حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Saturday 27 February 2010

بشیر بلور زندہ باد

پیش نوشت :اس سے قبل کہ ہم اس موضوع کی طرف براہ راست بڑھیں اور اپنے خیالات کا اظہار کریں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ پہلے ان جذبات تحسین و ممنونیت کا فائق اظہار کریں جو جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب سے ہم اپنے محترم اور بزرگ جناب بشیر احمد بلور کے لئے محسوس کر رہے ہیں ۔ انہوں نے پشتو کو قومی زبان کہہ کر اس صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے پارلیمانی لیڈر ہونے کا حق ادا کردیا ہے ۔صوبائی اسمبلی کے فلور پر انہوں نے جس جرات و پامردی سے اس موقف کا دفاع کیا ہے اور جس دھڑلے سے اس پر قائم رہنے کا اعلان کیا ہے اسے ہم عوامی نیشنل پارٹی کی ہی نہیں بلکہ پوری قوم (اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ ہم جب قوم لکھتے ہیں تو اس کا مطلب صرف اور صرف پختون قوم ہوتا ہے ) کی خوش بختی سمجھتے ہیں ۔ پاکستان کے آئین میں چاہے اس بات کا اندراج ہو یا نہ ہو مگر جناب بشیر احمد بلور نے جس درد اور جذبے سے پشتو کے قومی زبان ہونے کی دلیل دی ہے اس پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کہتے ہیں کہ 

آفریں باد بریں ہمت مردانہ  تو ......اور..... ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
اسے افسوس اور سخت افسوس سے زیادہ کس لفظ سے تعبیر کیا جائے کہ اس صوبے کے نجیب الطرفین پختون سیاسی اکابرین پشتو کو قومی زبان کہنے پر چراغ پا ہوئے ہیں اور اس قدر شدت سے ہوئے ہیں کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں ۔ ایک اخبار نے لکھاہے کہ بلور برادران نے ہمیشہ متنازعہ باتیں کی ہیں ۔قائد ِ حزب اختلاف جناب اکرم خان دررانی نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے ابھی تک پاکستان بھی تسلیم نہیں کیا (گویا اردو کو قومی زبان نہ ماننا پاکستان ہی سے بغاوت ہے .....ماشاءاللہ) ۔ مفتی کفایت اللہ صاحب اور سکندر لودھی صاحب نے بھی اردو کی قومی حیثیت سے انکار پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ ان سب سے بڑھ کر پختونخوا تڑون کے کنوینر جناب سکندر شیر  پاوصاحب کا بیان بھی آیا ہے جو کہتے ہیں کہ بشیر بلور کا بیان سنگین آئینی خلاف ورزی ہے ۔           

پشتو کے معاملے پر دیگر سیاسی جماعتوں کی غیر حساسیت سے یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ پختونخوا کے معاملے پر بھی ان کی حساسیت صرف ایک دکھاوا بلکہ سیاسی کرتب کے سوا کچھ نہیں ۔ جو لوگ پشتو کے معاملے میں کسی غیرت قومی سے عاری ہیں ان کا پختونخوا کے مسئلے پر جذباتی ہونا کوئی وقعت ہی نہیں رکھتا ۔ خصوصاً وہ پختون اہل قلم جو جناب سکند رشیرپاوکی ذات میں ایک قوم پرست سیاست دان ڈھونڈ رہے تھے یا جو اکرم دررانی کی جانب سے سال 1997ءکے ماہ نومبر میں اسی صوبائی اسمبلی میں پختونخوا سے بھی دو چار ہاتھ آگے کی بات یعنی پختونستان کی قرارداد پیش کرنے پر انہیں بھی قومی درد سے بھرپور سمجھ رہے تھے وہ سب سچائی سے آشنا ہوگئے ہوں گے یہ بات تو صاف ہوہی گئی کہ ان دونوں صاحبان کا اس خاص مسئلے سے کوئی تعلق نہیں 

علاوہ ازیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پختون قوم پرست سیاست کے منجدھار سے الگ ہوکر جناب سکندریا آفتاب شیرپاوکے کاندھوں پر سر رکھ سسکیوں لے لے کر رو رہے تھے انہیں بھی سکندر شیرپاو صاحب کے اس بیان سے پتہ لگ گیا ہو گا کہ اصل اور نقل میں فرق کیا اور کتنا ہے ؟جناب بشیر احمد بلور نے اگر اردو کو رابطے کی زبان قرار دیا ہے تو یہ کوئی انکشاف نہیں ۔ ان سے بہت پہلے ادیب اور دانش ور اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ حقیقت کچھ ایسی ہی ہے ۔ یہ جنرل ضیاع کے دور کی بات ہے جب وہ اہل قلم کانفرنسز منعقد کرواتے تھے ۔ پروفیسر پریشان خٹک اکادمی ادبیات کے چیئرمین ہوا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں شاید جب پانچویں یا چھٹی اہل قلم کانفرنس ہورہی تھی اور پشتو سمیت سندھی کو بھی علاقائی زبان کہا گیا تو دونوں وفاقی اکائیوں کے دانش ور سراپا احتجاج بن گئے ۔ انہوں نے یہ بات منوا ہی لی کہ پشتو ، سندھی ، پنجابی اور بلوچی علاقائی زبانیں نہیں بلکہ پاکستانی زبانیں ہیں ۔ 

اس سے بھی زیادہ قوی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ پاکستان کی چار وفاقی اکائیاں ہیں جن میں سے کسی بھی وفاقی اکائی کی زبان اردو نہیں ۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی اور حیدرآباد میں اس زبان کی سیاسی نمائندگی کے حوالے سے اسے قومی زبان سمجھنا ایک طرف تو وفاقیت کے اصولوں پر مبنی بات نہیں ، اور پھر یہ بات کیسے فراموش کی جاسکتی ہے کہ فی الوقت پاکستان کا آئین ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے ، پارلیمنٹ میں موجود ساری سیاسی جماعتیں اس حقیقت کا ادراک کرچکی ہیں کہ اس آئین میں بہت ساری باتیں ازکاررفتہ میں شمار ہوچکی ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے آئین کی اصلاح کی نیت سے ایک آئینی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی قائم کررکھی ہے جس کے آگے آئین کا مسودہ ترامیم اور اصلاح کے لئے موجود ہے ۔ ہمیں تو اس بات کی بھی سمجھ نہیں آتی کہ جب ہندی اردو تنازعہ کھڑا ہوا تھا تو اس وقت اردو کے وکلاءنے یہ بات باربار کہی تھی کہ اردو رابطے کی زبان ہے اور قیام پاکستان کے بعد بھی ہمارے زمانہ طالب علمی تک درسی کتب میں یہ بات شامل تھی کہ اردو پاکستان میں رابطے کی زبان ہے مگر کسی نے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا لیکن آج ایک نان ایشو کو ایشو بنایا جارہا ہے ۔ 

جو لوگ اردو کو پاکستان اور اسلام سے ملا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں اس بات کا اندازہ ضرور ہونا چاہئے کہ 19مارچ 1948ءکو ڈھاکہ کے ریس کورس گراونڈ اور صرف ایک دن بعد یعنی 21مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے کرزن ہال میں جب جناح صاحب نے اردو اینڈ اونلی اردوکی بات کہی تو دونوں جگہوں پر بنگالیوں کا ردعمل کیا تھا ؟وہ صاحب جو شیربنگال کہلاتے ہیں اور ہمارے نصاب میں بھی جن کا ذکر نہایت طمطراق سے ہوتا ہے وہ جناح صاحب کی آمد کے وقت ہسپتال میں صرف اس لئے پڑے ہوئے تھے کہ انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے ان طلبا ءکے ساتھ مل کر پولیس سے مار کھائی تھی جو اونلی اردوکے وکلاءکے سامنے ڈٹ گئے تھے ۔ اور اسی استقامت کا نتیجہ تھا کہ بنگالی زبان نے بالآخر اپنے لئے ایک وطن کی تخلیق کو منزل سمجھ لیا اور پھر یہ منزل پابھی لی ۔ زبان کی اس بحث کو یہیں پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ ابھی بہت ساری باتیں باقی ہیں اور پشتو(ہماری قومی زبان) کا حق ہے کہ اس کے کیس کی مزید وکالت کی جائے

No comments:

Post a Comment