حرف به حرف

زلان مومند پختونخوا کے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ان کا کالم حرف بہ حرف کے عنوان کے تحت صوبے کے ممتاز اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ بلاگ ان کی گزشتہ تحاریراور تازہ تخلیقات کا انتخاب ہے

Friday 1 November 2013

ایک کہانی


قریش خٹک بنیادی طور پر ایک صحافی ہیں ‘بڑا عرصہ پشاور میں رہے ہیں ‘صحافتی سیاست میں اچھے خاصے متحرک تھے لیکن اب وہ این جی اوز کو پیارے ہو چکے ہیں ‘ظاہر ہے خاندان میں وسعت ضروریات میں وسعت لے کر نمودار ہوتی ہے اور پھر دل ودماغ کی قوتِ فیصلہ سازی میں معدے جیسا عضوِ کثیف بھی شامل ہوجاتاہے تو ایسے میں صحافت جیسے پیشے کو بطور پیشہ اپنانا مشکل ہوجاتا ہے ‘ہاں البتہ ایک شوق یا عادتِ مرغوب کی حیثیت سے اس کی موجودگی گراں نہیں گزرتی ‘ویسے بھی ایک لکھاری تبھی لکھنا بند کرتا ہے جب وہ سانس لینا بند کر دے ‘ورنہ اُصولی طور پر وہ اس وقت بھی لکھ رہا ہوتا ہے جب کچھ بھی نہیں لکھ رہا ہوتا۔ایک ای میل میں رفیقِ شفیق قریش خٹک نے طبع زاد ایک کہانی بزبانِ افرنگ لکھی ہے ۔کہانی اس قدر متعلق ہے کہ اس کا ترجمہ کئے بغیر موجودہ مہمل حالات کو کوئی معنے نہیں پہنائے جاسکتے۔ خوف خلقِ خدا کے باعث اس میں تھوڑی ترمیم کرنی پڑے گی تاہم کوشش کی جائے گی کہ اس سے اصل معنے قتل نہ ہوں ۔قریش خٹک لکھتے ہیں کہ یہ کہانی انہوں نے اپنی بچی کے لئے لکھی ہے حالانکہ میرا خیال ہے کہ یہ کہانی سب کے لئے ہے۔کہانی ملاحظہ ہو
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بدمعاش شہزادے نے ایک بندر پال رکھا تھا جو اسی شہزادے کی مانند شریر و بد طینت تھا۔اس شریر و شر انگیز بندر کے پالنے کی وجہ یہ تھی کہ بدمعاش شہزادہ اپنے دیگر ہم منصبوں کا جینا دو بھر کرنا چاہتا تھا اور اس بندر کی چالاکیوں اور شرارتوں سے واقعی اس بدمعاش شہزادے کی دلی مرادپوری ہوتی رہتی تھی ۔کوئی اس شریر بند ر کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا۔شہنشاہ معظم بھی شہزادے اور بندرکی حرکتوں سے محظوظ ہوتے رہتے تھے اور اس قدر ان کو شہزادے اور بندر کی ادائیں بھائیں کہ شہنشاہ معظم نے شہزادے کو باقاعدہ الگ سے ایک اچھی خاصی رقم دینی شروع کردی تاکہ حظ اُٹھانے کی شدت میں اضافہ ہوتارہے۔اپنے بندر کی شرارتوں پر مفخّر شہزادہ شہنشاہ کے اس التفات کے باعث اچھا خاصابہک گیا بلکہ زا ئد الاعتمادی کا شکا رہو گیاچناں چہ شہزادے نے فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ خود شہنشاہ معظم کو تختۂ آزار بنایا جائے سو اس نے بندر کو حکم دیا کہ قصرِ شہنشاہی کوہدف بناؤ۔بندر نے حکم کی تعمیل بحسن و خوبی انجام دی ‘شہنشاہ کا قیمتی گل دان توڑ دیا ‘ان کے توشہ خانے میں ایک ہڑبونگ برپا کر دی اور ایسی اتھل پتھل مچا دی کہ الحفیظ و الامان !شہنشاہ معظم نے دربار سے دیوان خانے آکر جو یہ تباہی دیکھی تو غصے سے لال پیلے ہو گئے ‘منہ سے جھاگ بہنے لگی اور دھاڑتے ہوئے بندر کے فی الفور قتل کا شاہی حکم جاری کر دیا۔شہزادے کو قطعاًحالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔تاہم جب بات بہت بڑھ گئی اور شہنشاہ نے ہر قسم کا وظیفہ موقوف کرنے کی دھمکی دے دی تو شہزادے نے بندر کو گھنے جنگل میں فوری طور پر روپوش ہونے کا مشورہ دیا ۔بندر جنگل چلا گیا‘شہزادے نے شہنشاہ کو لکھوا بھیجا کہ بندر گھنے جنگلوں میں روپوش ہو گیا ہے اور اس علاقے میں بندر کو اس لئے تلاش نہیں کیا جا سکتا کہ وہاں اس کی عملداری کمزور ہے ‘اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ گھنے جنگلوں میں بندر کی تلاش کا مشکل کام سر انجام دے سکے ‘ اس پر شہنشاہ نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دئے اور اپنی فوجیں بھی بھجوا دیں اور شہزادے کو حکم دیا کہ ان افواج کی سرکردگی میں فوری طور پر گھنے جنگلوں میں بندر کی تلاش شروع کی جائے اور ہر حال میں اس کا خاتمہ یقینی بنایا جائے ۔چاروناچار شہزادے کو بادلِ نخواستہ بندر کی تلاش میں شہنشاہ کی فوجوں کے ساتھ گھنے جنگلوں کا سفر اختیار کرنا پڑا ‘فوج بندر تلاش کرنے میں بالآخر کام یاب ہو گئی ‘انہیں بندر ایک اونچے درخت پر بیٹھا مل ہی گیا ۔انہوں نے فوری طور پر شہزادے کو خبر کر دی شہزادہ نے جب دیکھا کہ فوجیں بندر کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو سخت دل گرفتہ ہوا تاہم دل شکستہ نہیں ہوا ‘شہنشاہ کے عساکر کے اعلیٰ افسر نے بندر کو گولی مار نے کا حکم دیا لیکن شہزادے نے اسے حکمت عملی کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ یہ مناسب فیصلہ نہیں ‘بہتر یہ ہوگا کہ پہلے درخت کو کاٹ دیا جائے ۔ادھر شہنشاہ کو شہزادے نے مراسلہ بھجوا دیا کہ مبارک ہو !شریر بندر کا اتاپتا مل گیا ہے اور وہ جس درخت پر بیٹھا ہے اس کے کاٹنے کا انتظام ہو رہا ہے لہٰذا ان حالات کے پیش نظر وسائل کی مزیدفراہمی پر غور کیا جائے یہ اور اسی قسم کی دیگر باتو ں سے ایک اچھاخاصا دفتر بنا کر شہنشاہ کو تواتر سے بھجوایا جانے لگا ادھر بندر ایک درخت سے دوسرے درخت پرپھلانگتا رہا ۔شہنشاہ کی فوج نے درختوں کو کاٹ کاٹ کر پورے جنگل کا حلیہ بگاڑ دیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پورے جنگل کو گنجا ہی کر دیااس صورتِ حال میں جنگل سے نایاب پرندے نقل مکانی کرنے لگے ‘جانووروں کو شہنشاہ کی فوج ذبح کر کے خوراک کی کمی پوری کرتی رہی ‘شہزادے کی سفارش پر نقد رقوم اور دیگر وسائل فراہم ہوتے رہے ‘ہوتے ہوتے اس اثنا میں آٹھ برس بیت گئے ۔اب شہنشاہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا ۔اس نے ایک آخری خط شہزادے کو لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر جلد ہی بندر کا خاتمہ نہ کیا گیا تو شہنشاہ کو خود آنا پڑے گا ۔یہ دھمکی بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی سو شہنشاہِ معظم خود عازم جنگل ہوئے جنگل پہنچنے پر انہوں نے افواج کی قیادت خود سنبھالی اور بندر کے گرد گھیرا تنگ کردیا اور ساتھ میں شہزادے سے اس رقم کی تفصیل اور حساب مانگا جو بندر کے خلاف اس مہم پر خزانۂ شاہی سے صرف ہوئی تھی ‘شہنشاہ کی خوشنودی کا ایک آخری حربہ شہزادے کو یہ سوجھا کہ اس نے پورے جنگل میں آگ لگوا دی ‘جنگل کی آگ پورے علاقے میں پھیل گئی ‘دھویں کے بادل دور دور سے نظر آنے لگے ‘ایک دھواں تھا جس نے بینائی کو مفلوج کر دیا ‘اور یہ دھواں جب رخصت ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ دور پہاڑ کی چوٹی پر شریر بندر شہزادے کے کاندھے پر بیٹھا خوخیا رہا تھااور شہزادہ بندرسے اٹھکھیلیوں میں مصروف تھا‘لوگوں نے جب بندر کو شہزادے کے کاندھے پر سوار دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے اس پر شہزادے نے ایک فلک شگاف چیخ میں کہا کہ اسے یہ بندر ہر کسی سے پیارا ہے اور وہ کبھی بھی اس بندر کو کسی کے ہاتھوں ختم ہونے نہیں دے گا۔شہزادے نے یہ کہا اور پہاڑ کی دوسری جانب اتر گیا‘‘۔
کہانی اگرچہ یہاں پر ختم کر دی گئی ہے مگر اصل کہانی یہیں سے شروع ہوتی ہے ‘یعنی اس جنگل کے نذرِآتش ہونے کے نقصانات کی روداد۔ویسے اس کہانی کا نتیجہ ہی اصل کہانی ہے اور اس کا انحصار کہانی کے قاری پر ہے کہ وہ اخذ کیا کرتا ہے ؟

No comments:

Post a Comment