمہیں میں ایک ایسی چیز دوں گا جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی تم سے چھین سکے گا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا‘‘۔ سو اعظم ہوتی اور ان کے ہمخیالوں کے لئے یہ بات کافی ہے ۔وہ چیزباچاخان اور خان عبدالولی خان کی کرشماتی شخصیتوں کی سیاسی و عوامی وراثت تھی وہ محبوبیت تھی جو ان دو بزرگوں کو نصیب ہوئی اور رہبرتحریکؒ جاتے جاتے وہ سب کچھ اسفندیار ولی خان کو سونپ گئے ۔ جو نہ کم ہوگی جو نہ عارضی ہے اور سب سے بڑی بات وہ کوئی چھین بھی نہیں سکتا ۔ اسے تجزیہ ہی نہیں چیلنج بھی سمجھا جائے ۔ 

Tuesday 21 May 2013


عوامی نیشنل پارٹی کی شکست ۔چند معروضات
زلان مومند
 

مسیح الافاغنہ باچاخانؒ کے ایک پیرو کار کی حیثیت سے عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی شکست کو روزمرہ کی دیگر ناکامیوں اور ناآسودہ خواہشات کے سلسلے کی ایک کڑی کہنا نہایت ہی دشوار ہے ، اگرچہ ایک نہایت ہی قلیل ، غیر نمائندہ مگر مؤثر پختون قوم پرستوں کی ایک تعداد عوامی نیشنل پارٹی سمیت کسی بھی پختون قوم پرست سیاسی جماعت کی انتخابی عمل میں شرکت کو غداری اور پختونوں کی غلامی یا سیاسی حقوق سے محرومی کے سلسلے کو دوام دینے کی کوشش سمجھتی ہے لیکن اس بات پر بہر حال بحث کی گنجائش موجود ہے اور متبادلات کی عدم دستیابی کو اس ساری بحث میں مرکزی نکتے کی حیثیت بھی حاصل رہے گی تاهم سر دست موضوع انتخابی عمل میں شرکت یا عدم شرکت نہیں بلکہ ان عوامل کا جائزہ لینا ہے جن کی وجہ سے اے این پی کو انتخابات میں ایک ایسی شکست ہوئی جس نے اے این پی کے ہر کارکن کو بطور خاص اور پختون قوم پرستوں کے ہر گروہ کو دلی رنج سے دوچا ر کیا ، پہلی بات یہ ہے کہ صوبہ پختونخوا میں تحریک انصاف کو حاصل ہونے والا مینڈیٹ سو فیصد حقیقی نہیں ، انتخابی بے ضابطگیوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے کہ اس صوبے میں انتخابات کی شفافیت رائے دہندگان کی سوفیصد سے بھی زیادہ شمولیت کی دلیل سے ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے ۔انتخابی عمل کی شفافیت جاننے کے لئے فافن نامی ادارے نے جو رپورٹ اوائل میں دی تھی اس کی شہادت کے لئے کسی برهان کی ضرورت قطعی نہیں ، این اے ون کی نشست پر ایک پولنگ سٹیشن کے پریزائیڈنگ افسر نے اس حوالے سے خود ہمیں بتایا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ نتائج دینے کے روایتی طریق کار کی تبدیلی بھی ایک ایسی شکایت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،پولنگ ایجنٹس کو تصدیق شدہ انتخابی نتائج دینا پریزائیڈنگ افسر کی ذمہ داری اور مسلمہ انتخابی اصول ہے لیکن بعض"حکمتوں" کے پیش نظر تصدیق شدہ نتائج دینے سے صاف انکار کیا گیا ، پاکستان کی تاریخ میں اس انتخابات کی شفافیت اس حوالے سے بھی متنازعہ رہے گی کہ ان انتخابات میں کئی حلقو ں میں رات کو جیتنے والے امیدوار صبح ہار گئے تھے ، لیکن ان تمام امور کے باوجود اے این پی کی قیادت نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا ، اور ان کے حکومت سازی کے حق کے خلاف جے یو آئی (ف) کی کاوشوں کو غیر جمہوری عمل قرار دیا ، انتخابات میں تحریک انصاف کے اس درجہ پر کامیابی شکوک و شبہات سے خالی نہیں ، جن علاقوں میں تحریک انصاف نے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتیں وہاں پر تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا خاصہ یعنی عمران خان کا جلسہ شاذ ہی منعقد ہوا، انہ ہی ان علاقوں میں سیٹلائٹ ٹی وی چینلز دیکھنے کی سہولت تھی جن میں نماز پڑھتے ہوئے عمران خان کی پاکبازی کے اشتہارات چلائے جاسکتے ۔گویا تحریک انصاف کا پیغام نجانے کس انجانے طریقے سے وہاں پہنچا ؟اس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ۔ین اے ون جہاں سے وہ خود کھڑے تھے وہاں پر انہوں نے جس قسم کی اکثریت لی وہ شبہات کو تقویت دیتی ہے ، باخبر لوگ جانتے ہیں کہ صوبہ پختونخوا دراصل پاکستان کے طبقۂ اشرافیہ کی انتخابی لیبارٹری ہے ، یہاں سو فیصد آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ،ویسے بھی پختونخوا اور بلوچستان کے انتخابی نتائج کو ایک نظر دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں اپنی قیادت چننے کا اختیار صرف سندھ اور پنجاب کے عوام کو ہی حاصل ہے ، انتخابی عمل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے باوجود بھی عوامی نیشنل پارٹی کے ہارنے کے عوامل بہر حال موجود ہیں اور جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، ان انتخابات میں ایک تو وہ سیاسی جماعتیں عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں جو گزشتہ پانچ سال سے حزب اختلاف میں تھیں ، پاکستان کی حزب اختلاف کی تمام جماعتیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں اس درجہ بالغ فکری کی حامل نہیں رہیں کہ وہ حکومت کے کسی اچھے کام کی تعریف کریں ، اخبارات میں یہ تجزئے بھی شائع ہوئے کہ اے این پی کو ناقص کارکردگی اور کرپشن کی سزا ملی ، یا یہ کہ پانچ برسوں میں اے این پی کسی قسم کی بہتر انتظامی صلاحیتیں نہ دکھا سکی ، کاش انتخابی نتائج کے سوا بھی اس تجزئے کا کوئی ثبوت ہوتا ، اگرچہ بدانتظامی ، کرپشن اور عدم کارکردگی ایک نہایت ہی عام الزام ہے لیکن اس کا اطلاق ہارنے والی سیاسی جماعتوں پر ہی کیا جاتا ہے ، پنجاب میں اربوں روپے تندوروں میں جھونکنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی معاشی بدانتظامی اور سٹیٹ بینک سے اوور ڈرافٹ لینے کی داستانیں اب کسی کو بھی یاد نہیں ، کیونکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سپریم کورٹ کا کہنا یہ ہے کہ ہر کامیاب فوجی بغاوت کو انقلاب سمجھا جائے ، سو یہاں کے تجزیہ کار اور جغادری نقادبھی اسی اصول کی پیروی کو ضروری سمجھتے ہیں اور عقل و دانش کے بانس پر چڑھ کر صرف انہی سیاسی جماعتوں کو کرپٹ ، بدانتظام اور ناقص کارکردگی کی حامل سمجھتے ہیں جو انتخابات میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ، اگر مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں پنجاب میں سب کچھ مثالی رہا ، دوسری اہم بات جسے اے این پی کی انتخابی کارکردگی کے جائزے کے دوران فراموش نہیں کرنا چاہئے یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے ورکروں اور لیڈروں کو انتخابات لڑنے کے وہی مواقع میسر نہیں تھے جو جیتنے والی سیاسی جماعتوں کو بہر حال میسر تھے ، اور جن کے لئے این آر او جاری کردیا گیا تھا ، طالبان کی جانب سے اے این پی کے جلسوں میں بم دھماکے ٹارگٹ کلنگ اور دھمکیوں کے واقعات کی تعداد اتنی ہے کہ اسے صرف 31کے عدد میں بیان کرنا انصاف نہیں ، یہ حقیقت ہے کہ اے این پی کے تمام فعال کارکنوں یا ان کے رشتہ داروں کو کسی نہ کسی طرح خوف و دہشت کا نشانہ بنایا گیا ، قبل ازانتخابات اس قسم کی دھاندلی کو اے این پی کی انتخابی شکست میں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف ، جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کے قائدین پختونوں کی سرزمین پر دھڑلے سے جلسے منعقد کرتے رہے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کی صف دوم کی قیادت کو بھی یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ہمارے نہایت ہی سینئر ترین تجزیہ کار اپنی گرانقدر تحاریر میں یہ بات بھی لکھتے رہے کہ اے این پی کو امریکہ کی طرف جھکاؤ کے باعث یہ دن دیکھنا پڑا ، اے این پی کے شکست کے دلائل میں سے یہ ایک کاری دلیل کے طور پر میڈیا کے مختلف ذرائع میں بیان کی گئی ، لیکن ایک مرتبہ بھی ان پالیسیوں کی وضاحت نہیں کی گئی جو امریکہ کی طرف جھکاؤ کا اظہار کرتی رہیں ، ہاں البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اے این پی نے امریکہ کے خلاف اعلان جہاد نہیں کیا تھا ، اگر اس سے اتفاق کر لیا جائے تو یہ سوال لازماً پوچھنا چاہئے کہ امریکہ کے خلاف اعلان جہاد کس سیاسی جماعت نے کیا تھا؟نائن الیون کے بعد جو بین الاقوامی سیاسی ماحول بنا ہے اس میں اس لفظ کا استعمال تو ان مذہبی جماعتوں نے بھی ترک کردیا ہے جو پاکستان کی تمام تر خرابیوں کی ذمہ دار امریکی حکومتوں کو سمجھتی رہی ہیں ، اگر طالبان کے خلاف سوات کے آپریشن کو امریکہ کی طرف جھکاؤ سمجھا گیا تو اس کا براہ راست الزام پاکستان کی افواج پر کیوں عائد نہیں کیا جاتا ؟ابھی حال ہی میں برسلز میں پاکستان ، افغانستان اور امریکہ کی اصل قیادت کے اکٹھ کے بعد بھی کسی تجزیہ کار نے امریکی پالیسیوں کی طرف جھکاؤ کی اصل ذمہ دار کی نشاندہی نہیں کی ، اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ایک صوبے کی سیاسی جماعت کب اس درجہ بااختیار بنی ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنا الگ ہی مؤقف رکھے بھی اور پھر اسے نافذ بھی کرے ، یہاں تو پارلیمنٹ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ آزاد’’  خارجہ پالیسی کی دہائیاں دے رہی ہے ، یہی نہیں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف جیسی جماعتیں بھی خارجہ پالیسی کی ‘‘آزادی’’  کی ‘‘جدوجہد’’ کر رہی ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی ٹھوس نکتہ سامنے رکھنے میں ناکام رہی ہیں کہ آخر خارجہ پالیسی کو قید یا غلام کس نے بنایا ہے ؟امریکی پالیسیوں کی طرف جھکاؤ کا الزام یا منطق اگر کسی بھی طور صحیح مان لیا جائے تو یہ بات تو طے ہے ہی کہ 2014ء کا سال اس خطے میں امریکہ کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے کیا وہ 2014ء میں اپنی ‘‘حلیف’’  سیاسی جماعت کو ملکی فیصلوں سے اس قدر لا تعلق رکھنے کی غلطی کر سکتا ہے ؟اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں اس کے اثر ورسوخ کا ہر تجزیہ کار گواہ ہے ۔ان حالات میں اگر کوئی رائے اے این پی کی شکست کے حوالے سے بنتی ہے تو وہ یہی ہے کہ جو لوگ ناز و نعم کے پالے تھے اور جن کی سرپرستی حقیقی مقتدر قوتیں کر رہی تھیں اور جنہوں نے پختون سرزمین کو آتش و آہن کا غسل دیا ان کے حقیقی مخالفین یعنی اے این پی کو سزادی جائے ، ڈبل گیم کھیلنے والے اس بات کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ اے این پی نے اس صوبے اور خصوصاً افغانستان کے حوالے سے ان کے تمام ارادوں کو تاخت و تاراج کر کے رکھ دیاتھا ، یہی نہیں بلکہ ان بدمستوں کو بھی نکیل ڈال دی تھی جو پنجاب میں تباہ کاریوں کی خاطر محفوظ راستہ مانگ رہے تھے ،گو یا اے این پی کو شکست تحریک انصاف نے نہیں دی بلکہ‘‘نامعلوم افراد’’  نے دی ہے ، اس میں بھی ایک نکتہ بہرحال لائق توجہ ہے کہ ان نتائج کے مرتب کنندگان اس امر سے واقف تھے کہ وہ یہ صوبہ کلی طور پر پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ (ن) ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کی جھولی میں نہیں ڈال سکتے ،نه هی مستقبل ایسا کوئی امکان رکهتا هے کیونکہ ان ساری جماعتوں کا ووٹ بینک معلوم افراد کا ہے نامعلوم کا کسی طور نہیں ، یہ صوبہ تکنیکی طور پر تحریک انصاف کی جھولی میں گرا ہے ایسے ایسے اضلاع سے تحریک انصاف کو ہزاروں کی تعداد میں ووٹ پڑے ہیں جہاں تحریک انصاف کی تنظیم تک کا وجود نہیں ، بہرحال ضمنی انتخابات سے یہ بات بطریق احسن واضح ہو جائے گی کہ اس مینڈیٹ میں صناعت کتنی برتی گئی ہے حاصل کلام  یہ ہے کہ اے این پی کی شکست اور تحریک انصاف کی فتح میں نوجوانوں کے ووٹ سے زیادہ ‘‘جوانوں’’ کے اثر ورسوخ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ، اور ہمیں معروف صحافی سہیل وڑائچ کے اس تبصرے سے کلی طور پر اتفاق ہے کہ یہ انتخابات مستقبل کے کسی بھی حوالے کے لئے غیر متعلق ٹھہریں گے اس استثنیٰ کے ساتھ کے ان انتخابات کے بعد پنجاب کا دروازہ تحریک انصاف پر ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا۔