حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Sunday 19 January 2014

مسیح الافاغنه باچاخان کی برسی کے موقع پر ان کے چند اقوال ۔۔۔۔۔زلان مومند



اقوالِ رہبرؒ 

گزشتہ صدی کئی حوالوں سے معتبر حیثیت رکھتی ہے۔اس صدی میں بہت ساری ایسی شخصیات گزری ہیں جن کی وجہ سے اہم ترین واقعات پچھلے سو برسوں کی یادگار بن گئے۔برِّ صغیر کی آزادی کی تحریک ایک ایسا واقعہ ٹھہر گئی جس کی پشت پر ایک سے زیادہ عظیم ہستیاں بطورِ عامل موجود رہیں۔جس خطہء زمین پرہم جی رہے ہیں وہاں ایک ایسی قدآور شخصیت نے تاریخ کا دھارا موڑا جس کی سادگی، بے ساختگی، عجز، پر ہیز گاری اور سماجی اصلاح کا بے نظیر جذبہ اس کے سیاسی افکار پر ہمیشہ غالب رہا ۔ایک ایسی قوم جس نے جنگ و جد ل کو بطورِ کلچر اپنا رکھا تھا اس قوم کو اس مردِ درویش نے عدم تشدد کا درس دیا ۔پھر تاریخ کے صفحات پر عجیب و غریب تصویریں ابھریں ۔وہ قوم جس میں برادر کشی کو جواز میسر تھااور جو تشدد اور اسلحے کو علم و ہنر کا درجہ دیتی تھی اس کوبیچ چوراہوں میں ظلمِ فرنگ کا سامنا کرنا پڑا۔شجاعت ، جرأت اور بے خوفی سے لبالب بھرے اس مٹی کے بیٹوں کو بے دردی سے انگریز سپاہی اور ان کے دیسی چاکر پیٹتے رہے لیکن اس باخدا مردِ درویش کے عدم تشدد کے فلسفے نے ان کا ہاتھ روک رکھا تھا۔بس ایسے ہی ہوتے ہیں خدا والے۔یہی وجہ تھی کہ فرنگی اپنے سرکاری کاغذات میں یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ
 Non violent Pathan is much dangerous than the violent Pathan.
انتہائی خوف اور بے کسی کے عالم میں ایک جابر بدیسی راج کا اس سے بہتر خراجِ تحسین اور کیا ہو سکتا ہے؟باچا خان ؒ کا مشن ایک ایسی ترکیب ہے جس کا استعمال آج کل نہایت عام ہے لیکن کسی سے پوچھا جائے کہ یہ مشن کیا تھا ؟تو شاید اس کے جواب میں کوئی دو ٹوک بات کسی کو نہ سوجھے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشن غیر واضح تھا ۔افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان کی تعلیمات بھی اسی طرح فراموش کر دی گئیں جیسے ان سے پہلے بہت سارے سماجی مصلحین کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالا گیا۔ذیل میں جو اقوالِ رہبرؒ دئیے جا رہے ہیں درحقیقت باچا خان کا مشن انہی پر مبنی ہے۔گویا یہ صرف اقوالِ رہبرؒ نہیں بلکہ رہبرِ اقوال بھی ہیں۔

* ہماری جنگ صبر کی جنگ ہے ۔ہم صبر سے کام لیں گے اور خود کو سپردِ خدا کریں گے،اپنے دلوں سے نفاق دور کریں گے،خود غرضی کو جڑ سے اکھاڑیں گے کیونکہ ہماری بربادی کی بنیادی وجوہات یہی ہیں۔

* ہر ایک گروہ میں بے اتفاقی کی پیدائش ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔
* اے میرے پختون بھائیو! خوف اور مایوسی کا شکار نہ ہونا!یہ خدا کی طرف سے ہماری آزمائش اور امتحان ہے۔پس بیداری کی ضرورت ہے۔اٹھیے اور مخلوقِ خد ا کی خدمت پر کمر بستہ ہو جائیے۔
* آزادی کا پودا نوجوانوں کی قربانیوں سے سینچا جاتا ہے۔یہ پودا جو ہم نے لگایا ہے ضرور پھلے اور پھولے گا کیونکہ ہمارے نوجوانوں کی قربانیاں بے نظیر ہیں۔
* میرا عقید ہ ہے کہ ایک قوم صر ف اسی وقت ترقی کر سکتی ہے جب اس کی عورتیں مردوں کے شانہ بہ شانہ گاڑی کے دو پہیوں کی طرح کام شروع کریں ۔
* وہ کام جو کھل کے نہ کیا جا سکے اور در پردہ ہو وہ انسان میں کمزوریاں اور خوف پیدا کرتا ہے۔
* اچھا قانون بری نیت سے بنے تو اس کا استعمال یقیناًبرا ہو گا۔
* جس قوم کی نظر میں اپنی زبان کی وقعت نہ رہے اس قوم کی اپنی وقعت نہیں رہتی اور جس قوم سے اپنی زبان کھو جائے وہ قوم خود کھو جاتی ہے۔
* صنف کی بنیاد پر کسی کو تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے ۔توقیر کی بنیاد صرف عمل ہے۔
*اگر آپ نے کسی بھی قوم کے مہذب ہونے کا اندازہ لگانا ہے تو یہ دیکھئے کہ اس قوم کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ اور سلوک کیسا ہے ، جن لوگوں کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ ہتک آمیز ہو وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں
* عدم تشدد ایک طاقت ہے جس کا ہتھیار تبلیغ ہے۔عدم تشدد ، ہمت، حمیت ، محبت اور جرأت پیدا کرتا ہے جبکہ تشدد لوگوں میں نفرت اور خوف کو جنم دیتا ہے۔
* جس قوم کی خواتین بیدار ہو جائیں اور ملکی آزادی کا عہد کر لیں اسے کوئی بھی غلام نہیں رکھ سکتا ۔
* انقلاب ایک سیلاب ہے جو خفتہ لوگوں کو بہا لے جاتا ہے۔
* ہمارا فرض دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلانا ہے۔ہم اس قوم اور حکومت کی مخالفت کریں گے جو مخلوقِ خدا پر ظلم ڈھاتی ہو چاہے ظالم ہمارا بھائی اور ہمارا ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو۔
* ہمیں چاہے کوئی کتنی ہی تکلیف دے ، ہم پر ظلم کرے، ہمارے ساتھ زیادتی کرے لیکن ہم انتقام نہیں لیں گے بلکہ صبر کریں گے اور ایسے فرد، قوم یا حکومت کو سمجھانے کی کوشش کریں گے۔
* ہماری جنگ عدم تشدد کی جنگ ہے اور اس راستے میں آنے والی تمام تکالیف اور مصائب ہمیں صبر سے جھیلنے ہوں گے۔
* غلامی سے بڑھ کر لعنتِ خداوندی اور کوئی نہیں۔
* جو قوم ایک طویل مدت تک غلامی کی شکار رہے اس قوم کا بالآخر خاتمہ ہو جاتا ہے۔
* سچا خدا ئی خدمت گار اسمبلی میں صرف مخلوقِ خدا کی خدمت کے جذبے کے تحت جاتا ہے۔
* ناکام ہونے کا غم انہیں لاحق ہوتا ہے جو اپنے اغراض کے لئے کام کرتے ہیں۔جو لوگ خدا کی راہ میں نکلتے ہیں اور خدا کے لئے کام کرتے ہیں انہیں ناکامی کا غم نہیں ہوتا۔
* جو اقوام باتیں کم اور عمل زیادہ کرتی ہیں وہی اپنی منزل پاتی ہیں۔
* سیادت قومی خدمت ہے اس لئے یہ قوم کی مرضی و منشا کے مطابق ہونی چاہئے۔اگر حکمرانی میں قوم کی مرضی و منشا نظر انداز ہو تو سیادت عزت کی بجائے ذلت کا باعث بن جاتی ہے۔
* تکلیف کے فیصلے کبھی بھی کثرتِ رائے سے نہیں ہو سکتے ۔
* جس قوم میں دلیری اور قربانی کا مادہ باقی نہیں رہتا وہ قوم ہمیشہ دوسری اقوام کی شجاعت میں اپنے خوش ہونے کے مواقع ڈھونڈتی رہتی ہے۔
* خدا کو خدمت کی ضرورت نہیں۔مخلوقِ خدا کی خدمت ہی دراصل خدمتِ خداوندی ہے۔جو کوئی بھی سچے دل سے برائے خدا قوم کی خدمت کرے اس کا راستہ کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔
* اس ملک پر عورتوں اور مردوں کا یکساں حق ہے۔
* ہمارا گھر تشدد کی وجہ سے برباد ہو چکا ہے۔آئیے اپنے اس تاراج گھر کو پھر سے آباد کریں۔

( ان تمام اقوال کا مآخذ باچاخانؒ کی خود نوشت سوانح حیات ’’میری زندگی اور جدوجہد ‘‘ہے۔)

No comments:

Post a Comment