حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Tuesday 29 October 2013

میڈیا کی برکات۔ اور کچھ بیاں اپنا

                 یہ اس وقت کی بات ہے جب آج سے قریباً ایک عشرہ قبل بسلسلۂ روزگار ہمیں ایک ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہونا پڑا، غریب الدیاری اور خواری(مؤخر الذکر لفظ پشتو اور فارسی دونوں کا سمجھا جائے) کی ایک الگ ہی کہانی ہے اسے پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں ، اس وقت ہماری زبان کا کوئی چینل ہی نہیں تھا ( ابھی حال ہی میں ایک دوسرا چینل کھلا ہے لیکن اس چینل کے آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے کوئی نظر ہی نہیں آتا) اس پر چینل کے مالک کی شدید خواہش تھی کہ اس چینل میں حالات حاضرہ اور نیوز کا بھی شعبہ ہونا چاہئے ، چناں چہ ایک مسئلہ ہمیں درپیش تھا اور وہ یہ کہ ہم نے سب کچھ شروع کرنا تھا اور وہ بھی زیرو سے-
               چینل کے مالک نے ہمیں ایک میٹنگ کے لئے بلوایا ، ایک دوسرے تجربہ کار صحافی جنہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا اور ہمارے چینل کے ڈائریکٹر نیوز تھے وہ بھی موجود تھے، انہوں نے ہم دونوں کے سامنے ایک سوال رکھا کہ پالیسی کیا ہونی چاہئے ؟ہم نے اپنے ڈائریکٹر کی طویل تقریر سنی ، بڑے علمی اور تہذیبی نکات کا عمیق جائزہ انہوں نے نہایت ہی سادہ انداز میں چینل کے مالک کے سامنے رکھ دیا، ان کی باری ختم ہوئی تو محترم مالک نے ہم سے استفسار کیا  ہمارے پاس دلائل و براہین کا وہ قاموس تو نہیں تھا جو ہمارے ڈائریکٹر کے پاس تھا البتہ ہم نے خود مالک سے یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ پالیسی کی ضرورت ہی کیا ہے ؟کیا اس حوالے سے انہیں سرکاری طور پر کوئی ہدایت موصول ہوئی ہے یا وہ خود کسی خاص قسم کی سوچ اس چینل کے ذریعے پروان چڑھانا چاہتے ہیں ؟ہمارے اکھٹے ان سوالات مع تأثرات پر انہیں حیرت ہوئی اور کہنے لگے کہ ابلاغ کے ہر ذریعے کی کوئی پالیسی ہوتی ہے ، ہم نے کہا کہ ایسا سابقہ سویت یونین کے زمانے میں ہوا کرتا تھا ، آزادئ اظہار کے سب سے بڑے وکیل امریکہ اور اس کے حلیفوں نے مختلف حیلوں اور بعض ممالک میں قوانین کے ذریعے ابلاغ کے آزاد ذرائع کا ناطقہ بند کر رکھا تھا ، اور جو اخبارات و جرائد سویت یونین کی طرف معمولی جھکاؤ کا بھی اظہار کردیتے تھے انہیں پراپیگنڈا مشین قرار دیا جاتا تھا ، اور پھر سرکاری مراعات یافتہ میڈیا اس اخبار یا جریدے کا کوئی ایسا نقشہ کھینچتے کہ معلوم ہوتا کہ یہ کوئی شیطانی منصوبہ ہے یا رسالے اخبار وغیرہ کا ایڈیٹر گوئبلز کا کزن ہے ، ان معروضات کا اثر خاطر خواہ ہوا ، پوچھنے لگے کہ پھر کیا کیا جائے ، ہم نے گزارش کی کہ پالیسی کی ضرورت ہی نہیں ، ہم نے سچ ہی کو فروغ دینا ہے ، عوامی مفادات کا خیال رکھنا ہے اور کھرے کھوٹے کی تمیز بتانی ہے اس کے لئے کسی پالیسی کی ضرورت نہیں ، انسان اس درجہ پرترقی کر چکا ہے کہ اب برے بھلے کی تمیز کرنے کے لئے سقراط کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہی ، بچہ بچہ سمجھتا ہے کہ فلاں کام کے پس پشت کیا عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں ، چناں چہ یہ طے پایا کہ کوئی پالیسی ہی نہیں ہوگی ، جو بھی ہوگا خلوص نیت سے ہوگا اور عوامی مفاد کو ہر مفاد پر مقدم رکھا جائے گا-
             سچائی بھی یہی ہے ، سویت یونین کے خاتمے کے سو نقصانات ایک طرف اور یہ فائدہ دوسری طرف کہ اس عظیم تحلیل ریاست نے آزادئ اظہار کی راہ ہموار کر دی ، ہمارے پرانے رفقائے کار ، سرکاری ملازمین اور حکومتی میڈیائی ذرائع سے منسلک صحافت کاروں کے نزدیک اس بات کی اہمیت مشکوک ہو یا ان کے نزدیک پالیسی کا وجود ازبس ضروری ٹھہر سکتا ہے لیکن اب دنیا 1991ء سے بہت آگے نکل چکی ہے ،ذرائع ابلاغ کا ایک کردار متعین ہوچکا ہے اور ان کے کردار کے اثرات بد کی وجہ سے اس تعین کی سمت واضح نہیں ہوپا رہی گویا یہ نو دریافت کرداری تعین بھی مسلسل ارتقا کے مراحل سے گزر رہا ہے ، ابلاغ کا ہر ذریعہ مختلف تجربوں کے ذریعے غلطیوں سے سیکھ رہا ہے ۔ہمارے خیال میں ابلاغ کے کسی بھی سوتے کی کوئی پالیسی نہیں ہونی چاہئے سوائے ایک پالیسی کے اور وہ ہے ملازمین کے تقرر کی ، ان کی اہلیت کے معیار کی ، اور ان کے علم و دانش اور آگہی کی ۔
               یہی دیکھ لیں کہ آج کل ہر نیوز چینل شیخ رشید کو نہایت ہی پرائم اوقات میں دل کی بھڑاس نکالنے کا بھرپور موقع فراہم کرر ہے ہیں اور جناب شیخ بھی ایسے طرز عمل کا مظاہر ہ کر رہے ہیں کہ جیسے ان کے پاس پاکستان کے تمام مسائل کا حل موجود ہے ، اور یہ کہ پاکستان کے ہر مسئلے کا جتنی باریک بینی سے انہوں نے مطالعہ کر رکھا ہے اس قدر علم یہاں کے اداروں اور جامعات کے پاس بھی نہیں ، گویا ہر نوعیت کی سیاسی دانش شیخ رشید کے گھر کی لونڈی ہے ، سوائے ایک طلعت حسین کے جنہوں نے اپنے ایک پروگرام میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اس ملک کی ذہنی پستی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ بڑے بڑے سیاسی دماغوں کی بجائے تمام چینل شیخ رشید کو دن رات سر پر اٹھائے پھرتے ہیں 
             الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے چند سال پیشتر اس رائے کا اظہار ہم نے کیا تھا ہمارے ہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ صحافت کا شوبزنس ہے اسے ٹی وی جرنلزم نہیں کہا جاسکتا ، یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ٹی وی چینلوں نے راتوں رات مشہور صحافیوں کو جنم دیدیا ہے ، جن لوگوں نے اپنی زندگی میں کسی جلوس کی رپورٹنگ نہیں کسی پریس کانفرنس میں نہیں بیٹھے وہ لوگ اچانک نجانے کہاں سے پیراشوٹ کے ذریعے نیوز چینلوں پر سیاست دانوں سے سیاست کی باریک بینیوں پر سوالات پوچھتے رہتے ہیں اور وہ ابھی اس قسم کے اول فول کے ابکائی اور متلی کی سی کیفیت ہوجاتی ہے ، اس پر بھی مستزاد یہ کہ نیوز ریڈروں کو اینکرز بنا دیا گیا ہے ، نہ انہیں کسی سیاسی پارٹی کی تاریخ کا پتہ ہوتا ہے نہ ملکی سیاست کی تاریخ کی سمجھ ہوتی ہے نہ ہی ملکی آئین و قوانین سے کسی قسم کی واقفیت لیکن بھلا ہو پی آر بینک کا جس نے پاکستان میں اس قدر برانچیں کھول رکھیں ہیں کہ ہر قسم کے لوگ نیوز ریڈر سے اینکر ، اینکر سے دانشور اور اب فلاسفر بنتے جارہے ہیں ،ٹی وی پر آ موجود ہونے والے ایسے ماہرین سوات کا کیا ذکر کریں جو سوات کو ساوات کہتے نہیں تھکتے ، ہر چینل کے حالات حاضرہ کے پروگرام کرنے والوں کے پاس ایسے ’’دانشوروں‘‘ کا ایک فہرست ہوتی ہے جنہیں سحری سے لے تہجد تک کے سارے وقت میں کسی بھی وقت بلایا جا سکتا ہے ، اور ان ماہرین کی مصروفیات میں کوئی خلل بھی واقع نہیں ہوتا ۔
            ایک حضرت ہیں جو ڈاکٹر کہلاتے ہیں لیکن اتنا چیختے ہیں اتنا چیختے ہیں کہ ان کی دماغی صحت پر شک ہو جاتا ہے ، صنف نازک کے حسن و جمال اور پیکر کے شیدائیوں نے ایسی خواتین اینکرز کو بھی اس میدان میں لا بٹھایا ہے جن کا نہ تو صحافت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس ملک کے عمومی مسائل کا ان پر کوئی اثر مرتب ہوتا ہے ، یہ بات الیکٹرانک میڈیا تک محدود نہیں ، اخبارات کے صفحات کیا زیادہ ہوئے ان کا پیٹ بھرنا اور بھی مشکل ہوگیا ، جو لوگ پروف ریڈر تھے وہ اداریہ نویس و کالم نویس بن گئے چلئے کسی طور ایک مقام پر اس دلیل کا استحکام متاثر ہوسکتا ہے ، لیکن ہومیوپیتھک ڈاکٹروں ، بیمہ ایجنٹوں اور حکیموں کے ساتھ ساتھ ایسے ہی پیشوں سے وابستہ لوگ بھی اب کالم نویسی کا شغل فرمانے لگے ، پہلے زمانے میں اخبارات کے ادارتی صفحے پر ایک آدھ کالم ہوتا تھا لیکن آج کل ایسی الٹی گنگا بہنے لگی ہے کہ جس نے دس سطریں کھینچیں بس وہ تصویر کے ساتھ جناب مدیران کرام کالم کی صورت شائع کر دیتے ہیں ، پھر سکولوں سے وابستہ اساتذۂ کرام کی ایک وافر تعداد بھی اس کار خیر میں مصروف ہے ، ان کا مطمح نظر یہ ہوتا ہے کہ جیسے تیسے ہیڈ ماسٹر کو اپنی اخباری سرگرمی سے کنٹرول کیا جاسکے ، ایسے حالات میں اچھا بھلا انسان بھی حسن نثار جتنا مایوس ہو سکتا ہے ۔ان میڈیائی دانشوروں کی بصیرت افروزیوں کی داستان ختم نہیں ہوئی ۔ یا ر زندہ صحبت باقی !! 

No comments:

Post a Comment